 
      ... loading ...
 
                میری بات/روہیل اکبر
حسنین اخلاق لاہور کی صحافت کا ایک معتبر نام جو اخلاص ،محبت اور وفا کا پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ہنس مکھ اور بے ضرر بھی ہے لیکن صحافی پورے دنوں کا ہے، وہ پولیس کے رویے سے اتنا تنگ آگیا کہ ایس پی عدیل اکبر کی طرح سوچنا شروع کردیا۔حسنین اخلاق کا قصہ انہی کی زبانی لکھوں گا لیکن پہلے ہمارے شیر جوانوں کا حال بھی پڑھ لیںجو وردی پہنتے ہی درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں ۔پولیس والوں کے خون کا ٹیسٹ کروایا جائے تو بہت سے نشئی نکلیں گے۔ کانسٹیبل سے لیکر اوپر تک پینے اور پلانے والوں کے ساتھ ساتھ زانی بھی ملیں گے اور ڈاکوئوں کی بھی اس محکمہ میں کمی نہیں ہے۔ یوٹیوبر ڈکی بھائی کی بیوی کی درخواست پر جو مقدمہ درج ہوا ہے اس میں بہت سے پردہ نشین کھل کر سامنے آگئے اور آئے روز ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں پولیس والے خود کرتے ہوئے پکڑے جارہے ہیں ۔ابھی کل ہی کی ایک تازہ ترین واردات بھی ملاحظہ فرمائیں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی)کا انسپکٹر تاجر کے اغوا کی واردات کا ماسٹرمائنڈ نکلا۔ انسپکٹر جاوید اقبال نے اہلکار کے ساتھ مل کرکاہنہ سے تاجر کو اغوا کیا۔ ملزمان نے مغوی کے اہل خانہ سے 40لاکھ روپے طلب کیے اور ایل او ایس کے قریب رقم وصول کی ۔دوران تفتیش انسپکٹرجاویداقبال اور اہلکار توصیف کا بھانڈہ پھوٹ گیا ۔یہ چھوٹے لیول کی کارروائیاں سرِ عام ہورہی ہیں۔ اب بڑے لیول کے ایس پی عدیل اکبر کی خود کشی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔
اگر پولیس کے افسران اور اہلکار ادارے کے اندر غیر انسانی رویوں، دباؤ، اور ناانصافی کے سبب خود کشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں توعام عوام کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔ یہ وحشت اس نظام کی گہرائیوں میں چھپی سنگین خرابیوں کو ظاہر کرتی ہے ایس پی اسلام آباد کی خودکشی کوئی معمولی واقعہ نہیں، بلکہ ایک چیخ ہے اس سسٹم کے خلاف جو انصاف کے نام پر ظلم کو ادارہ جاتی شکل دے چکا ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ افسر جو قانون کا محافظ ہے خود کو غیر محفوظ محسوس کرے تو پھر عام شہریوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔وہ تو پہلے ہی پولیس کے رحم و کرم پر ہیں۔ پولیس کلچر میں رائج طاقت کا غلط استعمال، افسران بالا کا دباو ، سیاسی مداخلت، اور محکمے کے اندر عزتِ نفس کی پامالی جیسے عوامل ایسے واقعات کو جنم دیتے ہیں ۔یہ سوچنے کا لمحہ ہے کہ جو ادارہ عوام کی جان و مال کا محافظ ہو، وہ خود اپنے اہلکاروں کی ذہنی اور اخلاقی حفاظت کیوں نہیں کر پاتا؟اسلام آباد پولیس کے ایک سینئر افسر ایس پی کی خودکشی نے پورے نظامِ انصاف کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ کسی ایک فرد کا ذاتی دکھ نہیں بلکہ ایک سسکتے ہوئے ادارے کی اجتماعی چیخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس معاشرے کی محافظ ہوتی ہے لیکن اگر یہی محافظ اپنے ہی اندر ظلم و زیادتی، بے انصافی اور بے قدری کا شکار ہوں تو پھر عوام کیا توقع رکھے؟ جب ایک اعلیٰ افسر اپنی جان لے لے تو سوچئے اْس سپاہی کا کیا حال ہوگا جو چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہے، چھٹی نہیں ملتی اور معمولی غلطی پر افسران بالا کی گالیوں اور ذلت کا سامنا کرتا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پولیس کلچر میں انسان نہیں، صرف ”رینک” کی عزت ہوتی ہے طاقتور افسر کا حکم حرفِ آخر ہے چاہے وہ غلط ہو ماتحتوں کی کوئی سننے والا نہیں ویسے بھی سیاست، سفارش اور انا پرستی نے اس ادارے کی روح کو کھوکھلا کر دیا ہے اسلام آباد کے ایس پی کا خودکشی کرنا دراصل ایک علامت ہے اس نظام کی جو اندر سے سڑ چکا ہے اسلام آباد کے صنعتی زون میں تعینات عدیل اکبر کی خود کشی نہ صرف ایک افسوسناک ذاتی سانحہ ہے بلکہ ریاستی فورسز کے اندر پائی جانے والی ایک گہری بیماری کی نمائندگی بھی ہے ۔وہ ایک تجربہ کار افسر تھے جنہوں نے مختلف اضلاعِ بلوچستان میں کام کیا اور اپنی قابلیت سے ادارے میں پہچان بنائی عدیل اکبر نے ایم فل کی ڈگری (گورننس اینڈ پبلک پالیسی) حاصل کی تھی ۔اگر ایک باوقار، ہوشمند اور اہل پولیس افسر ایسی حالت تک پہنچ سکتا ہے کہ اپنی جان لے لی تو پھر عام شہری کی حالت کا اندازہ کیا ہوگا؟ عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح لاٹھیوں سے ہانکا جاتا ہے کچھ اسی طرح کا واقعہ سینئر صحافی حسنین اخلاق کے ساتھ بھی پیش آیا۔ تھانہ شاد باغ کے فرعون صفت ایس ایچ او کا رویہ بھی پورے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صرف ایک تھانیدار کی کہانی نہیں بلکہ لاہور سمیت ملک بھرکے تقریبا ہر تھانے کا یہی حال ہے۔ حسنین صاحب لکھتے ہیں کہ سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ ارباب اقتدار اور اپنوں کی کاوشوں سے پنجاب میں مرچکی صحافت کی میت کا آج اپنی آنکھوں دیکھا اور خود پر بیتا حال کیسے بیان کروں۔ اسے ذلت کی داستان کہوں یا لاقانونیت بہرحال کچھ بھی نام دیجیے نتیجہ صرف جہالت کی تسکین تھا جس کا مجھے اڑھائی گھنٹے سامنا رہا۔ شاید کچھ صحافتی دوست یہ گواہی دے ہی دیں کہ میں گزشتہ تین دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں اور اس دوران بہت سے قومی اور بین الاقوامی جرائد میں لکھنے کے علاوہ ملک کے بہت سے معتبر صحافتی اداروں میں اہم مقام پر کام کرچکا ہوں اور اب بھی ایک سیٹلائٹ نیوز چینل سے وابستگی ہے۔ اس طویل تمہید کا مقصد آپکو وہ داستان بے توقیری بیان کرنا ہے جس کا میں شکار رہا۔ آپ نے کچھ روز پہلے میرے فیس بک پیج پر ایل ڈی اے کے افسران کی کرپشن سے متعلق ایک اسٹوری پڑھی ہوگی، جہاں لاہور کے علاقہ شاد باغ میں پلازہ مالکان کی جانب سے ایل ڈی اے افسران سے لین دین کرکے بغیر نقشہ منظوری کے کروڑوں روپے کی قانونی فیسیں جمع کروائے بغیر غیر قانونی پلازے کی تعمیر کرائی جارہی ہے ۔اسٹوری کے بعد مجھے آج سورس نے بتایا کہ ایل ڈی اے افسران کو بتائے جانے کے باوجود وہاں کام جاری ہے ،جب میں نے وقت کی کمی کے باعث خود ہی موبائل سے پلازے میں کام جاری ہونے کی فوٹیج بنائی تاکہ خبر دے سکوں تو وہاں اندر موجود افراد نے مجھ پر گنیں تان لیں ۔مختصراً مزید ستم یہ کہ میں بدقسمتی سے ون فائیو پر کال کر بیٹھا اس کے بعد تین گھنٹے کی وہ ذلت تھی جو مجھے شاد باغ تھانے میں ایس ایچ او کی سیٹ پر تعینات اللہ رب العزت کی ابتر مخلوق (اللہ گواہ ہے مجھے اب تک اس کا نام نہیں پتہ) کے ہاتھوں برداشت کرنا تھی کہ الاماں الحفیظ۔ اس فی الوقتی فرعون نے تین منٹ کی گفتگو کے دوران میری طرف سے خود کو پریس کلب کا رکن بتانے پر بھڑکتے ہوئے مجھ پر آٹھ بار پیکا ایکٹ کی ایف آئی آر کاٹنے اور چھ بار گھٹیا کہنے اور میرے سروس کارڈ کو نقلی ثابت کرنے کے سوا کچھ زیادہ تو نہیں فرمایا اور ہاں جب میں نے انکے پوچھے جانے پر کہ “پتہ ای نا کہ پیکا کی اے” یہ بتانے کی جسارت کی کہ میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا ایک ایک بار جوائنٹ سیکریٹری اور نائب صدر رہ چکا ہوں جس پر موصوف نے یونین کو لپیٹ کر ۔۔۔۔۔ میں دے دیا جبکہ ہر آدھ گھنٹے بعد ایک سب انسپکٹر کے ذریعے “بس تیرے تے پرچہ ہون لگا اے” کی آواز اس ہزیمت کو تازہ رکھنے کے لئے علیحدہ احکامات جاری کئے تاکہ میں غلطی سے بھی خود کو قابل عزت نہ سمجھ بیٹھوں۔ مجھ سے فون لے لیے جانے اور ملزمان کے ساتھ بند کردیے جانے کے بعد یہ تو بھلا ہو ان تین چار غیر معروف صحافتی اداروں کے رپورٹرز کا جو وہاں کسی کام سے موجود تھے اور حالانکہ میں ان سے واقف نہیں تھا لیکن ان کی مہربانی کہ وہ مجھے جانتے تھے سو انہوں نے غالبًا ایس پی سٹی کے فون کے ذریعے میری حبس بجا سے بازیابی کرائی۔ اب کسی دوست نے بتایا ہے کہ سی سی پی او آفس جاکر درخواست گزارو۔ میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ یہ احساس ذلت کو کم کرے گا یا دوگنا؟؟ شام چھ بجے سے اب تک رب کعبہ کی قسم ہے کہ اینگزائٹی کا یہ عالم ہے کہ کئی بار سب کچھ ختم کردینے کا سوچ چکا ہوں۔
٭٭٭
 
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
         
        