... loading ...
افتخار گیلانی
مسلم دنیا کا کوئی اتحاد جو ناٹو کی طرح طاقتور اور تزویراتی طور پر وسیع تر عوامل کا حامل ہے ، وہ بس پاکستان، افغانستان اور ایران کا اتحاد ہوسکتا ہے ، جس کو ترکیہ اور وسط ایشاء کی ترک ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ اس سے ان سبھی ممالک کو اسٹریٹجک گہرائی بھی حاصل ہوگی اور کسی دشمن کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان میں کسی کو نشانہ بنا سکے ۔اکتوبر کے آخری ہفتہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول کی ہوا میں خزاں کی ہلکی نمی تھی۔آبنائے باسفورس کے اوپر سے گزرتی کشتیوں کی سیٹیاں دور تک سنائی دیتی تھیں اور شہر کی پہاڑیوں پر بکھری مساجد کے مینار کسی قدیم نگار خانے کی طرح دھند میں تحلیل ہو رہے تھے ۔ انہی دنوں ایک محفوظ ترک انٹلی جنس کمپاؤنڈ میں دو وفود روبرو تھے ۔
بیضوی میز کے اردگرد ترکیہ اور قطر کے ثالثوں کی موجودگی میں پاکستانی افسران اور افغانستان کے موجودہ حکمران طالبان کے نمائندے امن کی راہیں تلاش کر رہے تھے ۔ تین دن تک یہی سلسلہ رہا۔ چوتھے دن بدگمانی نے دروازے پر دستک دی اور مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔لگا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ہے ۔ مگر ترک ثالثوں نے ہمت نہیں ہاری۔دونوں وفود اگلے دو دن تک اپنے اپنے ہوٹلوں تک محدود ہوگئے اور ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہیں رہے ۔ ثالث مشترکہ بیان کا ڈرافٹ وفود کو دکھانے کے لیے دو د ن تک کبھی ایک ہوٹل تو کبھی دوسرے ہوٹل کے چکر لگاتے رہے ۔آخر کار اس سعی کی کوکھ سے چھٹے دن ایک مشترکہ بیان باہر نکلا۔جس میں بتایا گیا کہ دونوں فریقین نے ترکیہ اور قطر کی مدد سے دوحہ میں طے پائے گئے جنگ بندی معاہدے کو مزید مستحکم کرنے پر غور و فکر کیا۔ تمام فریقین متفق ہوگئے کہ جنگ بند سے متعلق طریقہ کار مزید میٹنگوں میں زیر بحث لائیں جائیں گے ۔فریقین نے رضامندی ظاہر کی کہ جنگ بندی اور فریقین کے خدشات کو ایڈریس کرنے اور تصدیق کے لیے ایک میکانزم ترتیب دینے کی ضرورت ہے ، جس سے امن قائم کرنے میں مدد ملے گی اور اس کو سبوثاژ کرنے والے کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔قطر اور ترکیہ نے اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں فریق باہمی تعاون اور دائمی امن و استحکام قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔
مذاکرات میں کئی اتار چڑھاؤ آگئے ۔ جن صحافیوں نے نوے کی دہائیوں اور دوہزار کے اوائل میں ہندوستان اور پاکستان مذاکرات کور کیے ہوں، و ہ اس طرح کی بنتی اور پھر بگڑتی تناؤ سے بھر پور صورتحال سے بخوبی واقف ہیں۔درمیان میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب پاکستانی وفد نے سامان سمیٹنا شروع کیا۔ ترکیہ اور قطر نے مگر زور دیا کہ ابھی چراغ پوری طرح نہیں بجھا، ذرا سی ہَوا صحیح سمت میں چل جائے تو روشنی بچ سکتی ہے ۔اس لیے وفود رکے رہے ۔کئی ذرائع،جنہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، کے مطابق دونوں فریق ایک دوسرے سے تحریری ضمانتیں چاہتے تھے ، مگر کوئی بھی آمادہ نہ تھا۔افغانستان نے ڈرون حملوں اور فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ مانگا، جنہیں وہ پاکستان سے منسوب کرتا ہے ۔ پاکستان نے مطالبہ کیا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)اور بلوچستان و خیبر پختونخوا میں تشدد کے ذمے دار گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کی جائے ۔
اسلام آباد کے اعداد و شمار کے مطابق اگست 2021 سے اب تک تقریباً سولہ سو سے اٹھارہ سو پاکستانی فوجی اہلکار دہشت گرد حملوں میں مارے جا چکے ہیں، جن میں سے تقریباً چار سو ساٹھ اموات صرف 2025 میں ہوئیں۔یہ وہ اعداد ہیں جن کے پیچھے خبریں نہیں، خاندان ہیں؛ جن کے پیچھے ہندسے نہیں، آنسو ہیں۔افغان وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ مولوی رحمت اللہ نجیب کر رہے تھے ، جن کے ہمراہ انس حقانی، سہیل شاہین، نائب وزیرِ دفاع برائے آپریشنز نورالرحمن نصرت، ڈائریکٹر جنرل برائے سیاسی امور نور احمد نور، اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی شامل تھے ۔پاکستان کے برعکس افغان وفد اگرچہ خاصا اعلیٰ سطحی تھا، مگر ہر مسودے پر کابل اور قندھار کی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگتا تھا۔ پاکستانی وفد کی سربراہی انٹر سروسز انٹلی جنس(آئی ایس آئی)کے خصوصی آپریشنز ونگ کے لیفٹیننٹ جنرل شہاب اسلم نے کی۔ ان کے ساتھ ایک بریگیڈیئر، ملٹری آپریشنز کے ایک افسر اور دو معاونین شامل تھے ۔
میزبان ترکیہ کی نیشنل انٹلی جنس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی)کے سربراہ ابراہیم قالن تھے ، جبکہ قطر دوحہ معاہدے کا ضامن اور استنبول میں شریک ثالث تھا۔ دونوں نے وقت اور الفاظ کے محافظ کا کردار ادا کیا، تاکہ مذاکرات کا دائرہ صرف تین نکات تک محدود رہے : سرحدی استحکام، انسدادِ دہشت گردی تعاون، اور ایک ایسا تصدیقی طریقہ کار جو دونوں کو قابل قبول ہو۔پہلے روز کے اجلاس میں پاکستان نے اپنے مطالبات پیش کیے : ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں، ممکنہ گرفتاریوں یا حوالگیوں پر عمل کیا جائے ، اور وعدوں کے بجائے اقدامات کو جانچنے والا قابلِ تصدیق نظام بنایا جائے ۔ سیشن نو گھنٹے جاری رہا۔ افغان جواب رات دو بجے آیا، اور پاکستانی جوابی تحریر اگلے روز صبح چھ بجے بھیجی گئی۔جس پر پورے دن تک افغان وفد کابل اور قندھار کے ساتھ مشاورت کرتا رہا۔
تیسرے روز اجلاس اٹھارہ گھنٹے تک چلا۔ ذرائع کے مطابق پیش رفت خاصی حوصلہ افزا تھی، مگر دن کے اختتام تک طالبان کا موقف بدل گیا۔ افغان وفد نے مطالبہ کیا کہ پاکستان فضائی خلاف ورزیوں کو روکے اور امریکی ڈرونز سمیت کسی بھی غیرملکی پرواز کو افغان حدود میں داخل نہ ہونے دے ۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح پاکستان کو خود مختاری یا حاکمیت عزیز ہے اور اس کے لیے وہ گارنٹی کا طالب ہے ، اسی طرح افغانستان کو بھی اپنی خودمختاری کے لیے گارنٹی چاہیے ۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی مندوب نے کابل میں قطر کے نئے سفیر مردیف علی ال قاشوتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون تو قطر میں موجود امریکی اڈے سے پروازکرتے ہیں۔سفیر نے کہا کہ ان کا امریکہ کے ساتھ ایگریمنٹ ہے ۔ اس پر پاکستانی مندوب نے کہا کہ اگر قطر ان کو روک نہیں سکتا ہے ، تو پاکستان کے تئیں اس طرح کی امید لگانا فضول ہے ۔ افغان اور ہندوستانی میڈیا میں اس تلخ کلامی کو توڑمروڑکر پیش کیا گیا۔ انہوں نے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے بھی کسی ایگریمنٹ کا ذکر کیا، مگر ذرائع کے مطابق اس طرح کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔چوتھے روز تک افغان وفدکا رویہ کچھ سخت ہو گیا تھا۔پاکستانی وفدکے اس مطالبہ کے جواب میں کہ کہ کابل ان گروہوں کو’طلب اور قابو’کرے جو پاکستان میں حملوں میں ملوث ہیں، افغان وفد نے جواب دیا کہ یہ پاکستانی شہری ہیں،’ہم آپ کے شہریوں کو افغانستان بلا کر کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟’پاکستان نے طالبان کی یہ پیشکش مسترد کر دی کہ وہ ٹی ٹی پی سے براہِ راست مذاکرات کروا سکتے ہیں۔ایک پاکستانی اہلکار نے کہا؛’ہم دہشت گردوں سے بات نہیں کریں گے ، انہیں پناہ نہ دینا کابل کی ذمہ داری ہے ۔’ اسلام آباد کا موقف تھا کہ افغانستان اپنی زمین کو پڑوسی پر حملے کے لیے استعمال نہ ہونے دے ۔ کابل کے نزدیک خودمختاری کا مطلب تھا کہ کسی غیرملکی کو، خواہ وہ انسان ہو یا مشین، اس کی فضائی حدود پامال نہ کرنے دی جائے ۔ذرائع کے مطابق ثالثوں نے دونوں کو قابلِ عمل، باہمی اقدامات پر لوٹنے کی تلقین کی، جیسے سرحدی راہداری، محفوظ گزرگاہ کے پروٹوکول، انٹلی جنس ہاٹ لائن، اور کسی ایک سیکٹر میں آزمائشی تصدیقی نظام۔جب کمرہ خالی ہونے لگا تو پس پردہ ایک آخری کوشش جاری تھی۔ ترک میزبان ابراہیم قالن اور قطری ثالث اب بھی پُرامید تھے کہ عمل کو بچایا جا سکتا ہے ۔یہ مذاکرات تکنیکی سطح کے تھے ، سیاسی نہیں۔ دونوں جانب انٹلی جنس اور سلامتی کے عہدیدار شریک تھے ، جنہیں ایسے طریقہ کار تیار کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا جنہیں بعد میں سیاسی قیادت سے منظوری کے لیے بھیجا جائے ۔
استنبول کا مقصد سیاسی ایک عملی خاکہ بنانا تھا؛ نگرانی کا نظام تشکیل دینا، اسے آزمائشی مرحلے سے گزارنا، اور پھر دارالحکومتوں کو حتمی منظوری کے لیے پیش کرنا۔
یہ مذاکرات سیاسی سربراہی اجلاس نہیں تھے ۔ دونوں طرف سے انٹلی جنس اور سکیورٹی حکام بیٹھے تھے جن کا مینڈیٹ یہ تھا کہ ایسے میکنزم تیار کریں جو بعد میں سیاسی قیادت کے سامنے رکھے جا سکیں۔ دوحہ میں اکتوبر کی اٹھارہ اور انیس تاریخ کو جو جنگ بندی ہوئی تھی، اُس پر سیاسی دستخط لگے تھے ؛ استنبول کو انجینئرنگ ورکشاپ بنایا گیا تھا،یہاں پیچ کس گھومنا تھا، بولٹ کسنا تھا، پائپ جوڑنے تھے ، اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا تھرمو میٹر بنانا تھا جو امن کی حرارت ناپ سکے ۔ترک روزنامہ ڈیلی صبا میں دانشور فِردوس سید کے مطابق پاکستان اور افغانستان، دو برادر ملک جو صدیوں کے مشترکہ ورثے سے بندھے ہیں کے مابین پرتشدد ٹکراؤ خطے کے استحکام کے قلب پر ضرب لگاتا ہے اور جنوبی و وسطی ایشیا کی بنیادی ربط پذیری کو روکتا ہے ۔ یہ بحران دیرینہ بے اعتمادی کو پھر بھڑکا سکتا ہے ، انتہا پسندی کو قوت دے سکتا ہے اور دونوں ملکوں کی سماجی و معاشی پیش رفت کو سست کر سکتا ہے ۔طورخم بند ہوتا ہے تو ٹرک کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ڈرائیور اپنے بیٹے کی فیس کے بارے میں سوچتا رہ جاتا ہے ؛ اسپن بولدک میں بازار سنسان پڑتے ہیں تو دکاندار کے کھاتے میں منفی نشانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ سرحدیں جب سخت لکیر بن جائیں تو گھروں کے اندر رشتوں کی ریڑھ ٹوٹتی ہے ۔
دوحہ جنگ بندی کے نتیجے میں اگرچہ فوری نتائج محدود سہی، مگر اس نے علامتی طور پرمکالمے کے دروازے کھول دیے ۔ استنبول کی تکنیکی بات چیت اسی پیش رفت کو پائیدار میکنزم میں ڈھالنے کی کوشش تھی۔ ترکیہ کی شمولیت خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ اس نے وقت کا نگران، اور نیت کا مترجم بن کر دونوں وفود کو متن کے تنے پر ٹکائے رکھا۔میڈیا سے فاصلہ رکھا گیا۔ مگر اندر کی گفتگو جیسی پیچیدہ تھی، ویسے ہی باہر کے بیانات بھی۔پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ استنبول بات چیت کسی قابلِ عمل حل پر نہیں پہنچی، مگر پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کرے گا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ٹی وی پر کہا کہ معاہدہ’چار پانچ بار’طے ہو کر واپس لیا گیا۔کابل سے جواب آیا کہ پاکستانی وفد کے بعض مطالبات خود افغانستان کی خودمختاری کے منافی تھے ۔ بیانات کی یہ آمد و رفت، کمرے کے اندر بیٹھے ان لوگوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے جو کاغذ پر لفظ لکھنے سے پہلے اپنی قوموں کی سانسیں سنتے تھے ۔طالبان نے اپنے میڈیا کے ذریعے ڈیورنڈ لائن یعنی پاک۔افغان سرحد کا قضیہ چھیڑا، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس لائن پر 1893 میں سر موتیمر ڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمن خان نے دستخط کیے ہیں اور 1947 کے بعد یہ پاکستان کی ڈی فیکٹو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد بنی۔
مذاکرات کے دوران ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ ایک منتخب بارڈر سیکٹر میں تیس دن کا پائلٹ ویریفیکیشن چلایا جائے ۔ کراسنگ پوائنٹس پر مشترکہ آبزرور ٹیمیں ہوں؛ ہر واقعہ 24 یا 72 گھنٹے میں مشترکہ لاگ میں درج ہو؛ ہفتہ وار مشترکہ جائزہ باری باری دونوں پیش کریں؛ اور اگر خلاف ورزی ہو تو مناسب جواب دیا جائے ۔لیکن لفظوں کی گرہیں دوبارہ آڑے آگئیں۔ کس نے پہلے قدم اٹھانا ہے اس پر دوبارہ تعطل سامنے آیا۔افغان وفد نے کہا کہ وہ کوئی ایسا وعدہ نہیں لکھ سکتے جس سے یہ تاثر بنے کہ وہ ٹی ٹی پی پر کنٹرول رکھتے ہیں؛ پاکستان نے کہا کہ وہ ایسا متن قبول نہیں کر سکتا جو اس کے آپریشنل حق کو محدود کر دے ، کیونکہ سرحد کے اُس پار سے آنے والے خطرات کے لیے کبھی کبھی ایسی کارروائیاں درکار ہوتی ہیں جن کی خبر نوبت یا ڈھول کے ساتھ نہیں دی جا سکتی۔ یوں کاغذ کی دو سطریں ایک دوسرے کو دیکھتی رہ گئیں اور قلم رک گیا۔ان دنوں میں، جب کبھی کمرہ خالی ہوتا تو استنبول اپنی پوری شان کے ساتھ سامنے آ جاتا۔ باسفورس کے پلوں پر گاڑیاں روشنی کے قطرے چھوڑتی گزر جاتیں۔ گلاٹا برج کے قریب کیفے کھلے ہوتے ، چھوٹے استکان میں چائے کی بھاپ اٹھتی۔ کبھی کوئی ترک افسر مسکرا کر کہتا،’یہ شہر صدیوں سے ثالث ہے ایشیا اور یورپ کے درمیان۔ شاید اسی لیے یہاں گفتگو کے لیے ہوا سازگار ہے ۔یہ جملہ محض تہذیبی فخر نہیں ہے ، بلکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ترکیہ کے پاس ثالثی کی اسکریپٹ صرف سفارت سے نہیں، تاریخ سے بھی لکھی ہوئی ہے ۔
ڈیلی صبا میں فِردوس سید کی تجویز ایک واضح راستہ دیتی ہے : حل اسی میں ہے کہ سرحد کو مانو، اور اپنے عمل و فعل سے اس کو بس کاغذ کی ایک لکیر کا درجہ دو، جیسا کہ یورپی ممالک نے کیا ہے ۔ افغانستان چونکہ خشکی میں گھرا ملک ہے ، اسے تجارت اور نمو کے لیے پاکستانی بندرگاہوں اور انفراسٹرکچر تک رسائی درکار ہے ۔ پاکستان کو وسطی ایشیا تک محفوظ راہداریاں درکار ہے ۔ ترک ریاستوں تک اس کی پہنچ کے راستے میں افغانستان ہے ۔لہٰذا بتدریج ویزا نرمی، سرحدی اقتصادی زونز، مشترکہ راہداریاں جو پاکستان۔افغانستان تجارت کو وسطی ایشیا اور سی پیک سے جوڑ دیں،یہ سب اقدامات قانون، ٹیکس اور انتظامی اختیار کے مکمل احترام کے ساتھ ہوں تاکہ خاندان جڑیں، تجارت چلے اور سماجی ہم آہنگی بحال ہو۔
قطر اور ترکیہ کی غیر جانب دار نگرانی میں مشترکہ انسدادِ دہشت گردی اور انٹلی جنس تعاون اعتماد کے خلا کو بھر سکتا ہے ، اور انسانی، ثقافتی، علمی، مذہبی تبادلے معاشروں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں۔استنبول کی میز پر بیٹھے لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ دونوں کے اندرونی سیاسی موسم بھی کچھ ایسی ہی تجویز مانگتے ہیں۔اگر کابل کھلے عام یہ لکھ دے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی کرے گا تو اسے اپنے کچھ کمانڈروں اور جنگجووں کی مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے جو سرحد کے اُس پار نظریاتی نسبت رکھتے ہیں۔اگر اسلام آباد فضائی ضبطِ نفس کی سخت زبان مان لے تو وہ سمجھتا ہے کہ سرحد پار سازشوں کے خلاف اس کے ہاتھ بندھ جائیں گے ۔ اس لیے دونوں کو درجہ وار قدم چاہیے ، اور ایک ایسی سیڑھی جس پر چڑھتے ہوئے چہرہ بھی بچا رہے اور راستہ بھی آگے بڑھے ۔یہی پس منظر ہے جس میں مشترکہ بیان آیا: جنگ بندی برقرار رکھنے کا عزم، اعلیٰ سطح کے اجلاس میں عمل درآمد کی تفصیل طے کرنے کا ارادہ، اور ایک مشترکہ نگرانی و تصدیق کے میکنزم پر اتفاق۔
ترکیہ اور قطر نے دونوں فریقوں کی سرگرم شمولیت کو سراہا اور کہا کہ وہ دیرپا امن کے لیے تعاون جاری رکھیں گے ۔ اس بیان نے کم از کم یہ ثابت کر دیا کہ چراغ پوری طرح نہیں بجھا؛ اگر ہَوا سازگار ہو تو اس کی لَو پھر بلند ہو سکتی ہے ۔اس سارے عمل میں ایک اور سبق بار بار سامنے آتا ہے :زبان کی ذمہ داری۔ قطر کے بیان میں وہ باریک تبدیلی ‘سرحد پر تناؤ’سے ‘دو برادر ممالک میں تناؤ’یہی دکھاتی ہے کہ امن کی زبان بھی سیاست کا میدان ہے ۔ استنبول میں اس سبق کو بار بار دہرایا گیا۔ مسودے میں لفظ کم مگر وزن دار رکھے گئے ، تاکہ ہر فقرہ کمرے سے نکل کر بھی سانس لے سکے ۔ کیونکہ الفاظ ہی پہلے پل بناتے ہیں، اور پھر ان پر عمل کے بوجھ کو بھی وہی اٹھاتے ہیں۔
افغان مزاحمت نے غیر ملکی قبضوں کے خلاف جو اخلاقی مقام پایا، وہ تاریخ کا حصہ ہے ؛ مگر اب جب طالبان حکومت میں ہیں تو ان پر یہ اخلاقی اور بین الاقوامی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افغان سرزمین کہیں اور تشدد کے لیے استعمال نہ ہو۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اثر و رسوخ کے قدیم تصور سے آگے بڑھے ، ایک برابری کی ریاست کے ساتھ برابری کی رعایت پر آمادہ ہو، اور داخلی سیاست کے شور میں عملی نتائج کے لیے جگہ نکالے ۔دونوں کو بیرونی طاقتوں کے کھیل سے بچنا ہے جو خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ افغانستان کو توسیع پسندانہ خواہش یا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد سے انکار کرنا ترک کرنا ہوگا۔ دونوں ممالک کو بیرونی طاقتوں کے کھیل میں مہرہ بننے سے بچنا ہے ۔
رات کے آخری پہر، جب استنبول میں بلیوں کے قدموں کی نرم چاپ سنائی دیتی ہے اور سڑکیں دھوئے ہوئے برتنوں کی طرح چمکتی ہیں قطر اور ترکیہ کے ثالثوں کے درمیان ایک بار پھر چھوٹی سی نشست ہوئی۔ کاغذوں پر قلم آہستہ آہستہ چلا۔ کچھ لفظ تراشے گئے ، کچھ ہٹا دیے گئے ، کچھ کو نئے معنی دیے گئے ۔اس کاغذ کو لے کر ثالث دونوں فریقین سے الگ الگ ان کے ہوٹلوں میں ملنے گئے اور ایک مشترکہ بیان طے پا گیا۔ یہ جیت نہیں، مگر پسپائی بھی نہیں؛ یہ صرف ایک دروازہ ہے جو بند ہونے ہی والا تھا اور آخری لمحے میں کسی نے اس کے پٹوں میں انگلی رکھ دی۔کتنا بڑا المیہ ہے ۔ ان دونوں قوموں کے درمیان جنگ جیسی صورتحال مسلم دنیا کے جسم میں لگا ہوا زخم ہے ، جو یہ یاد دلاتا ہے کہ مشترکہ ایمان اگر اخوت کے بغیر رہ جائے تو بکھر بھی سکتا ہے ۔ پائیدار امن نقشے بدل کر نہیں، ذہن بدل کر ممکن ہے : ڈیورنڈ لائن کو تقسیم کی لکیر سے ربط کی راہداری نکالنی ہوگی، ایسی راہداری جو خودمختاری کا احترام بھی کرے اور عملی تعاون بھی ممکن بنائے ۔
استنبول کے خفیہ کمروں میں اب بھی ایک لفظ گونج رہا تھا، حاکمیت، خود مختاری۔ لیکن اگر اس کے ساتھ ایک اور لفظ جوڑ دیا جائے ، ذمہ داری، تو شاید چمن کی چوکی پر کھڑے سپاہی اور جلال آباد کے بازار میں بیٹھا دکاندار ایک ہی لمحے میں سکون کی سانس لے سکے ۔مسلم دنیا کا کوئی اتحاد جو ناٹو کی طرح طاقتور اور تزویراتی طور پر وسیع تر عوامل کا حامل ہے ، وہ بس پاکستان، افغانستان اور ایران کا اتحاد ہوسکتا ہے ، جس کو ترکیہ اور وسط ایشاء کی ترک ریاستوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔ اس سے ان سبھی ممالک کو اسٹریٹجک گہرائی بھی حاصل ہوگی اور کسی دشمن کی ہمت نہیں ہوگی کہ ان میں کسی کو نشانہ بنا سکے ۔ خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے ۔ مگر کبھی خواب سچے ہو ہی جاتے ہیں۔