وجود

... loading ...

وجود

خاموش انقلاب کا انعام

پیر 13 اکتوبر 2025 خاموش انقلاب کا انعام

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

دنیا میں اگر کسی ایک نام کو علم، انسانیت اور امن کے استعارے کے طور پر یاد کیا جائے تو وہ ہے الفریڈ نوبیل۔ ایک ایسا شخص جس نے اپنے سائنسی ذہن سے بارود کی تباہی کو ایجادات کی ترقی میں بدل دیا اور پھر اپنے ضمیر کی خلش سے انسانیت کو وہ تحفہ دیا جسے آج دنیا ”نوبیل انعام” کے نام سے جانتی ہے ۔ نوبیل انعام صرف ایک اعزاز نہیں بلکہ انسانی شعور اور اخلاقی ذمے داری کا عہد نامہ ہے ، جو ہر سال اُن افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے علم، فن یا خدمت سے بنی نوع انسان کے مستقبل کو روشن کیا۔
2025 کا نوبیل امن انعام عالمی سطح پر بہت زیادہ اہمیت حاصل کر گیا اور پوری دنیا کا تجسس بڑھ گیا تھا کہ اس مرتبہ امن کا نوبیل انعام کس کو ملے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی میدان میں اترے اور انہیں اپنی کامیابی پر پورا یقین تھا ان کی حمایت پاکستان سمیت دیگر ممالک نے کی تھی۔ٹرمپ مضبوط امیدوار تھے لیکن حیرت اس وقت ہوئی کہ جب قرعہ وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کے نام نکلا۔امن کی تاج پوشی مچاڈو کے نام ہوئی۔
کُفْر ٹُوٹا خُدا خُدا کَر کے
اس نتیجے نے دنیا کو حیران کر دیا خاص طور پر ٹرمپ کو جو اپنے آپ کو امن کا سفیر کہتے ہیں۔دنیا کے سب سے معزز اور متنازع ترین عالمی اعزازات میں سے ایک ”نوبیل امن انعام” ہر سال انسانی وقار، آزادی، مساوات اور امن کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ 2025میں یہ اعزاز وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کو دیا گیا، جنہوں نے اپنے وطن میں آمریت کے اندھیروں کے خلاف جمہوریت کا دیا جلایا۔ ان کا یہ انعام صرف ایک فرد کی فتح نہیں بلکہ ان لاکھوں مظلوم وینزویلین شہریوں کی آواز ہے جو برسوں سے بنیادی انسانی حقوق اور سیاسی آزادی کے لیے ترس رہے تھے ۔
نوبیل کمیٹی کے مطابق ماریا کورینا ماچادو کو ”پرامن جمہوری جدوجہد، شہری جرأت اور عوامی حقوق کے دفاع” پر یہ اعزاز دیا گیا۔ وہ لاطینی امریکا کی حالیہ تاریخ میں اُن چند خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے بندوق کے بجائے الفاظ، احتجاج اور جمہوری تحریک سے آمریت کو چیلنج کیا۔ ان کے مخالفین کے پاس طاقت تھی، مگر ماچادو کے پاس یقین، امید اور عوام کی تائید تھی۔وینزویلا طویل عرصے سے سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار ہے ۔ 1999سے شروع ہونے والا چاویز ازم (Chavismo) ابتدا میں عوامی نجات کا پیغام بن کر آیا، لیکن وقت کے ساتھ یہ نظام آمرانہ کنٹرول، میڈیا کی پابندی، عدلیہ کی مداخلت اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں بدل گیا۔
چاویز ازم (Chavismo)وینزویلا کے سابق صدر ہیگو چاویز (Hugo Chvez)کی سیاسی، معاشی اور سماجی فکر و پالیسیوں کا مجموعہ ہے ، جو 1999سے 2013تک ان کے اقتدار کے دوران تشکیل پائیں۔ اسے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جو سوشلسٹ خیالات، قوم پرستی، عوامی فلاح اور مغربی (خاص طور پر امریکی) اثرات سے آزادی پر مبنی ہے ۔2013میں نکولس مادورو کے اقتدار میں آنے کے بعد حالات مزید بگڑ گئے ۔ ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے ، سینکڑوں کارکن غائب کر دیے گئے اور لاکھوں شہری غربت سے تنگ آ کر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ ایسے میں ماریا کورینا ماچادو ایک ایسی آواز بن کر ابھریں جو خاموشی کے اندھیروں میں روشنی کا اشارہ تھی۔
ان کا سیاسی سفر آسان نہیں تھا۔ وہ نیشنل اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں مگر مادورو حکومت نے ان کا رکنیت ختم کر دی۔ انہیں کئی بار گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، مگر وہ ڈٹی رہیں۔ 2024کے صدارتی انتخابات میں جب انہوں نے اپوزیشن اتحاد کی نمائندہ حیثیت سے حصہ لینا چاہا تو الیکشن کمیشن نے انہیں نااہل قرار دیا۔ اس کے باوجود انہوں نے جدوجہد جاری رکھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ ”جمہوریت کوئی تحفہ نہیں، یہ مسلسل قربانی مانگتی ہے ”۔یہی وہ عزم تھا جس نے انہیں نوبیل کمیٹی کے فیصلے تک پہنچایا۔نوبیل انعام ملنے کے بعد ماچادو نے ایک جذباتی بیان دیا کہ “یہ اعزاز میرا نہیں، وینزویلا کے عوام کا ہے جو آزادی اور انصاف کے مستحق ہیں۔”حیرت انگیز طور پر انہوں نے یہ انعام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام بھی کیا، جنہیں وہ وینزویلا کی جدوجہد میں فیصلہ کن حمایت کرنے والا عالمی رہنما قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں یہ انعام اپنے عوام اور صدر ٹرمپ کے لیے وقف کرتی ہوں، جنہوں نے آمریت کے خلاف ہماری آواز سنی”۔اس اعلان کے بعد واشنگٹن میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔ وائٹ ہاؤس نے نوبیل کمیٹی پر سخت تنقید کی کہ اس نے ”سیاست کو امن پر ترجیح دی”۔ ترجمان کے مطابق صدر ٹرمپ نے عالمی سطح پر جنگوں کے خاتمے اور اسرائیل عرب تعلقات کی بحالی جیسے تاریخی اقدامات کیے ، مگر کمیٹی نے انہیں مسلسل نظرانداز کیا۔ ٹرمپ نے خود کہا کہ ”میں نوبیل انعام کے لیے نہیں، انسانوں کی جان بچانے کے لیے کام کرتا ہوں”۔تاہم نوبیل ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی America First پالیسی نوبیل کے امن کے نظریے سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ امن کا مفہوم عالمی انسانی مفاد سے جڑا ہوتا ہے ، کسی ایک قوم کے سیاسی ایجنڈے سے نہیں۔نوبیل کمیٹی کے ارکان کا موقف ہے کہ ماچادو کی جرات مندانہ جدوجہد نے لاطینی امریکا میں شہری تحریکوں کو نئی روح بخشی ہے ۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی آزادی کے لیے لڑائی لڑی بلکہ خواتین کے کردار کو بھی طاقت دی۔ آج وینزویلا کی نوجوان نسل انہیں ” Madre de Libertad ”یعنی ”آزادی کی ماں”کہہ کر پکارتی ہے ۔ ان کے جلسوں میں ہزاروں خواتین اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوتی ہیں، جو اپنے وطن کو دوبارہ آزاد دیکھنے کی خواہش رکھتی ہیں۔
ماریا کورینا ماچادو نے ہمیشہ عدم تشدد کی سیاست اپنائی۔ وہ کہتی ہیں ”طاقت سے جمہوریت نہیں، اصول سے آزادی آتی ہے” ۔یہی فلسفہ انہیں دیگر سیاسی رہنماؤں سے ممتاز بناتا ہے ۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق ان کی جدوجہد نیلسن منڈیلا، آنگ سان سوچی اور ملالہ یوسف زئی جیسی پرامن تحریکوں کی کڑی ہے ۔ دوسری جانب نوبیل انعام کی سیاسی نوعیت پر تنقید کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں نوبیل کمیٹی کے فیصلے بعض اوقات مغربی جغرافیائی سیاست سے متاثر نظر آتے ہیں۔ تاہم اس بار معاملہ مختلف ہے ، کیونکہ وینزویلا کی عوامی جدوجہد عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تحریک بن چکی ہے ۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکی کانگریس نے ماچادو کی قید اور دھمکیوں کی مذمت کی تھی۔ نوبیل کمیٹی کا فیصلہ اس عالمی یکجہتی کا تسلسل سمجھا جا رہا ہے ۔انعام کے اعلان کے بعد وینزویلا میں جشن کا سماں ہے ۔
کاراکس (Caracas)وینزویلا کا دارالحکومت ہے اور ملک کا سب سے بڑا، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔دارالحکومت کاراکس کی سڑکوں پر عوام نے ماچادو کے حق میں نعرے لگائے ، پھول برسائے اور قومی پرچم لہرایا۔ ان کی ایک تصویر میں وہ وینزویلا کے جھنڈے کو تھامے آنکھوں میں آنسو لیے مسکرا رہی ہیں۔ یہ تصویر آج پوری دنیا میں جمہوریت کے استعارے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے ۔
اس سارے منظرنامے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ نوبیل امن انعام نے ایک مرتبہ پھر یاد دلایا ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران نہیں، بلکہ اصولوں پر ڈٹے عوامی رہنما ہی تاریخ بدلتے ہیں۔ ماریا کورینا ماچادو نے دکھایا کہ اگر نیت صاف ہو تو قید، دھمکی، اور جلاوطنی کی تلواریں بھی راستہ نہیں روک سکتیں۔
دنیا بھر کے لیے یہ لمحہ سبق آموز ہے ۔ پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک جہاں جمہوریت کو آئے دن خطرات لاحق ہوتے ہیں، وہاں یہ کہانی امید کا پیغام دیتی ہے ۔ عوامی شعور، منظم سیاسی تربیت اور شہری جرات ہی وہ ہتھیار ہیں جن سے آمریتوں کو شکست دی جا سکتی ہے ۔
آخر میں یہ سوال سب کے لیے ہے کہ کیا دنیا واقعی امن کو ترجیح دے رہی ہے یا سیاسی مفادات کے دائرے میں ہی محدود ہے ؟ مگر ایک بات طے ہے کہ ماریا کورینا ماچادو کا نام اب ان رہنماؤں میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے ظلم کے مقابلے میں جمہوریت کی مشعل تھامی۔
عالمی برادری وینزویلا جیسے ممالک میں جمہوری عمل کی حمایت کے لیے شفاف انتخابی مشاہدہ نظام قائم کرے ۔اقوام متحدہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کرے ۔ لاطینی امریکا میں خواتین قیادت کی تربیت اور سیاسی شرکت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی پروگرامز شروع کیے جائیں۔ عالمی میڈیا ایسے رہنماؤں کی جدوجہد کو اجاگر کرے تاکہ عوامی تحریکوں کا حوصلہ بلند رہے۔ امن کو انعام نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری سمجھا جائے ، کیونکہ جمہوریت کا سفر تبھی مکمل ہوتا ہے جب ہر شہری آزادی کے ساتھ سانس لے سکے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات وجود پیر 13 اکتوبر 2025
پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات

اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ وجود پیر 13 اکتوبر 2025
اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ

خاموش انقلاب کا انعام وجود پیر 13 اکتوبر 2025
خاموش انقلاب کا انعام

خطے کا امن اور بھارت وجود اتوار 12 اکتوبر 2025
خطے کا امن اور بھارت

بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر