... loading ...
ریاض احمدچودھری
تقسیم ہند سے قبل برطانوی حکومت نے کئی بیانات اور قوانین کے ذریعے یہ بات واضح کر دی تھی کہ برطانوی راج کی جگہ نئے ممالک، بھارت اور پاکستان نہیں لے سکتے اور یہ کہ ان کی سرپرستی ختم ہو جائے گی۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ برطانیہ چاہتا تھا کہ یہ فیصلہ ریاستیں خود کریں کہ وہ بھارت یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا خود مختار رہنا چاہتے ہیں۔ برطانوی ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کشمیر برطانوی سرپرستی میں ایک خود مختارراجوڑا(ریاست) تھا۔ برصغیر کی تمام ریاستیں یا راجوڑے برطانیہ کے زیر نگین نہیں تھے۔ بعض ریاستیں اس وقت بھی اپنی علیحدہ شناخت رکھتی تھی۔ برطانوی حکام کے پاس صرف ان کے دفاع اور خارجہ پالیسی کے متعلق اختیارات تھے۔ ان ریاستوں میں کشمیر کی ریاست بھی تھی ۔کشمیر کے ساتھ چونکہ روس اور افغانستان کی سرحدیں ملتی تھیں اور برطانوی حکومت کو ان ہی دوممالک سے حملہ آوروں کا خطرہ تھا لہذا برطانیہ نے کشمیر کو بطور بفر ریاست کے رکھا ہو اتھا۔ اسی وجہ سے دوسری ریاستوں کے مقابلے میںکشمیر کو زیادہ خود مختاری اور دیگر سیاسی مراعات حاصل تھیں۔کشمیر کا اپنا آئین تھا، اپنے قوانین اور اس کے برطانیہ اور ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ متعدد معاہدے بھی تھے۔ ہندوستان پر برطانوی راج کے آخری دنوں میں کشمیر کی خودمختاری کو واضح طور پر تسلیم کیا جا چکا تھا۔ یعنی جیسے ہی ہندوستان میں برطانوی سامراج ختم ہوا، کشمیر مکمل طور پر آزاد ہو گیا اور اس بات کو بھارت اور پاکستان دونوں نے تسلیم کیا۔ یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے 26 اکتوبر 1947 تک، جب کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا، کشمیر مکمل طور پر آزاد تھا۔کشمیر کے معاملے میںمہاراجہ نے فوری طور پر دونوں میں سے کسی بھی نئے ملک کے ساتھ الحاق سے انکار کرتے ہوئے خود مختاری کا انتخاب کیا۔ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت یہ وعدہ کیا گیا کہ خود مختار ہندوستان کو ان ریاستوں پر سبقت حاصل نہیں ہوگی۔ یہ تب تک کی بات ہے جب پاکستان کے وجود کے بارے میں ابھی بات شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس ایکٹ کی کچھ شقوں کو مزید واضح کرنے کی ضرورت تھی، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان ریاستوں کا کیا ہوگا جنھوں نے 15 اگست 1947 سے پہلے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا۔
20 فروری 1947 کو برطانیہ کے وزیر اعظم نے برطانوی پارلیمان کو بتایا کہ ملکہ برطانیہ کی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ برطانوی راج کوریاستوں میں بالادستی دینے والے حقوق اور فرائض ہندوستان کی کسی بھی حکومت کو دے دے۔یوں ریاستوں پر یہ واضح ہو گیا کہ ان کے پاس یہ راستے ہیں: بھارت کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ الحاق، یا پھر مکمل خود مختاری اور آزادی کا اعلان۔اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ پنڈت نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن دونوں ہی کو ایکٹ بننے کے ساتھ ہی اس سقم کا علم ہو گیا تھا۔لہذا ماؤنٹ بیٹن اور کانگریس نے مل کر کوشش کی کہ 1947 کے انڈین انڈپینڈینس ایکٹ میں الحاق نہ کرنے والی ریاستوں کے بارے میں موجود غیر واضح دفعات کی وضاحت نہ کی جائے۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا بھارت کے لیے کشمیر پر قبضے کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا۔
1947 کے انڈین انڈپنڈنس ایکٹ کے تحت پندرہ اگست 1947 کو کشمیر پر سے برطانوی بالادستی ختم ہو گئی اور چونکہ کشمیر نے پندہ اگست سے پہلے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کیا، تو قانونی طور پر وہ آزاد ہو گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ آزاد ہی رہنا چاہتے تھے ۔یہ اس بات سے واضح ہو گیا کہ انہوں نے دونوں، بھارت اور پاکستان کے ساتھ 1947 کے انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ ‘سٹینڈ سٹل’ معاہدے کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔مہاراجہ نے بارہ اگست 1947 کو بالکل ایک سے ٹیلی گرام دونوں ممالک کو بھیجے۔ پاکستان 15 اگست 1947 کو اس معاہدے کے لیے راضی ہو گیا۔جہاں تک بھارت کا سوال ہے تو بھارت اس بارے میں مذاکرات کر رہا تھا مگر اس نے اس معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کیے۔
تین جون 1947 کو ماؤنٹ بیٹن کے منصوبے میں واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان کو دو ممالک میں تقسیم کیا جائے گا۔ریاستوں کے الحاق کے لیے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو محکمہ داخلہ سونپا گیا اور ان کا کام ریاستوں کو بھارت کے ساتھ الحاق پر مائل کرنا تھا اور وہ بہت بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے۔صرف تین ایسی ریاستیں تھیں جنھوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ الحاق کریں گی یا نہیں۔ کشمیر، جوناگڑھ اور حیدرآباد دکن۔ کشمیر سٹریٹجک لحاظ سے اہم تھا اور ساتھ ساتھ کشمیر کے ساتھ نہرو کا ‘جذباتی تعلق’ بھی تھا کیونکہ وہ ان کے آباؤ اجداد کا وطن تھا۔اس وقت کے دستاویزات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرانے کے لیے کافی شدید لابنگ کی گئی۔اس مقصد سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 18سے 30 جون 1947 کے دوران کشمیر کا دورہ کیا جہاں انھوں نے مہاراجہ ہری سنگھ اور ان کے وزیر اعظم آر سی کاک کے ساتھ کئی ابتدائی ملاقاتیں کیں۔ ماؤنٹ بیٹن اپنے ساتھ نہرو کی طرف سے مہاراجہ کے لیے ‘کشمیر پر ایک نوٹ’ بھی لائے تھے۔ اس نوٹ کی زبان اور لہجہ کافی جارحانہ تھا: ‘کشمیر کی صورت حال کا مقابلہ بڑی تبدیلیوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو مہاراجہ کی پوزیشن مزید غیر مستحکم ہو جائے گی۔تاہم اگر مہاراجہ اس سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہو جاتے ہیں تو بھارت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ اس سرحدی ریاست کی سٹریٹیجک اہمیت ہے۔۔ اس ریاست کے وسائل وسیع ہیں۔ اگر کشمیر کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی طرف جھکانے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ کشمیر کی بھارت کی آئین ساز اسمبلی میں شمولیت فطری اور قدرتی ہے۔ مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا جا رہا تھا، اس کے شواہد ان بیضابطگیوں میں بھی ملتے ہیں جو ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشاورت کے بعد ریڈکلف کمیشن کے کام میں نظر آتی ہیں۔
تیس جون 1947 کو علاقوں کو منقسم کرنے کے لیے ریڈکلف کمیشن کو تشکیل دیا گیا۔ تاہم اس کمیشن نے پنجاب کا مسلم اکثریتی علاقہ گرداسپور بھارت کے حصے میں ڈال دیا، جس سے بھارت کو کشمیر تک رسائی کا واحد راستہ مل گیا۔ لیاقت علی خان نے اس بارے میں لارڈ اسمے کو خط لکھا، جس کے جواب میں لارڈ اسمے نے لکھا، ‘محمد علی کے ذریعے بھیجا گیا آپ کا ذاتی پیغام دیکھ کر میں دنگ رہ گیا ہوں۔ جہاں تک بات میری سمجھ میں آرہی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ گرداسپور باؤنڈری کمیشن نے مشرقی پنجاب کو عطا کر دیا ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ یہ ایک منصفانہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی فیصلہ ہے: اگر ایسا ہے تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہے اور یہ برطانیہ کی طرف سے اعتماد اور بھروسے کو توڑنے کے مترادف ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ پندرہ اگست 1947 تک بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرکے کشمیر آزاد ہو گیا تھا۔ برطانوی ہندوستان کی تقسیم اور ریڈکلف کمیشن کی بے ضابطگیوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر ہندو اور مسلمان آبادیوں کی ہجرت ہوئی اور ساتھ ہی قتل و غارت اور ہلاکتیں بھی۔اس وقت تک کشمیر میں سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا اور مظاہرین سڑکوں پر اتر آئے تھے، خاص طور پر پونچھ میں۔ مہاراجہ کی فوج پر جموں کی مسلم آبادی کے قتل عام کے الزام لگے۔ کچھ اندازوں کے مطابق پانچ لاکھ کی آبادی میں سے دو لاکھ کے قریب ہلاک کر دیے گئے اور جو بچ گئے وہ جان بچا کر پاکستان چلے گئے۔مظاہرین کے خلاف مہاراجہ نے بھارت سے مدد مانگی مگر بھارت نے الحاق کے بغیر مدد کرنے سے انکار کر دیا۔یوں مجبوراً27 اکتوبر 1947 عارضی طور پر معاہدہ الحاق کو قبول کر لیاگیا مگر اس شرط پر کہ کشمیر میں مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ اس فیصلے پر رائے شماری ہوگی۔لیکن جب بھارتی فوج فاتحانہ انداز میں کشمیر میںداخل ہوئی تو اس وقت یہ کہا گیا کہ اس کا مقصد جمہوریت کا تحفظ اور ایک منصفانہ رائے شماری کے لیے حالات سازگار بنانا تھا۔ تاہم اس کے بعد کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا۔ کشمیر یوں کے ساتھ بھارتی حکمرانوں نے جو کچھ کیا وہ تمام دنیا کے سامنے ہے۔ جنوری 1989 سے لے کر آج تک بھارتی فورسز کے ہاتھوں 95686 کشمیری شہید ہوئے۔ 22920 خواتین بیوہ ہوئیں۔107802 بچے یتیم ہوئے 11219 کشمیری خواتین کی عصمت دری ہوئی۔ 8000 سے زائد نوجوان کشمیری لڑکے گھروں سے اٹھا لئے گئے جو آج تک منظر سے غائب ہیں۔ نہ جانے زندہ بھی ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ بہت سوں کی باقیات گمنام قبروں سے ملی ہیں۔ 340 کشمیریوں کی ایک یا دونوں آنکھیںپیلٹ گن سے ضائع ہوئیں جبکہ 1020 کی آنکھوں کی روشنی ختم ہوئی۔ سینکڑوں کشمیری جن میں حریت رہنما بھی شامل ہیں، سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔
بھارتی حکومت نے کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ 27 اکتوبر1947ء میں جو غیر قانونی اور نام نہاد معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا ، اقوام متحدہ اور کشمیری خود، اس قبضہ کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اورسمجھتے رہیں گے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے استصواب رائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔