... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
30 اکتوبر 2020کو ‘کون بنے گا کروڑپتی 12’شو میں امیتابھ بچن نے سوال پوچھا25دسمبر 1927کو ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر اور ان کے حامیوں نے کس مذہبی کتاب کو نذر آتش کیا تھا؟ جواب کے لیے چار متبادل دیے گئے (a) وشنو پران (b) بھگوت گیتا(c) گ وید(d)منو سمرتی’۔ جواب کے بعد امیتابھ بچن نے بتایا کہ 1927میں ڈاکٹر بی آر امبیڈ کر نے ذات پات کی بنیاد پر تفریق کرنے اور چھوا چھوت کو نظریاتی طور پر درست قرار دینے والی قدیم ہندو مذہبی کتاب منوسمرتی کی مذمت کرکے اس کے نسخے جلائے تھے ۔اس حقیقت بیانی پر بی جے پی کے رکن اسمبلی ابھیمنیو پوار نے لاتور پولیس میں شکایت درج کرائی کہ امیتابھ بچن نے ہندووں کے جذبات کو مجروح کیا نیز ہندو اور بدھ مت ماننے والوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ وہ بیچارے کذب گوئی کا الزام نہیں لگا سکتے تھے کیونکہ منو سمرتی ذات پات کی بنیاد پر بھید بھاو کو جائز ٹھہراتی ہے اور اس کا جلایا جانا تاریخی حقیقت ہے اس لیے مذہبی جذبات کا سہارا لیا گیا۔ ہندو مہاسبھا یوپی کے صدر رشی کمار ترویدی نے بھی اس شو کے خلاف لکھنؤ میں شکایت درج کرائی تھی۔ ہندوتوا نوازوں کا سب سے بڑ مسئلہ یہی ہے کہ وہ منو کی تعلیمات کو جواز تو نہیں پیش کرسکتے پھربھی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
مذہبی آزادی سے متعلق یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم کے تازہ رپورٹ یہی کہتی ہے کہ ہندوستان کا سیاسی نظام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہے ۔یو ایس سی آئی آر ایف کے جائزے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اتحاد کو ‘امتیازی’ قوانین کے فروغ کی وجہ بتایا گیا حالانکہ وہ دونوں ایک جان دو قالب ہیں اور جان منوسمرتی ہے ۔امریکی کانگریس کی حمایت یافتہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ‘قومی اور ریاستی سطح کے قوانین مذہبی آزادی پر سخت پابندی عائد کرتے ہیں’۔یہ تو ضمیمہ ہے مگرامسال مارچ (2025) میں جب سالانہ رپورٹ جاری ہوئی تو وزارتِ خارجہ نے اسے متعصبانہ اور سیاسی محرکات سے مغلوب کہہ کر مسترد کردیا تھا کیونکہ اس میں بی جے پی اور آر ایس ایس ، کو’ایک ہندو قوم پرست گروپ’ کہہ ان کے اشتراک عمل سے شہریت، تبدیلی مذہب مخالف اورگئوکشی کے قوانین سمیت متعدد امتیازی قوانین بنانے اور لاگو کرنے کی ببات کہی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 2014 سے سیکولر آئینی اصولوں کے برخلاف ہندو ریاست قائم کر کے فرقہ وارانہ پالیسیوں کو نافذ کیا جارہا ہے۔
سنگھ پریوار میں اس کا اقرار کرنے کی جرأت نہیں ہے اس لیے رپورٹ کو حیلہ سازی سے مسترد کیا جاتا ہے ۔ مذکورہ بالا رپورٹ میں 2002
کے گجرات مسلم مخالف فسادات سے لے کر عمر خالد کے ساتھ ہونے والی زیادتی تک کا ذکر ہے ۔ ان کرتوتوں کی بدنامی پر لیپا پوتی کے لیے
سنگھ پریوار نے امریکہ کی اسکوائر پیٹن بوگس (ایس پی بی) نامی فرم کو 2025 کی پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران لابنگ (دلالی) کرکے
آر ایس ایس کے مفادات کی خاطر330,000 ڈالر خرچ کیے لیکن روپیہ سے حقیقت نہیں چھپتی۔ دہلی دھماکوں کے بعد مسلمانوں کے
خلاف نفرت و عناد کا طوفان برپا ہے اور ملک بھر میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ابھی حال میں چھتیس گڑھ کے اندرانسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے دو نابالغ لڑکوں پر آئی ایس آئی ایس ماڈیول سے آن لائن روابط کے الزام میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے ) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ ان مسلم نوجوانوں پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر فرضی سوشل میڈیا ہینڈل کا استعمال کر کے پروپیگنڈہ کررہے تھے ۔چھتیس گڑھ میں یو اے پی اے کا یہ پہلا معاملہ ہے ۔اس سے قبل مہاراشٹر اے ٹی ایس نے پونے سے 37 سالہ سافٹ ویئر انجینئر زبیر ہنگرگیکر پر القاعدہ کے خیالات کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کا الزام لگاکر گرفتار کیا تھا۔ان پر نوجوانوں کو ہندوستان کے انتخابی عمل سے دور رہنے کے لیے اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا حالانکہ ووٹ چوری کے بعد خود الیکشن کمیشن عوام کو انتخابی عمل سے بد دل کررہا ہے ۔ زبیر کو سوشیل میڈیا کی سرگرمیوں کے سبب غزوہ ہند، خلافت کے قیام اور جمہوری عمل کو مسترد کرنے سے جوڑ سخت قوانین لگا دئیے گئے ۔ دہلی بم دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کے بہانے 11 نومبر کو آسام پولیس نے کچھار کے ایک سبکدوش پرنسپل کو حراست میں لے لیا تھا۔ سرکاری انتظامیہ ایک طرف تو کشمیر سے آسام تک دہلی دھماکوں کی آڑ میں دہشت پھیلا رہا ہے مگر خود دارالحکومت میں دہلی پولیس کی کرائم برانچ جب ایک بین الاقوامی اسلحہ اسمگلنگ نیٹ ورک کا پردہ فاش کرتی ہے جس کا براہِ راست تعلق پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے ہے تب بھی اسے دہشت گردی کے بجائے جرائم تک محدود کردیا جاتا ہے کیونکہ اس میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ہندو ہیں ۔
مجرم کو اس کے مذہب کی عینک سے دیکھنا درست نہیں ہے مگر انتظامیہ کا امتیازی سلوک ایسا کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔دہلی میں گرفتار ہونے والے اسمگلرس کو آئی ایس آئی نے ڈرونز کے ذریعہ اسلحہ بھیجا۔ یہ نیٹ ورک دہلی سمیت شمالی ہندوستان کے مختلف مجرم گروہوں تک اسلحہ پہنچاتا ہے تاکہ ملک میں تشدد، خون خرابے اور خوف کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطرناک معاملے کو دہلی دھماکے یا دہشت گردی سے جوڑنے کی کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ یو اے پی اے لگا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے براہ راست منسلک اس سنڈیکیٹ نے بدنام زمانہ گینگسٹر لارنس بشنوئی، بمبیہا اور گوگی جیسے گروہوں کو چین اور ترکی میں تیار کردہ اعلیٰ
معیار کے ہتھیار فراہم کیے اور اسے دہلیـاین سی آر اور آس پاس کی ریاستوں میں گینگسٹر نیٹ ورکس تک پہنچایا گیا۔
19 نومبر 2025 کی گرفتاریوں کے بعد پولیس کمشنر (کرائم) سریندر کمار نے انکشاف کیا کہ دہلی پولیس کرائم برانچ کی ٹیم نے پاکستانی
خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ذریعے چلائے جانے والے اسلحے کے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا ہے ۔ مجموعی طور پر چار افراد کو گرفتار کر کے 10
جدید ترین پستول برآمد کر لیے گئے ہیں۔ پانچ پستول ترکی اور تین چین میں بنائے گئے تھے ۔ چار ملزمان میں سے دو، مندیپ، رہائشی پھلور
اور لدھیانہ کے دلویندر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ روہنی میں کسی کو ہتھیار پہنچانے جارہے تھے ، “بعد میں، پوچھ گچھ کے دوران موصول
ہونے والی معلومات کی بنیاد پر، چھاپہ مارا گیا اور مزید دو ہتھیار برآمد کیے گئے ۔ اس معاملے میں گرفتار ہونے والا تیسرا شخص روہن تومر ہے ،
جو باغپت، اتر پردیش کا رہائشی ہے ، اور چوتھے گرفتار شخص کی شناخت اجے عرف مونو کے طور پر کی گئی ہے ۔” یہ سارے رنگے ہاتھوں گرفتار
ہونے کے باوجود اپنی مذہبی شناخت کے سبب لمبے چوڑے الزامات اور سخت ترین قوانین کی زد میں آنے سے بچ گئے ۔ یہی تو منو وادی تفریق و امتیاز ہے ۔
مذکورہ بالا گرفتاری کے اگلے ہی دن یعنی 20 نومبر کو کرناٹک میں آر ایس ایس کے گڑھ اُڈپی میں اتر پردیش کے سلطان پور ضلع سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر ہندوستانی بحریہ کے جہازوں سے متعلق حساس اور خفیہ معلومات پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کا الزام ہے ۔ گرفتار افراد کی شناخت 29 سالہ روہت اور 37 سالہ سنتاری کے طور پر کی گئی ہے ۔ وہ کنٹریکٹ انسولیٹر کے طور پر کوچین شپ یارڈ لمیٹڈ کی ذیلی کنٹریکٹ فرم سشما میرین پرائیویٹ لمیٹڈ کے ملازم تھے ۔ پولیس کو شبہ ہے کہ مرکزی ملزم روہت گزشتہ 18 مہینوں سے واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے پاکستانی افراد کے ساتھ بحریہ کے جہازوں سے متعلق خفیہ معلومات بشمول شناختی نمبر اور دیگر خفیہ معلومات کا اشتراک کر رہا تھا۔پولیس سپرنٹنڈنٹ ہری شنکر نے کہا کہ روہت پہلے کوچی شپ یارڈ میں کام کرتا تھا اور چھ ماہ قبل اُڈپی شپ یارڈ آیا تھا۔ اس نے سنتار کے ساتھ مل کر کوچی شپ یارڈ اور اڈوپی شپ یارڈ میں بنائے جانے والے بحری جہازوں کے بارے میں معلومات پاکستان بھیجیں ۔ یہاں یقین نہیں بلکہ شبہ پر اکتفا کیا گیااور سشما میرین پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالی گئی کیونکہ اس کا مالک مسلمان نہیں ہے ۔
اتر پردیش میں یوگی بابا فوری انصاف کے نام پر ظلم کرکے خوب ڈینگ مارتے ہیں۔ ان کی سرکار انکاونٹر اور بلڈوزر کے لیے بدنام ہے ۔ اب دہلی اور کرناٹک میں اترپردیش کے رہنے والے چار ہندو پاکستان کے ساتھ تعلق رکھنے ، ہتھیار لانے اور معلومات فراہم کرنے کے
الزام میں گرفتار ہوگئے لیکن ان چاروں کی گرفتاری کے لیے نہ تو انکاونٹر کرنا پڑا جبکہ یہ تو چھٹے ہوئے مجرم پیشہ لوگ ہیں اور نہ ان کی گھروں کی
جانب کوئی بلڈوزر گیا۔ اس کے برعکس ڈاکٹر عمر نبی کے گھر کو بارود سے اڑا کر اہل خانہ کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی ۔ یہ سب تفتیش کے
دوران یعنی تکمیل سے قبل ہوگیا۔ یہاں تک کہ الفلاح یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے گھرکو منہدم کرنے کی خاطر بھی بلڈوزر حرکت میں آگیا
جسے عدالت کے ذریعہ روکنا پڑا۔ امریکی رپورٹ جب اس منووادی تفریق و امتیاز کی نشاندہی کرتی ہے تو حکومت کومرچی لگ جاتی ہے ۔
اس کی لیپا پوتی کے لیے آر ایس ایس نوٹوں کی تھیلی لے کر لابنگ کی خاطر ایک ایسی ایجنسی کی خدمات لیتا ہے جو پاکستان کے لیے بھی کام
کرتی ہے لیکن بھول جاتا ہے کہ ‘جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا’۔
٭٭٭