وجود

... loading ...

وجود

معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ

هفته 18 اکتوبر 2025 معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی
پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ روزانہ اخبارات میں مختلف عالمی اور ملکی اداروں کے سروے شائع ہوتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان خطے کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے ، اور کچھ رپورٹس میں تو اسے بہتری کی رفتار کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا ہے ۔موقر امریکی جریدے بلوم برگ نے کہا ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جس کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور پاکستان کی کارکردگی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے ۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان ( اے پی پی ) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوم برگ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں سب سے بڑی کمی دکھائی ہے ۔بلومبرگ کے مطابق پاکستان کی کارکردگی دنیا بھر کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر رہی ہے ،صرف ترکیہ پاکستان سے آگے ہے ۔حکومت کے نمائندے ، وزراء اور ترجمان ان اعدادوشمار کو فخریہ بیان کرتے نہیں تھکتے ۔ لیکن جب یہی خوش کن دعوے ایک عام شہری کی زندگی سے جوڑ کر دیکھے جائیں تو ایک تلخ تضاد سامنے آتا ہے ۔ ترقی کے یہ اعدادوشمار عوام کے خالی برتنوں میں کیوں نہیں جھلکتے ؟ کیا معیشت کی بہتری کا مطلب صرف سرکاری رپورٹوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے ہیں، یا پھر اس کا عکس عوام کی روزمرہ زندگی میں بھی نظر آنا چاہیے ؟
حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی نے ہر سمت سے عوام کو جکڑ رکھا ہے ۔ حکومت کے بقول افراطِ زر کی شرح میں معمولی کمی آئی ہے ، مگر بازار کی گواہی کچھ اور ہے ۔ آٹا جو بنیادی ضرورت ہے ، اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔آٹا کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ جیسے سبزیاں، دالیں، چاول، چینی اور گھی بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ مرغی، انڈے اور دودھ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہیں، اور عام شہری کے لیے اپنے محدود بجٹ میں گھر کا خرچ چلانا ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ جان بچانے والی ادویات، جو کبھی متوسط طبقے کی پہنچ میں تھیں، اب لگژری بن چکی ہیں۔ اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولتیں کم ہو رہی ہیں، اور نجی ہسپتال عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں آزاد ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کی زندگی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئی ہے ۔مہنگائی کا جن واقعی قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ حکمرانوں کے بیانات میں اگرچہ تسلی کے الفاظ ہیں، مگر عملی طور پر صورتِ حال روز بروز بگڑ رہی ہے ۔ روپے کی قدر میں کمی، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ، اور اندرونی بدانتظامی نے معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے ، سبسڈی ختم کرتی ہے ، اور محصولات بڑھاتی ہے ۔ نتیجتاً عوام سے ہر سطح پر مزید قربانیاں مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکس دینے والے طبقے پر دباؤ بڑھتا ہے ، جب کہ امیر طبقہ بدستور مراعات کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ اس طبقاتی تفریق نے پاکستان میں معاشی عدم توازن کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے ۔اگر معیشت واقعی ترقی کر رہی ہے تو اس ترقی کا فائدہ کہاں جا رہا ہے ؟ یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں ابھر رہا ہے ۔ ترقی کے دعوے اُس وقت حقیقی معنوں میں معتبر ہوتے ہیں جب ان کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری اعدادوشمار خوش کن ہیں مگر عوام کے اعداد و شمار خوفناک غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ، بیروزگاری بڑھ رہی ہے ، متوسط طبقہ سکڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف اشرافیہ کے محلات اور بینک اکاؤنٹس پھل پھول رہے ہیں۔ یہ منظرنامہ کسی بھی ترقی یافتہ معیشت کا نہیں بلکہ غیر متوازن نظام کا عکاس ہے ۔اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی بنیادی وجوہات صرف بیرونی قرضے یا درآمدی مہنگائی نہیں بلکہ داخلی بدانتظامی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور غیر مؤثر پالیسی سازی بھی ہیں۔ جب اشیائے خورونوش کا ذخیرہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے تو مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے ، اور قیمتیں بڑھا کر عوام سے ناجائز منافع کمایا جاتا ہے ۔ اس عمل میں کئی بااثر افراد شامل ہوتے ہیں جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے ۔ نتیجتاً عام صارف کے لیے بازار میں اشیاء نہ صرف مہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ معیار میں بھی کمی آ جاتی ہے ۔حکومت اگر واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اسے عوامی معیشت کو مستحکم بنانا ہوگا۔ اعدادوشمار کی ترقی سے پیٹ نہیں بھرتے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک مزدور، ایک استاد، ایک سرکاری ملازم یا ایک چھوٹے دکاندار کی قوتِ خرید کم ہو چکی ہے ۔ ان کی آمدنی وہی ہے لیکن اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ بجلی کے بل، گیس کے نرخ، ٹرانسپورٹ کے کرائے ، تعلیمی اخراجات اور علاج کے بل سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے ۔ ایسے میں ترقی کا نعرہ عوام کے لیے طنز بن جاتا ہے ۔پاکستان کی معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف لے جانے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے ، حکومت کو مہنگائی کے اصل اسباب کا تعین کرکے مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے ، چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ دوسرا، زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو سستی کھاد، معیاری بیج اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ خوراک کی قلت نہ پیدا ہو۔ تیسرا، درآمدات پر انحصار کم کرکے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اور زرِ مبادلہ کا ضیاع کم ہو۔اس کے علاوہ، حکومت کو سماجی تحفظ کے پروگراموں کو وسعت دینی چاہیے تاکہ کم آمدنی والے خاندانوں کو مہنگائی کے بوجھ سے وقتی سہارا مل سکے ۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں عوامی سرمایہ کاری بڑھانے سے انسانی ترقی کے اشاریے بہتر ہوں گے ، جو کسی بھی مضبوط معیشت کی بنیاد ہیں۔ صرف ترقی کے اعدادوشمار دکھا کر حقیقت نہیں بدلی جا سکتی، اس کے لیے انصاف، شفافیت اور عملی اقدامات ضروری ہیں۔پاکستان کی معیشت بلاشبہ ایک نازک موڑ پر ہے ۔ اگر اس موقع پر سنجیدہ اور عوام دوست پالیسیاں نہ بنائی گئیں تو یہ بظاہر ترقی کرتی معیشت عوام کی زندگیوں کو مزید تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے ۔ معیشت کی اصل ترقی وہی ہے جو روٹی، روزگار، تعلیم اور علاج میں آسانی پیدا کرے ورنہ یہ ترقی محض الفاظ کا کھیل ہے ، حقیقت نہیں۔
اشیائے خورونوش کے نرخوں میں استحکام کے لیے مؤثر پرائس کنٹرول نظام نافذ کیا جائے ۔ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے خلاف غیر جانبدار مہم چلائی جائے ۔کم آمدنی والے طبقے کے لیے سبسڈی اور ریلیف پیکیج فوری طور پر بحال کیے جائیں۔ زرعی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ خوراک کی قیمتیں قابو میں رہیں۔عوامی فلاحی منصوبوں میں شفافیت لائی جائے اور ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک پہنچائے جائیں۔یہی وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کی معیشت کو محض اعدادوشمار کی ترقی سے نکال کر حقیقی خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ وجود هفته 18 اکتوبر 2025
معیشت کی ترقی کے باوجود مہنگائی میں مسلسل اضافہ

جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا وجود هفته 18 اکتوبر 2025
جھوٹ کا چیمپئن بھارتی میڈیا

ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز وجود جمعه 17 اکتوبر 2025
ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز

پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ وجود جمعه 17 اکتوبر 2025
پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ

بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک وجود جمعرات 16 اکتوبر 2025
بھینس چوری سے سیاست کی سزا تک

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر