وجود

... loading ...

وجود

پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران

اتوار 19 اکتوبر 2025 پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران

محمدآصف

کسی بھی قوم کا صحت کا نظام اس کی سماجی اور معاشی خوشحالی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے ۔ صحت مند آبادی ایک پیداواری ورک فورس، سماجی استحکام اور طویل المدتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں صحت کے شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ نتیجتاً کروڑوں لوگ قابلِ علاج بیماریوں، ناقص سہولتوں اور غیر مؤثر پالیسیوں کے باعث مصائب کا شکار ہیں۔ صحت کا بحران صرف طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی بحران ہے جو تعلیم، معیشت اور انسانی ترقی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے ۔
یہ بحران دہائیوں کی مسلسل غفلت، بدانتظامی اور کمزور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ پاکستان میں حکومتوں نے ہمیشہ اپنے بجٹ کا نہایت قلیل حصہ صحت کے لیے مختص کیا۔ جب کبھی پالیسیاں بنائی بھی گئیں تو ان پر عمل درآمد کرپشن اور بیوروکریسی کی نذر ہو گیا۔ نتیجتاً سرکاری اسپتال عملے ، سازوسامان اور سہولتوں کی شدید کمی کا شکار رہے ، اور مریضوں نے مجبوری میں مہنگے نجی اسپتالوں کا رخ کیا۔ اس غفلت نے امیر و غریب کے درمیان صحت کی سہولتوں میں ایک وسیع خلیج پیدا کر دی ہے ۔ پاکستان کا صحت کا ڈھانچہ بنیادی سطح پر کمزور ہے ۔ بیشتر سرکاری اسپتالوں میں صاف پانی، جراثیم سے پاک آلات، آئی سی یو، اور ضروری ادویات تک کی سہولت میسر نہیں۔ دیہی علاقوں کی حالت تو اس سے بھی زیادہ ابتر ہے جہاں اکثر کوئی کلینک یا ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتا۔ مریض معمولی علاج کے لیے میلوں سفر کرتے ہیں، اور ایمبولینس یا زچگی کی سہولت نہ ہونے کے باعث ماؤں اور بچوں کی شرح اموات تشویشناک حد تک زیادہ ہے ۔ شہروں کے اسپتال بھی مریضوں کے ہجوم سے بھرے ہوتے ہیں، جہاں بستر نہ ملنے پر لوگ راہداریوں میں پڑے رہتے ہیں۔
اس بحران کا ایک اور سنگین پہلو طبی ماہرین کی کمی ہے ۔ باصلاحیت ڈاکٹر اور نرسیں بہتر تنخواہوں اور سہولتوں کے لیے بیرونِ ملک چلی جاتی ہیں، جس سے مقامی عملہ شدید دباؤ میں آ جاتا ہے ۔ ڈاکٹروں اور مریضوں کا تناسب عالمی ادارۂ صحت کے معیار سے کہیں کم ہے ، جبکہ نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی صورتحال کو مزید سنگین بناتی ہے ۔صحت کی سہولتوں تک غیر مساوی رسائی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ امیر طبقہ مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج کرا لیتا ہے جبکہ غریب عوام زبوں حال سرکاری اسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں۔ خواتین، بچے ، بزرگ اور معذور افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دیہی آبادی جو ملک کی معیشت کی بنیاد ہے ، صحت اور تعلیم دونوں میدانوں میں محرومی کا شکار ہے ۔ یہ عدم مساوات غربت کو بڑھاتی اور ترقی کی رفتار کو روکتی ہے ۔صحت کے نظام کی کمزوری نے متعدی اور غیر متعدی دونوں اقسام کی بیماریوں کو بے قابو کر دیا ہے ۔ ہیپاٹائٹس، تپِ دق، ملیریا اور ڈینگی ہر سال ہزاروں جانیں لے لیتے ہیں۔ دوسری طرف شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاج کے بجائے نظام صرف ہنگامی صورتحال پر ردعمل دیتا ہے ، جس سے دیرپا اصلاح ممکن نہیں ہو پاتی۔
کووِڈ-19 کی وبا نے دنیا بھر کے صحت کے نظام کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا۔ پاکستان میں بھی آکسیجن، وینٹی لیٹرز اور بستروں کی کمی نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے جانفشانی سے کام کیا مگر حفاظتی سامان نہ ہونے کے باعث کئی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یہ بحران واضح کر گیا کہ صحت کا نظام محض سماجی خدمت نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے ۔صحت کی غفلت کا براہِ راست اثر معیشت پر بھی پڑتا ہے ۔ بیمار آبادی غیر پیداواری بن جاتی ہے ،جس سے صنعت و زراعت متاثر ہوتے ہیں۔ علاج کے اخراجات لاکھوں خاندانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ لوگ علاج کے لیے قرض لیتے یا جائیداد بیچ دیتے ہیں۔ عالمی تحقیق کے مطابق صحت پر خرچ کیا گیا ہر ڈالر کئی گنا منافع دیتا ہے ، کیونکہ صحت مند آبادی ہی معاشی ترقی کی ضامن ہے ۔ مگر پالیسی ساز اسے سرمایہ کاری کے بجائے خرچ سمجھتے ہیں۔
اس بحران کی ایک بڑی جڑ کرپشن اور بدانتظامی ہے ۔ اسپتالوں کی تعمیر، ادویات کی خریداری اور عملے کی تربیت کے فنڈز اکثر خردبرد ہو جاتے ہیں۔ ناقص یا جعلی ادویات فراہم کی جاتی ہیں، جبکہ مشینری بغیر مرمت کے ناکارہ پڑی رہتی ہے ۔ عملے کی بھرتی بیوروکریسی اور سیاسی مداخلت کی نذر ہو جاتی ہے ، اور پیشہ ورانہ ماحول تباہ ہو جاتا ہے ۔ شفافیت اور احتساب کے بغیر کوئی اصلاح دیرپا نہیں ہو سکتی۔ ایک مضبوط صحت کا نظام صرف علاج پر نہیں بلکہ بیماری سے بچاؤ پر بھی توجہ دیتا ہے ۔ مگراحتیاطی صحت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ حفاظتی ٹیکہ جات، صاف پانی کے منصوبے ، صفائی اور آگاہی مہمات غیر مؤثر ہیں، جس کے نتیجے میں پولیو، ہیضہ اور ڈینگی جیسی بیماریاں بار بار پھیلتی ہیں۔ احتیاطی تدابیر علاج سے کہیں سستی ہیں، مگر حکومتیں اس پہلو کو ترجیح نہیں دیتیں۔
پاکستان کا صحت کا نظام دہائیوں سے زوال کا شکار ہے ۔ لاکھوں لوگ معیاری علاج، ادویات اور بنیادی طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سرکاری اسپتال ناکافی فنڈنگ، تربیت یافتہ عملے کی کمی اور بڑھتی آبادی کے دباؤ کے باعث بدحال ہیں۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹر اور ایمبولینس کا فقدان ہے ، جبکہ شہری مراکز میں بھی جدید سہولتوں کی کمی ہے ۔ نجی اسپتالوں کی بلند فیسوں نے عام شہری کے لیے علاج تقریباً ناممکن بنا دیا ہے ۔اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حکومت کو صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فنڈز شفاف انداز میں خرچ ہوں۔ دیہی علاقوں میں نئے اسپتال قائم کیے جائیں، موجودہ اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے اور ڈاکٹروں کو مناسب تنخواہیں اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے ۔ احتیاطی صحت پر زور دیا جائے اور ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے ۔ عوامی و نجی شعبے کے اشتراک سے ہی یہ خلا پُر کیا جا سکتا ہے ۔
صحت کا نظام محض ایک انتظامی شعبہ نہیں بلکہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ایک قوم کی خوشحالی اور استحکام قائم ہوتا ہے ۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو کروڑوں لوگ بلاوجہ مصائب سہتے رہیں گے اور قومی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ پالیسی ساز، سول سوسائٹی اور عالمی ادارے صحت کو ایک بنیادی انسانی حق سمجھ کر اولین ترجیح دیں۔ آج صحت پر سرمایہ کاری ہی کل کے بہتر، محفوظ اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران

دہشت گرد کی گرفتاری وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
دہشت گرد کی گرفتاری

امن معاہدے کے اثرات وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
امن معاہدے کے اثرات

معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ وجود هفته 18 اکتوبر 2025
معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ

جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا وجود هفته 18 اکتوبر 2025
جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر