... loading ...
آج کل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیق پٹیل
پاکستان کی موجودہ قیادت نے امریکا سمیت دنیا کے اہم ممالک سے مراسم استوار کرلیے ہیں اور وہ اسے ایک بہت بڑی کامیابی تصور کرتی ہے۔ اگلے منصوبے میںا یک مفروضہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکمران اقتدار بچانے اور اقتدار چلانے کے اسی فارمولے کے ذریعے موجودہ نظام کو چلاتے رہیں گے اورنئی آئینی ترمیم کے ذریعے موجودہ اسمبلیوں کی مدّت مزید دس سال کے لیے بڑھا دی جائے گی۔ حزب اختلا ف کے اراکین کو نااہل کرکے نئے پسندیدہ افراد کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں لے آیا جائے گا۔ اس طرح ایک سرکاری حزب اختلاف کا دوبارہ جنم ہوگا جیسا کہ اس سے پچھلی اسمبلی میں ہواتھا۔ ظاہر ہے ہمارے اس پاک وطن میں ہرعہدے پر فائز یا تو اسے برقرار رکھنا چاہتا ہے یا اس سے برتر کی خواہش رکھتا ہے ۔حکمران جماعتیں اس خوش فہمی میں ہیںکہ اب آہستہ آہستہ سب کچھ قابو میں آرہا ہے ۔لہٰذاموجود ہ وزیر اعظم تا حیات وزیر اعظم ہوسکتے ہیں۔ جلد ہی ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی مزید حمایت بھی کسی نہ کسی طرح حاصل کی جاسکتی ہیں۔اس کے لیے دبائو اور پرکشش عہدوںکا لالچ کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ انگریزی کہاوت کے مطابق گاجر یا ڈنڈا والے طریقہ کا ر کے ذریعے سب کو قابو کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے ۔ان کے ذریعے سابقہ انتخابات پر سوالیہ نشان اور داغ بھی دھوئے جاسکتے ہیں۔حکمراںطبقات کو امید ہے کہ وہ عالمی سطح پر جو کردار اداکریں گے اس سے انہیں مزید قرضوں یا ممکنہ معاوضوں کی سہولت حاصل ہوگی۔ اس سارے عمل اور طریقہ کار میںجس کی کمی ہے وہ عوام کی رائے ہے جو حکمراں جماعتوں کے خلاف ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات حکمراں جماعتوں کے لیے خوف کی علامت ہیں۔
اگلا مرحلہ ملک بھر میں ہر قسم کے سیاسی اجتماعات پر باقائدہ پابندی اور عدلیہ کو مزید انتظامیہ کے زیر اثر کرنے کا ہو سکتا ہے اس نظام کی کامیابی کے بعد آئندہ دس سال کے بعد شاید مریم نواز ملک کی تاحیات وزیر اعظم بن سکتی ہیں۔ دس سال انتظار کی بڑی وجہ شہباز شریف اور بلاول بھٹوہیں جو ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اس سلسلے کی رسّہ کشی کو قابو کیا جارہاہے ۔مریم نواز ہر صورت بلاول بھٹو کو پنجاب میں قدم جمانے سے روک دیں گی۔ مستقبل میںممکنہ طور پر مریم کو طاقتور حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہوجائے گی ۔ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ موجودہ حکمراں جماعتوںکی ناقص حکمرانی کا بوجھ موجودہ نظام برداشت نہیں کرسکتا ۔حکمراں جماعتیں مقبولیت کھو رہی ہیں اس لیے اس نظا م کو جاری رکھنے کے بجا ئے سیاستدانوں کے بغیر ایک ایسا صاف ستھرا نظام لایا جائے جو ہر شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہو جو فوری طور پر ملک میں صنعت ،تجارت اور ایکسپورٹ کو فروغ دے ،بدعنوانی اور رشوت کا خاتمہ کرے، ہر سطح پر صرف با صلاحیت ایماندار منتظمین اور کے ماتحت عملے کو فوقیت دی جائے ،ناقص کارکردگی کی حوصلہ شکنی کی جائے، عوام کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے، مہنگائی کا خاتمہ کیا جائے، اس طرح عوام کا نظا م پر اس قدر اعتماد بڑھا دیا جا ئے کہ وہ سیاستدانوں اور دیگر جماعتوں کو بھول جائیں۔ ایسے نظام کے ذریعے ملک میں استحکا م کی صورت میں معیشت کی بہتری کے اقدامات پر توجہ دے کر ملک کی پیداوار اور عوام کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کر کے قرضوں کے دبائو سے جان چھڑائی جائے اور ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ کرلیا جائے کہ ملک کو خود کفالت کی جانب لے جانا آسان ہو۔
تیسری صورت اس نظام کو اسی طرح جاری رکھنے کی ہے جس میں ایمانداری ، انصاف اور صلاحیت کی نفی ہوگی ہر طاقتور کے گردچاپلوس اور ستائش کرنے والے جمع ہوکر اپنے ایسے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے جس سے ان ہی مخصوص لوگوں کو مالی فائدہ ہو گالیکن عوام مشکلات کا شکار رہیں گے۔ دیکھنایہ ہوگا کہ آنے والے چند ماہ میں مستقبل کا نقشہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس وقت کے حالات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک جمہوریت کی جانب واپس لانا تقریباً ناممکن ہے۔ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی مو منٹ منصفانہ انتخابی عمل کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور انہیںفروری 2024 کے انتخابی طریقہ کار کے ذریعے ہی دوبارہ اقتدار میں لایا جا سکتاہے جس میں اگر ن لیگ ،پی پی اور ایم کیو ایم ایک نشست بھی حاصل نہ کر سکیں تو بھی فارم 47کے ذریعے اقتدار انہی کے حوالے کیا جائے گا۔ کامیاب امیدوار ہار جائیں گے اور کاغذ پر کا میابی سرکاری سرپرستی والے امیدواروں کو حاصل ہو گی۔ اس طرح پاکستان کاانتخابی عمل مکمل کرکے موجودہ حکمراں جماعتوںکو ایک مرتبہ پھر اقتدار میں شریک کرلیا جائے گا ۔درپر دہ مذہبی جماعتوں کی انہیں حمایت حاصل ہوگی جس طرح اس وقت جمعیت علماء اسلام ،جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتیں بالواسطہ طور پر حکومت کا حصہ بنی ہوئی ہیں اور دوستانہ حزب اختلاف کا کام بھی کرتی ہیں جسے عمومی طور پر فرینڈلی اپوزیشن کا نا م بھی دیا جاتاہے۔ اس کی واضح مثال مولانا فضل الرحمان کی چھبیسویں آئینی حمایت تھی جس کی وجہ سے عدلیہ انتظامیہ کے زیر اثر چلی گئی اور اپوزیشن آئین تحفظ پاکستان کے مطابق ملک بے آئین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی نے ماضی میں اسلام آباد ہائی کو رٹ کے سامنے فارم 45پیش کرنے سے انکار کردیا تھاجس کی وجہ سے اسلام آباد کی نشستیں مسلم لیگ ن کو مل گئیں حالانکہ وہ نشستیں پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔ اپوزیشن اور مذہبی جما عتیں بظاہر انتخابی عمل کو بے ایمانی قرار دیتی ہیں لیکن اپوزیشن کے اکّا دکّالوگ اور مذہبی جماعتوں کی بھاری اکثریت اندرون خانہ مریم نواز آصف زرداری اور شہباز شریف کے مدد گار ہیں ۔ یہ منافقانہ اور بزدلانہ عمل ایک ایسا اخلاقی زوال ہے جو پورے معاشرے اور ملک کو تباہی سے دو چار کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہماری شناخت بھی اسی نسبت سے ہوگی ۔پاکستان میں منصفانہ نظام کی توقعات تیزی سے دم توڑ رہی ہیں ۔موجودہ نظا م کو ملک کی مذہبی جماعتوں نے اپنا کندھا فراہم کر رکھا ہے ۔عالمی میڈیا چیخ چیخ کر سابقہ انتخابات کو فراڈ کہتا رہا لیکن مذہبی جماعتیں معمولی بیان بازی سے آگے نہ بڑھ سکی بلکہ حکومت کی خاموش حمایت انہیں حاصل رہی ۔بدقسمتی سے اس عمل کے نتیجے میں ہر سطح پر بدعنوانی ،اقرباپروری ، سفارش، چاپلوسی اور با صلاحیت لوگوں کو پیچھے دھکیلنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ملک تیز ی سے مزید اخلاقی پستی اور زوال کی طرف گامزن ہے۔ بیرونی دبائو کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے ۔پاکستان اگر موجودہ نظام میں ایسی اصلاحات نہ لا سکا جو منصفانہ ہو ، جس میں ایماندار باصلاحیت ماہرین پر مشتمل انتظامیہ ہو جو صنعت ،تجارت اور ایکسپورٹ کو فروغ دے،ملک کے ناظمین کو عوام کا اعتما د حاصل ہوجس کی توجہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے پرہو کسی بھی ملک میں جعلسازی پر مشتمل نظام محض عدم استحکام کاا باعث نہیں ہوتا بلکہ اس ملک کی سلا متی کے لیے بھی خطرہ ہوتا ہے۔ کیاپاکستان کی طاقتور اشرافیہ مستقبل کی ایسی راہ تلاش کرسکتی ہے جو ملک کو اخلاقی پستی اور عدم استحکام سے نجات کے لیے تیز رفتا ر اور نتیجہ خیز اقدامات کرے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔