وجود

... loading ...

وجود

دہشت گرد کی گرفتاری

اتوار 19 اکتوبر 2025 دہشت گرد کی گرفتاری

ریاض احمدچودھری

ننگرہار کے رہنے والے دہشت گرد امر اللہ کا کہنا تھا کہ 2021 میں اسپین بولدک کے راستے پاکستان میں داخل ہوا، قابض طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں فوج اور پولیس کی ٹارگٹ کلنگ کا حکم ملا۔امر اللہ نے اعتراف کیا کہ وہ پاکستان میں کچلاک، نوشہرہ اور پھر پشاور میں مقیم رہا اور ٹارگٹ منتخب کرنے کے دوران پکڑا گیا۔دہشت گرد نے بتایا کہ پچھلی افغان حکومت میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہا ہوں۔ 2016 سے داعش کے کاموں اور ٹارگٹ کلنگ میں شامل تھا، میری پہلی ٹارگٹ کلنگ خوگیانو میں اربکیان کے ایک کمیٹی رکن کی تھی، اس کے بعد 2021 میں افغان حکومت کے ایک مخبر کو ٹارگٹ کیا۔اسی دوران میرے استادوں نے کہا کہ مجھے پاکستان جہاد کے لیے بھیجنا ہے، میں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سختی ہے کام کرنا مشکل ہے، 2021 میں پاکستان آیا اور داعش کی قیادت کے ساتھ رابطہ رہا۔ کچھ دن بعد محمد نبی کو پاکستانی فوج نے گرفتار کرلیا، مجھے ذمہ داری دی گئی کہ میں پولیس اور فوج کی نگرانی کروں اس لیے میں پشاور منتقل ہوگیا۔ مگر میں پروگرام فائنل کرنے سے پہلے ہی پکڑا گیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہماری کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کابل سے مثبت ردعمل نہیں آیا، افغانستان، بھارت کی پراکسی بن گیا ہے، اب احتجاجی مراسلے، امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی، دہشت گردی کا منبع جہاں بھی ہوگا اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ 2021 سے لے کر ابتک 3 ہزار 844 افراد شہید ہوئے، جن میں سول، فوجی اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے اہلکار شامل ہیں جبکہ دہشتگردی کے 10 ہزار 347 واقعات ہوئے۔ 5 سال میں ہماری کوششوں اور قربانیوں کے باوجود کابل سے مثبت ردعمل نہیں آیا، اب افغانستان بھارت کی پراکسی بن گیا ہے، یہ دہشتگردی کی جنگ بھارت، افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی نے مل کر پاکستان پہ مسلط کی ہوئی ہے۔ کابل کے حکمران جو اب بھارت کی گود میں بیٹھ پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، کل تک ہماری پناہ میں تھے، ہماری زمین پر چھپتے پھرتے تھے۔
پاکستان اب کابل کے ساتھ تعلقات کا ماضی کی طرح متحملْ نہیں ہو سکتا، پاک سر زمین پر بیٹھے تمام افغانیوں کو اپنے وطن جانا ہوگا، اب کابل میں ان کی اپنی حکومت/ خلافت ہے۔ 5 دہائیوں کی زبردستی کی مہمان نوازی کے خاتمے کا وقت ہے، خودار قومیں بیگانی سر زمین اور وسائل پر نہیں پلتی، اور اب احتجاجی مراسلے امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی، کابل وفد نہیں جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں القاعدہ اور فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) جیسے دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کے ناقابل تردید شواہد سامنے آگئے ہیں۔ یہ گروہ افغانستان میں آزادانہ طور پر سرگرم ہیں اور وسطی ایشیائی ممالک اور خطے کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگران ٹیم نے 24 جولائی 2025 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کی جو کہ اس نوعیت کی 36 ویں رپورٹ ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان کی اتھارٹی دہشت گرد گروہوں، بشمول القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کو کھلی چھوٹ دیے ہوئے ہے۔ یہ گروہ افغانستان کے چھ صوبوں غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، ارزگان اور زابل میں سرگرم ہیں۔ افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی کا تعلق زیادہ تر عرب نژاد جنگجوؤں سے ہے، یہ جنگجو وہی ہیں جنہوں نے ماضی میں طالبان کے ساتھ مل کر جنگ کی تھی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا افغانستان میں القاعدہ کے کئی تربیتی مراکز کام کر رہے ہیں، جن میں سے تین نئے کیمپ ایسے ہیں جہاں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (فتنہ الخوارج) کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت دی جا رہی ہے۔ ٹی ٹی پی کے پاس تقریباً 6,000 جنگجو موجود ہیں، جنہیں مختلف اقسام کے جدید ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے، جس سے ان کے حملے مزید ہلاکت خیز ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی آزادانہ سرگرمیاں علاقائی سلامتی اور پائیدار امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں، لہٰذا ان گروہوں کی سہولت کاری اور تربیتی نیٹ ورک کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔گزشتہ سال سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اقوام متحدہ داعش، القاعدہ اور ٹی ٹی پی سے متعلق جائزہ رپورٹ میں بھی فتنہ الخوارج کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان کا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے، جسے افغان طالبان اور القاعدہ دہشت گرد نیٹ ورک کے دھڑوں کی جانب سے آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پیش کی گئی داعش اور القاعدہ/طالبان سے متعلق مانیٹرنگ ٹیم کی 15ویں رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے، ان کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔اس رپورٹ سے اسلام آباد کے مؤقف کی تصدیق ہوئی تھی کہ کابل پاکستان کو درپیش دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے، جسے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ محسن نقوی جیسے حکام نے بار بار دہرایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران

دہشت گرد کی گرفتاری وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
دہشت گرد کی گرفتاری

امن معاہدے کے اثرات وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
امن معاہدے کے اثرات

معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ وجود هفته 18 اکتوبر 2025
معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ

جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا وجود هفته 18 اکتوبر 2025
جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر