وجود

... loading ...

وجود

ملالہ یوسفزئی علامت، عورت، اور انسان

جمعه 24 اکتوبر 2025 ملالہ یوسفزئی علامت، عورت، اور انسان

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔۔
صحن چمن

نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اگلے ماہ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ میں اپنی نئی کتابFinding My Wayکے حوالے سے ایک خصوصی تقریب میں شرکت کریں گی، جسے وہ اپنی بلوغت کی کہانی (Coming-of-age story) قرار دیتی ہیں۔”ملالہ یوسف زئی:فائنڈنگ مائی وے،بیک ٹور” کے عنوان سے یہ سفر 26اکتوبر کو نیو ہیون کے شو برٹ تھیٹر (Shubert Theatre)میں پہنچے گا۔ یہ ٹور ملالہ کی نئی یادداشتوں پر مبنی کتاب ”Finding My Way”کے اجرا کے موقع پر ترتیب دیا گیا ہے ۔ اس کتاب میں وہ اپنے سفر کو بیان کرتی ہیں ہائی اسکول کی تنہا لڑکی سے ایک بے باک کالج اسٹوڈنٹ، اور پھر ایک ایسی نوجوان عورت تک جو اپنے ماضی کے ساتھ زندہ ہے ۔ملالہ نے اپنے بیان میں کہا:میری نئی کتاب میری زندگی کی سب سے ذاتی تحریر ہے ۔ میں قارئین کے ساتھ اسے شیئر کرنے کے لیے بے چین ہوں۔ یہ میری بلوغت کی کہانی ہے دوستی اور پہلی محبت، بے چینی اور تذبذب، راتوں کی بے خوابیاں اور دھندلی صبحیں۔ اس کتابی سفر کے ذریعے میری کہانی صفحات سے نکل کر اصل گفتگو اور تعلق میں بدل جائے گی۔ میں ہر ملاقات کو قارئین کے لیے یادگار بنانا چاہتی ہوں۔
ملالہ یوسفزئی کو 2014 میں نوبیل امن انعام سے نوازا گیا، یہ ان کوششوں کے اعتراف میں تھا، جو انہوں نے ہر بچے کے تعلیم کے حق کے لیے کیں۔جب طالبان نے پاکستان کے سوات پر قبضہ کیا اور لڑکیوں کے اسکول جلا دیے ، تو ملالہ نے بی بی سی اردو کے لیے ایک بلاگ لکھا۔ جس میں ان حالات پر تنقید کی گئی۔2012میں طالبان کے ایک حملہ آور نے انہیں اسکول بس میں سر پر گولی ماری، مگر وہ معجزانہ طور پر بچ گئیں۔ایک سال بعد، ملالہ نے اقوامِ متحدہ میں تاریخی خطاب کیا، جس میں انہوں نے دنیا بھر کی لڑکیوں کے لیے مساوی تعلیمی حقوق کا مطالبہ کیا۔اسی دوران ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کی 100بااثر ترین شخصیات میں شامل کیا۔”Finding My Way” ملالہ کی پہلی کتاب نہیں ہے ۔اس سے قبل وہ 2013 میں اپنی پہلی کتاب ”I Am Malala” لکھ چکی ہیں، جس میں انہوں نے اپنی زندگی پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور تعلیم کے لیے جدوجہد کی داستان بیان کی۔اس کے بعد انہوں نے 2017 میں بچوں کے لیے ”Malala’s Magic Pencil” تحریر کی،اور 2019 میں ”We Are Displaced: My
Journey and Stories from Refugee Girls Around the World” شائع کی،جس میں دنیا بھر کی پناہ گزین لڑکیوں کی کہانیاں شامل ہیں۔
ملالہ کا یہ نیا کتابی سفر محض ایک ادبی تقریب نہیں بلکہ ایک نوجوان عورت کی ذاتی سچائی اور خود دریافت کا اظہار ہے ۔ملالہ یوسفزئی کی کہانی محض ایک لڑکی کی نہیں بلکہ ایک سوچ کی کہانی ہے ،جو ظلم، جہالت اور خوف کے مقابل علم کی شمع جلانے کی جرأت رکھتی تھی۔ سوات کی حسین وادی میں 1997 میں پیدا ہونے والی ملالہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ضیاء الدین یوسفزئی کے قائم کردہ اسکول میں حاصل کی۔وہ وقت جب طالبان نے وادی پر قبضہ کیا، لڑکیوں کے اسکول جلا دیے اور تعلیم کو ”حرام” قرار دے دیا ملالہ نے اس ماحول میں قلم سے رشتہ جوڑا، انھوں نے بی بی سی اردو کے لیے ”گل مکئی” کے نام سے اپنی ڈائری لکھ کر دنیا کو بتایا کہ طالبان کا خوف کیا ہوتا ہے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب ایک مقامی طالبہ عالمی ضمیر کی آواز بن گئی۔گولی سے گلوبل اسٹیج تک قربانی اور شہرت کا بوجھ اٹھائے ملالہ ایک نئے سفر پر رواں دواں تھی۔ملالہ بچ گئی۔اور یہی ”بچ جانا”ایک نئی داستان کا آغاز تھا۔چند ماہ میں وہ لندن منتقل ہوئیں، علاج ہوا، پھر اقوامِ متحدہ کے فورم پر کھڑی ہو کر وہ جملہ کہا جس نے دنیا بدل دی: One child, one teacher, one book,
one pen can change the world.)۔(ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم دنیا بدل سکتے ہیں۔)اس تقریر نے انہیں عالمی ہیرو بنا دیا، مگر ساتھ ہی ایک ایسا بوجھ بھی دے دیا جس کا ذکر وہ اب اپنی نئی کتاب میں کرتی ہیں۔”دنیا مجھے ہیرو کہتی رہی، مگر میں اندر سے الجھی ہوئی تھی”۔ملالہ کی تازہ کتاب Finding My Way ان کے اندرونی سفر کی پہلی سچی دستاویز ہے ۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے پوری دنیا جانتی تھی، مگر وہ خود کو نہیں جانتی تھی۔وہ اعتراف کرتی ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے دن اُن کے لیے آسان نہیں تھے ۔ایک طرف وہ ”نوبیل لاریئٹ”تھیں، دوسری طرف ایک عام طالبہ جو فیل ہونے کے خوف، دوست کھونے کے دکھ، اور عام زندگی کی خواہش میں مبتلا تھی۔وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں:میں چاہتی تھی کہ چند لمحوں کے لیے ملالہ یوسفزئی نہ رہوں بس ایک عام لڑکی بن جاؤں جو ہنستی، غلطیاں کرتی، اور خود کی تلاش میں رہتی ہے ۔یہ جملہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ عالمی شہرت کے پیچھے ایک انسان ہمیشہ اپنی سچائی کی تلاش میں رہتا ہے ۔ملالہ کی عصر ملک سے شادی ان کی زندگی کا ایک نیا باب ہے ۔یہ شادی صرف ایک ذاتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک علامتی اظہار بھی ہے ۔کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں گی، چاہے دنیا کچھ بھی کہے ۔انہوں نے Finding My Way میں کھل کر لکھا ہے کہ ووگ انٹرویو کے بعد اُن پر کتنا تنقیدی دباؤ آیا،لوگوں نے ان کے خیالات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا،مگر وقت کے ساتھ انہوں نے اپنی سچائی کو اپنایا۔آج ملالہ ایک ایسی عورت ہیں جو اپنے نظریات پر قائم بھی ہے اور جذباتی طور پر حساس بھی۔وہ محبت کو کمزوری نہیں بلکہ انسانی ہونے کی خوبصورتی کہتی ہیں۔ملالہ نے اپنے نام پر قائم ملالہ فنڈکے ذریعے تعلیم کے فروغ کا عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔یہ ادارہ نہ صرف پاکستان بلکہ نائیجیریا، افغانستان، شام، برازیل اور ایتھوپیا تک کام کر رہا ہے ،جہاں وہ لڑکیوں کے لیے تعلیم اور مساوی مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ان کا موقف سادہ مگر پُراثر ہے :ہم کسی بھی لڑکی کو اس کی تقدیر سے محروم نہیں رہنے دیں گے ، صرف اس لیے کہ وہ لڑکی ہے ۔اب کی ملالہ پہلے جیسی نہیں۔وہ زیادہ کھری، شوخ، اور انسانی کمزوریوں کو قبول کرنے والی ہے ۔وہ سوشل میڈیا پر اپنے ” مزاح، خود پر تنقید، اور ازدواجی زندگی کے لطائف سے خود کو زندہ، حقیقی انسان کے طور پر پیش کرتی ہیں۔یہ تبدیلی انہیں پہلے سے زیادہ قابلِ فہم اور اچھا انسان بنا تی ہے ۔ملالہ یوسفزئی اب صرف تعلیم کی علامت نہیں رہیں،وہ خودشناسی، خودمختاری اور نسائی شعور کی علامت بن چکی ہیں۔ان کی شخصیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ بہادری صرف بندوق کے سامنے کھڑے ہونے میں نہیں،بلکہ خود کو پہچاننے ، اپنی سچائی پر ڈٹے رہنے ،اور دنیا کے شور میںاپنی آواز سننے کا حوصلہ رکھنے میں ہے ۔
ملالہ کا نیا روپ ہنسنے ، رونے ، غلطی کرنے اور دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے والا انسان شاید اُس ”ہیرو ملالہ” سے کہیں زیادہ طاقتور ہے جسے دنیا برسوں سے جانتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کوئی بادشاہ نہیں ! وجود هفته 25 اکتوبر 2025
کوئی بادشاہ نہیں !

بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں وجود هفته 25 اکتوبر 2025
بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں

ڈیجیٹل عہد کے بچے۔۔ زوالِ ذہانت، ذہنی تنہائی ،مصنوعی بچپن وجود جمعه 24 اکتوبر 2025
ڈیجیٹل عہد کے بچے۔۔ زوالِ ذہانت، ذہنی تنہائی ،مصنوعی بچپن

ملالہ یوسفزئی علامت، عورت، اور انسان وجود جمعه 24 اکتوبر 2025
ملالہ یوسفزئی علامت، عورت، اور انسان

منی پور میں تشدد کے واقعات وجود جمعه 24 اکتوبر 2025
منی پور میں تشدد کے واقعات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر