وجود

... loading ...

وجود

ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ

بدھ 12 نومبر 2025 ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بھارت آج نریندر مودی کی قیادت میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور نفرت کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہو چکا ہے ، جس سے واپسی اب مشکل دکھائی دیتی ہے ۔ مودی سرکار کی ”ہندوتوا” پالیسی نے نہ صرف بھارت کے سیکولر آئین کو کمزور کیا ہے بلکہ اس کے جمہوری اور انسانی حقوق کے بنیادی ڈھانچے کو بھی منہدم کر دیا ہے ۔ ”ایک قوم، ایک مذہب”کا نعرہ دراصل بھارت کے اندر ایک مخصوص طبقے ، ہندو بالادست گروہ کی حکمرانی کا اعلان ہے ، جس کے نتیجے میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ گزشتہ برسوں میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر، عسکری اداروں کی انتہا پسند تنظیموں سے قربت، اور سیاسی قیادت کی خاموش تائید نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہندوتوا اب صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ بھارت کی ریاستی پالیسی بن چکی ہے ۔گزشتہ چند برسوں کے واقعات اس تبدیلی کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔ مختلف شہروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جلوس، مساجد پر حملے ، اور سوشل میڈیا پر پھیلتی ہوئی نفرت انگیز مہمات نے بھارتی سماج کے چہرے سے جمہوریت کا نقاب اتار دیا ہے ۔ ”اسلام کو دنیا سے مٹانے ” یا ”مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑنے ” جیسے بیانات محض انتہا پسندوں کی زبان سے نہیں بلکہ اب سیاسی جلسوں میں حکومتی رہنماؤں کے بیانات کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ طرزِ فکر نہ صرف بھارت کے معاشرتی اور سماجی نظام کو تباہ کر رہا ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے امن کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے ۔بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات اسی ہندوتوا فلسفے کی بنیاد پر قائم ہیں۔آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار اور گولوالکر نے بیسویں صدی کے اوائل میں جو فکری بیج بویا، وہ آج نریندر مودی کی حکومت میں مکمل درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ آج نریندر مودی، امیت شاہ، یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی کی پوری قیادت انہی دونوں کے نظریات کو عملی جامہ پہنا رہی ہے ۔ان کے نزدیک بھارت ایک ”ہندو راشٹر” ہے ، جہاں دیگر مذاہب صرف اسی وقت برداشت کیے جا سکتے ہیں جب وہ ہندو تہذیب کے تابع رہیں۔ نریندر مودی، جو خود آر ایس ایس کا تربیت یافتہ کارکن ہے ، اسی سوچ کو عملی جامہ پہنا رہا ہے ۔ اس کی حکومت کے اقدامات جیسے آرٹیکل 370 کی منسوخی، این آر سی اور سی اے اے جیسے امتیازی قوانین، اور مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر پالیسی، سب اسی ذہنیت کے مظاہر ہیں۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، جو ”ہندو یووا واہنی”کا بانی ہے ، سناتن دھرم کے غلبے کی بات کھلے عام کرتا ہے ، جس سے مذہب و ریاست کی لکیر مکمل طور پر مٹ چکی ہے ۔گجرات 2002 کے فسادات سے لے کر دہلی 2020 اور منی پور 2023 کے واقعات تک، مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد مودی کے دورِ حکومت کی پہچان بن چکا ہے ۔ گائے کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل، حجاب پر پابندی، مساجد کی بے حرمتی، اور مسلمانوں کے مکانات کو بلڈوزر سے مسمار کرنا ریاستی سرپرستی میں ہونے والے مظالم ہیں۔ اس ظلم پر عدلیہ اور پولیس کی خاموشی بھارت کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے ۔مودی حکومت کے زیرِ سایہ میڈیا کا کردار بھی افسوسناک حد تک جانبدار ہو چکا ہے ۔ قومی سطح کے بیشتر ٹی وی چینل اور اخبارات حکومت کے پروپیگنڈا آلہ کار میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات چلانا، انہیں ”ملک دشمن” یا ”دہشت گرد” قرار دینا عام معمول بن چکا ہے ۔ عوامی شعور کو مسخ کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے خلاف مزید مشتعل ہو۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں نصاب کی تبدیلی کے ذریعے مسلمانوں کی علمی و تاریخی خدمات کو حذف یا منفی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ تاریخ کے حقائق مسخ کر کے نوجوان نسل کے ذہن میں ہندوتوا کا بیج بویا جا رہا ہے ۔جمہوری معاشروں میں عدلیہ، میڈیا اور پولیس وہ ستون ہوتے ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف عوام کا دفاع کرتے ہیں، مگر بھارت میں یہ تینوں ادارے ہندوتوا کے زیرِ اثر ہیں۔ جب مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں تو پولیس خاموش رہتی ہے یا مظلوموں پر ہی مقدمے قائم کر دیتی ہے ۔ عدالتیں برسوں تک فیصلے نہیں سناتیں یا حکومت کے مؤقف کے حق میں فیصلے دے دیتی ہیں۔ اس صورتحال نے بھارتی جمہوریت کے ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک، جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار سمجھتے ہیں، بھارت کے مظالم پر خاموش ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھارت کی تین اعشاریہ سات کھرب امریکی ڈالر کی منڈی کے سامنے انسانی اقدار قربان کر دی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں بارہا واضح کیا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، مگر عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے ۔ اس خاموشی نے مودی حکومت کو مزید شہ دی ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو بلاخوف و خطر جاری رکھے۔
ہندوتوا کی یہ آگ صرف بھارت کے اندر محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے کے امن کو لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ جب کسی ریاست میں مذہب کو سیاست کا ہتھیار بنا دیا جاتا ہے تو اس کے اثرات سرحدوں سے آگے پھیل جاتے ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا جیسے ہمسایہ ممالک بھی اس انتہا پسندی کے اثر سے محفوظ نہیں رہیں گے ۔ بھارت کے اندر کئی دانشور، طلبہ اور سول سوسائٹی کے افراد ہندوتوا کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، مگر انہیں ”غدار” اور ”ملک دشمن” قرار دے کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے ۔
”نیا بھارت” دراصل نفرت، تشدد اور تعصب کی نئی شناخت بن چکا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ظلم کو ریاستی پالیسی بنا لیا، اس کا انجام زوال اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ نریندر مودی اور اس کے انتہا پسند رفقا اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں کو دباکر بھارت مضبوط ہو جائے گا، تو یہ ان کی سنگین غلط فہمی ہے ۔ ظلم وقتی طور پر طاقتور دکھائی دیتا ہے مگر اس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے ۔ اگر بھارت کو واقعی ایک مستحکم، ترقی یافتہ اور پرامن ملک بننا ہے تو اسے اپنے سیکولر آئین کی روح کو بحال کرنا ہوگا۔ مذہب کو ریاستی امور سے الگ رکھنا، اقلیتوں کو مساوی شہری حیثیت دینا، میڈیا کو آزاد کرنا، اور عدلیہ کو دباؤ سے نکالنا ہی وہ راستے ہیں جن پر چل کر بھارت اپنا بکھرتا ہوا جمہوری چہرہ دوبارہ سنوار سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ وجود بدھ 12 نومبر 2025
ہندوتوا کی آگ میں جلتا بھارت سیکولر ازم کا جنازہ

27ویں ترمیم اور افواہیں وجود بدھ 12 نومبر 2025
27ویں ترمیم اور افواہیں

مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل وجود بدھ 12 نومبر 2025
مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل

امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا وجود منگل 11 نومبر 2025
امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق وجود منگل 11 نومبر 2025
ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر