وجود

... loading ...

وجود

ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز

جمعه 17 اکتوبر 2025 ظلم کے خلاف آزادی قلم صحافت کے مجاہد ہیروز

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

صحافت محض پیشہ نہیں، یہ ضمیر کی صدا اور عوام کی امانت ہے جو سچائی کے چراغ کو جلائے رکھے ، وہی اصل صحافی ہے ۔اسی جدوجہد میں اُس کا وقار، اُس کا ایمان، اور اُس کی پہچان چھپی ہے ۔ ‘سچ لکھنے والا ہمیشہ طاقت کے مراکز کے نشانے پر ہوتا ہے’ ۔وہ اکثر طاقتور حلقوں کی ناراضی مول لیتا ہے ۔دنیا میں سچ کہنا ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ لفظ کبھی تلوار سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے ، اور وہ لوگ جو سچ کو حرفوں میں ڈھالتے ہیں، اکثر خود تاریخ کے صفحوں پر خون کے داغ بن کر رہ جاتے ہیں۔ رواں برس 2025ء میں آزادیٔ صحافت کی تاریخ نے ایک نیا باب رقم کیا ہے ، جب دو عالمی اداروں انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ IPI))اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ IMS))نے سات بہادر صحافیوں کو ورلڈ پریس فریڈم ہیروز کے عالمی اعزاز سے نوازا۔ ان میں وہ فلسطینی خاتون بھی شامل ہیں جو غزہ کی تباہ شدہ گلیوں میں اپنے کیمرے کے ساتھ شہید ہوئیں۔
یہ اعزاز اُن صحافیوں کو دیا جاتا ہے جو شدید خطرات کے باوجود سچ بولنے سے باز نہیں آتے ۔ اس سال کے ایوارڈ یافتگان کا تعلق جارجیا، امریکا، غزہ، پیرو، ہانگ کانگ، یوکرین اور ایتھوپیا سے ہے ۔ ان سب نے ظلم، سنسرشپ، قید اور دھمکیوں کے باوجود صحافتی اصولوں کی حفاظت کی اور عوام کے حقِ جاننے کو مقدم رکھا۔سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آئی پی آئی اور آئی ایم ایس کون سے ادارے ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے ۔
انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (IPI)کا قیام 1950ء میں صحافیوں اور مدیران کے ایک عالمی اجتماع کے نتیجے میں ہوا۔ اس کا صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے ۔آئی پی آئی آزادیٔ اظہار، آزاد میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے ۔ یہ ادارہ ہر سال مختلف ممالک میں صحافت پر ہونے والے دباؤ، قتل، قید، سنسرشپ اور جبر کی نگرانی کرتا ہے ، اور انہی بنیادوں پر ان صحافیوں کا انتخاب کرتا ہے جنہوں نے جرات کی مثال قائم کی۔ آئی پی آئی کے ورلڈ پریس فریڈم ہیروز ایوارڈ کو صحافت کی دنیا میں سب سے باوقار تمغہ مانا جاتا ہے ، جو 1996ء سے ہر سال دیا جا رہا ہے ۔دوسرا ادارہ انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (IMS)ہے ، جس کا صدر دفتر کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں ہے ۔ IMS 2001ء میں قائم ہوا اور اس کا بنیادی مقصد دنیا کے اُن خطوں میں صحافت کا تحفظ کرنا ہے جہاں جنگ، آفات یا سیاسی جبر کے باعث میڈیا خطرے میں ہو۔ آئی ایم ایس صحافیوں کی تربیت، قانونی معاونت، اور آن لائن و فزیکل سکیورٹی پروگرام چلاتا ہے ۔ یہ ادارہ آزادیٔ اظہار کو انسانی حق مانتے ہوئے میڈیا اداروں کے لیے پالیسی سطح پر اصلاحات کی حمایت کرتا ہے ۔ 2020ء کے بعد سے آئی ایم ایس نے آئی پی آئی کے ساتھ مل کر یہ عالمی اعزاز مشترکہ طور پر دینا شروع کیا، تاکہ آزادیِ صحافت کے تحفظ کی جدوجہد کو عالمی سطح پر مضبوط کیا جا سکے ۔
اب اگر اس سال کے سات ہیروز پر نظر ڈالی جائے تو ہر نام اپنے آپ میں ایک داستان ہے ۔جارجیا سے Mzia Amaglobeli نے روسی دباؤ اور داخلی پابندیوں کے باوجود آزاد میڈیا کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ خواتین صحافیوں کے لیے جرات اور تحفظ کی علامت بن چکی ہیں۔امریکا سے Martin Baron نے واشنگٹن پوسٹ اور بوسٹن گلوب کے ادارتی سربراہ کے طور پر تحقیقاتی صحافت کی نئی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں امریکی سیاست اور حکومت میں شفافیت کے کئی نئے در وا ہوئے ۔غزہ کی Mariam Abu Dagga وہ نام ہے جس نے دنیا کو دکھا دیا کہ سچائی کے راستے میں بمباری بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ فلسطینی فوٹو جرنلسٹ تھیں، جو پناہ گزین کیمپوں میں انسانی المیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کر رہی تھیں۔ اسرائیلی حملے کے دوران وہ رپورٹنگ کر رہی تھیں جب ایک فضائی حملے نے ان کی جان لے لی۔ ان کی شہادت نے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے لیے ایک نئے جذبے کو جنم دیا۔ IPI اور IMS نے انہیں بعد از مرگ (Posthumously)یہ اعزاز دیا۔
لفظ “Posthumously” (پوسْتھیومَسلی) ایک انگریزی اصطلاح ہے ،جس کا مطلب ہے “وفات کے بعد” یا “مرنے کے بعد”۔یعنی جب کسی شخص کو ایوارڈ، اعزاز، یا درجہ اُس کے انتقال کے بعد دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اعزاز اسے posthumously awarded کیا گیا۔پیرو سے Gustavo Gorriti نے منشیات مافیا اور بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف اپنی قلمی جنگ سے حکومتوں کو ہلا دیا۔ کئی بار قید ہوئے ، لیکن قلم نہیں چھوڑا۔ہانگ کانگ کے Jimmy Lai، جو ایپل ڈیلی کے بانی ہیں، چین کے دباؤ میں آکر بھی اپنی آزادیِ رائے پر قائم رہے ۔ انہیں جیل میں ڈالا گیا، اخبار بند ہوا، لیکن وہ آج بھی دنیا بھر کے صحافیوں کے لیے مثال بنے ہوئے ہیں۔یوکرین کی Viktoriia Roshchyna نے روسی حملوں کے دوران محاذِ جنگ سے رپورٹنگ کی۔ گرفتار ہوئیں، تشدد کا نشانہ بنیں، مگر جنگ کے بیچ بھی سچ کی خبریں دنیا تک پہنچاتی رہیں۔ایتھوپیا کے Tesfalem Waldyesنے ایک ایسے نظام میں آزاد میڈیا کے حق میں آواز بلند کی جہاں اظہارِ رائے کو جرم سمجھا جاتا ہے ۔ انہوں نے میڈیا آزادی کے قوانین کے لیے مہم چلائی، جس کے نتیجے میں کئی نئے آزاد ادارے قائم ہوئے ۔یہ سب وہ نام ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ملک میں خطرے کے باوجود وہی کیا جس کے لیے صحافت وجود میں آئی سچ بولنا، چاہے اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔ آئی پی آئی اورآئی ایم ایس کے مطابق ان ہیروز کا انتخاب اُن کے اخلاقی استقلال، عوامی خدمت کے جذبے ، اور آزادیٔ اظہار کے غیر متزلزل یقین کی بنیاد پر کیا گیا۔ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں پچھلے دو سالوں میں 150سے زائد صحافی قتل یا لاپتہ ہوئے ، جبکہ 1200سے زیادہ کو قید یا مقدمات کا سامنا ہے ۔ ان اعداد و شمار نے یہ ثابت کیا ہے کہ آزادیٔ صحافت اب صرف جمہوری اصول نہیں بلکہ عالمی انسانی حق بن چکی ہے ۔
غزہ میں گزشتہ سال اسرائیلی حملوں کے دوران 70 سے زیادہ فلسطینی صحافی شہید ہوئے ، جن میں خواتین کی نمایاں تعداد شامل تھی۔ مریم ابو دقہ ان میں ایک چمکتا ہوا نام تھیں، جنہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کیمرہ بندوق سے زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے ۔ ان کی قربانی نے ورلڈ پریس فریڈم ہیروز 2025ء کو ایک تاریخی رنگ دیا۔یہ ایوارڈ صرف افراد کو نہیں بلکہ ایک نظریے کو دیا گیا ہے وہ نظریہ کہ سچ کبھی نہیں مرتا۔ انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ کی یہ کوشش انسانیت کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اگرچہ جبر بڑھ رہا ہے ، مگر سچ لکھنے والے اب بھی زندہ ہیں۔
ضرورت اب اس امر کی ہے کہ عالمی برادری صرف خراجِ تحسین پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی اقدامات کرے ۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ”انٹرنیشنل پروٹیکشن چارٹر فار جرنلسٹس” منظور کرے ، جس کے تحت جنگی علاقوں میں صحافیوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کو جنگی جرم قرار دیا جائے ۔ ساتھ ہی ہر ملک میں ”پریس فریڈم کمیشن” قائم کیا جائے جو میڈیا اہلکاروں کی سلامتی، قانونی مدد اور نفسیاتی بحالی کے لیے ذمہ دار ہو۔یہ ساتوں ہیرو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آزادیٔ صحافت کوئی مغربی تصور نہیں بلکہ انسانی ضمیر کی زبان ہے ۔ جب قلم جھکنے سے انکار کرتا ہے تو دنیا بدل جاتی ہے ۔ مریم ابو دقہ، جمی لائی، مارٹن بارون، مزیا اماگلوبیلی، گستاوو گوریتی، وکٹوریا روشچینا اور تسفالم ولدیس وہ نام ہیں جو آنے والی نسلوں کو یاد دلاتے رہیں گے کہ اندھیرے جتنے بھی گہرے ہوں، سچائی کی روشنی کبھی بجھ نہیں سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں مگر کب تک؟ وجود پیر 20 اکتوبر 2025
غزہ: زندگی کی آوازیں لوٹ آئی ہیں مگر کب تک؟

بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ سے امتیازی سلوک وجود پیر 20 اکتوبر 2025
بھارتی تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ سے امتیازی سلوک

بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ وجود پیر 20 اکتوبر 2025
بدلے کی آگ میں جلتا مودی خطے کے امن کے لیے خطرہ

پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
پاکستان میں صحت کا نظام ایک نظر انداز شدہ قومی بحران

دہشت گرد کی گرفتاری وجود اتوار 19 اکتوبر 2025
دہشت گرد کی گرفتاری

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر