... loading ...
محمدآصف
کسی بھی قوم کا صحت کا نظام اس کی سماجی اور معاشی خوشحالی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے ۔ صحت مند آبادی ایک پیداواری ورک فورس، سماجی استحکام اور طویل المدتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں صحت کے شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ نتیجتاً کروڑوں لوگ قابلِ علاج بیماریوں، ناقص سہولتوں اور غیر مؤثر پالیسیوں کے باعث مصائب کا شکار ہیں۔ صحت کا بحران صرف طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قومی بحران ہے جو تعلیم، معیشت اور انسانی ترقی پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے ۔
یہ بحران دہائیوں کی مسلسل غفلت، بدانتظامی اور کمزور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ پاکستان میں حکومتوں نے ہمیشہ اپنے بجٹ کا نہایت قلیل حصہ صحت کے لیے مختص کیا۔ جب کبھی پالیسیاں بنائی بھی گئیں تو ان پر عمل درآمد کرپشن اور بیوروکریسی کی نذر ہو گیا۔ نتیجتاً سرکاری اسپتال عملے ، سازوسامان اور سہولتوں کی شدید کمی کا شکار رہے ، اور مریضوں نے مجبوری میں مہنگے نجی اسپتالوں کا رخ کیا۔ اس غفلت نے امیر و غریب کے درمیان صحت کی سہولتوں میں ایک وسیع خلیج پیدا کر دی ہے ۔ پاکستان کا صحت کا ڈھانچہ بنیادی سطح پر کمزور ہے ۔ بیشتر سرکاری اسپتالوں میں صاف پانی، جراثیم سے پاک آلات، آئی سی یو، اور ضروری ادویات تک کی سہولت میسر نہیں۔ دیہی علاقوں کی حالت تو اس سے بھی زیادہ ابتر ہے جہاں اکثر کوئی کلینک یا ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتا۔ مریض معمولی علاج کے لیے میلوں سفر کرتے ہیں، اور ایمبولینس یا زچگی کی سہولت نہ ہونے کے باعث ماؤں اور بچوں کی شرح اموات تشویشناک حد تک زیادہ ہے ۔ شہروں کے اسپتال بھی مریضوں کے ہجوم سے بھرے ہوتے ہیں، جہاں بستر نہ ملنے پر لوگ راہداریوں میں پڑے رہتے ہیں۔
اس بحران کا ایک اور سنگین پہلو طبی ماہرین کی کمی ہے ۔ باصلاحیت ڈاکٹر اور نرسیں بہتر تنخواہوں اور سہولتوں کے لیے بیرونِ ملک چلی جاتی ہیں، جس سے مقامی عملہ شدید دباؤ میں آ جاتا ہے ۔ ڈاکٹروں اور مریضوں کا تناسب عالمی ادارۂ صحت کے معیار سے کہیں کم ہے ، جبکہ نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی صورتحال کو مزید سنگین بناتی ہے ۔صحت کی سہولتوں تک غیر مساوی رسائی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ امیر طبقہ مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج کرا لیتا ہے جبکہ غریب عوام زبوں حال سرکاری اسپتالوں پر انحصار کرتے ہیں۔ خواتین، بچے ، بزرگ اور معذور افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ دیہی آبادی جو ملک کی معیشت کی بنیاد ہے ، صحت اور تعلیم دونوں میدانوں میں محرومی کا شکار ہے ۔ یہ عدم مساوات غربت کو بڑھاتی اور ترقی کی رفتار کو روکتی ہے ۔صحت کے نظام کی کمزوری نے متعدی اور غیر متعدی دونوں اقسام کی بیماریوں کو بے قابو کر دیا ہے ۔ ہیپاٹائٹس، تپِ دق، ملیریا اور ڈینگی ہر سال ہزاروں جانیں لے لیتے ہیں۔ دوسری طرف شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ احتیاطی تدابیر اور آگاہی مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاج کے بجائے نظام صرف ہنگامی صورتحال پر ردعمل دیتا ہے ، جس سے دیرپا اصلاح ممکن نہیں ہو پاتی۔
کووِڈ-19 کی وبا نے دنیا بھر کے صحت کے نظام کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا۔ پاکستان میں بھی آکسیجن، وینٹی لیٹرز اور بستروں کی کمی نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے جانفشانی سے کام کیا مگر حفاظتی سامان نہ ہونے کے باعث کئی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یہ بحران واضح کر گیا کہ صحت کا نظام محض سماجی خدمت نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے ۔صحت کی غفلت کا براہِ راست اثر معیشت پر بھی پڑتا ہے ۔ بیمار آبادی غیر پیداواری بن جاتی ہے ،جس سے صنعت و زراعت متاثر ہوتے ہیں۔ علاج کے اخراجات لاکھوں خاندانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیتے ہیں۔ لوگ علاج کے لیے قرض لیتے یا جائیداد بیچ دیتے ہیں۔ عالمی تحقیق کے مطابق صحت پر خرچ کیا گیا ہر ڈالر کئی گنا منافع دیتا ہے ، کیونکہ صحت مند آبادی ہی معاشی ترقی کی ضامن ہے ۔ مگر پالیسی ساز اسے سرمایہ کاری کے بجائے خرچ سمجھتے ہیں۔
اس بحران کی ایک بڑی جڑ کرپشن اور بدانتظامی ہے ۔ اسپتالوں کی تعمیر، ادویات کی خریداری اور عملے کی تربیت کے فنڈز اکثر خردبرد ہو جاتے ہیں۔ ناقص یا جعلی ادویات فراہم کی جاتی ہیں، جبکہ مشینری بغیر مرمت کے ناکارہ پڑی رہتی ہے ۔ عملے کی بھرتی بیوروکریسی اور سیاسی مداخلت کی نذر ہو جاتی ہے ، اور پیشہ ورانہ ماحول تباہ ہو جاتا ہے ۔ شفافیت اور احتساب کے بغیر کوئی اصلاح دیرپا نہیں ہو سکتی۔ ایک مضبوط صحت کا نظام صرف علاج پر نہیں بلکہ بیماری سے بچاؤ پر بھی توجہ دیتا ہے ۔ مگراحتیاطی صحت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ حفاظتی ٹیکہ جات، صاف پانی کے منصوبے ، صفائی اور آگاہی مہمات غیر مؤثر ہیں، جس کے نتیجے میں پولیو، ہیضہ اور ڈینگی جیسی بیماریاں بار بار پھیلتی ہیں۔ احتیاطی تدابیر علاج سے کہیں سستی ہیں، مگر حکومتیں اس پہلو کو ترجیح نہیں دیتیں۔
پاکستان کا صحت کا نظام دہائیوں سے زوال کا شکار ہے ۔ لاکھوں لوگ معیاری علاج، ادویات اور بنیادی طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔ سرکاری اسپتال ناکافی فنڈنگ، تربیت یافتہ عملے کی کمی اور بڑھتی آبادی کے دباؤ کے باعث بدحال ہیں۔ دیہی علاقوں میں ڈاکٹر اور ایمبولینس کا فقدان ہے ، جبکہ شہری مراکز میں بھی جدید سہولتوں کی کمی ہے ۔ نجی اسپتالوں کی بلند فیسوں نے عام شہری کے لیے علاج تقریباً ناممکن بنا دیا ہے ۔اس صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حکومت کو صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فنڈز شفاف انداز میں خرچ ہوں۔ دیہی علاقوں میں نئے اسپتال قائم کیے جائیں، موجودہ اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا جائے اور ڈاکٹروں کو مناسب تنخواہیں اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے ۔ احتیاطی صحت پر زور دیا جائے اور ویکسینیشن مہمات کو ترجیح دی جائے ۔ عوامی و نجی شعبے کے اشتراک سے ہی یہ خلا پُر کیا جا سکتا ہے ۔
صحت کا نظام محض ایک انتظامی شعبہ نہیں بلکہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ایک قوم کی خوشحالی اور استحکام قائم ہوتا ہے ۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو کروڑوں لوگ بلاوجہ مصائب سہتے رہیں گے اور قومی ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ پالیسی ساز، سول سوسائٹی اور عالمی ادارے صحت کو ایک بنیادی انسانی حق سمجھ کر اولین ترجیح دیں۔ آج صحت پر سرمایہ کاری ہی کل کے بہتر، محفوظ اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے ۔