... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاکستان کی غیر محفوظ شمال مغربی سرحد نے مقتدرہ کے شہ دماغوں کوجھنجوڑ کر رکھ دیاہے ۔یہاں متحرک دہشت گردوں کے افغانستان میں محفوظ اڈے ہیں جہاں سے پاکستانی اہلکاروں کو نشانہ بنایاجاتا ہے ۔ایک سے زائد بار آگاہ کرنے کے باوجود افغانستان نے پاکستانی خدشات کاازالہ نہیں کیا۔ داعش،ٹی ٹی پی،بی ایل اے اور ای ٹی آئی ایم کے دہشت گرد مسلسل سرحد پار حملوں میں مصروف ہیں مگر افغان انتظامیہ نے اِن دہشت گردوں کوروکنے یا مذمت کرنے کی کبھی زحمت تک نہیں کی ۔حالانکہ اُنھیں معاشی پابندیوں،بینکاری نظام کی ناکامی، غربت ،بے روزگاری،موسمیاتی تبدیلیوں سمیت جن انسانی بحران کا سامناہے ،وہ ہمسایہ ممالک کے تعاون سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ بظاہر طالبان کی نظر صرف آمدن پر ہے وہ معدنیات سے دولت حاصل کرنے کے لیے کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہیں چاہے پاکستان کا بدترین دشمن بھارت ہی کیوں نہ ہو۔تعجب والی بات یہ ہے کہ پہلگام حملے کی توطالبان مذمت کرتے ہیں مگر پاکستانی اِداروں پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں ایسے الفاظ اداکرنے سے احتیاط کرتے ہیں ۔لہٰذا پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جائے چاہے افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ ہی کیوں نہ بناناپڑے۔
امن کے بغیر ترقی کا عمل جاری نہیں رہ سکتا مگر بھارت کی ترجیح امن نہیں خطے کی بالادستی ہے جو امن کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ بھارت دنیا بھر سے اسلحے کے انبار جمع کر رہا ہے، تباہ کُن میزائل بناتا ہے۔ اگر وہ جوہری تجربات نہ کرتا توجنوبی ایشیا جوہری ہتھیاروں سے پاک رہتا جن وسائل سے غربت ،بھوک وافلاس دور اور روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکتے تھے، وہ ہتھیاروں کی خرید پر صرف ہورہے ہیں، پھر بھی بھارت خطے کی بالادست طاقت تو نہیں بن سکا، البتہ سارا خطہ محاذ آرائی کا مرکز بن چکا ہے۔ اب بھارت نے دہشت گردی کی سرپرستی شروع کردی ہے۔ افغانستان بارے دنیاکی تشویش بڑھ رہی ہے تو بھارت روابط بڑھانے لگا ہے جس سے ایسے خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے خلاف کارروائیوں میں بھارت اور افغان حکومتیں ایک ہیں۔
گیارہ ستمبر 2001کے دہشت گردانہ حملے میں تین سو امریکیوں کے ہلاک کا زمہ دار االقائدہ کو ٹھہرایاگیاجس کے اہم رہنما اسامہ بن لادن اُس وقت کے طالبان رہنمائوں کے پاس مقیم تھے۔ عدم حوالگی کی پاداش میںواقعہ کے ایک ماہ بعدہی امریکہ اور نیٹوافواج نے افغانستان پر فضائی حملے شروع کردیے اور طالبان کواقتدارسے بے دخل کر دیا۔ اِس دوران بھارت نے حملہ آور فوج کی ہر ممکن مدد کی۔ حامد کرزائی سے لے کر اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیوں کے اقتدار کو مضبوط تر بنایا،بعدازاں 2020میں طے پایا کہ امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی لیکن بھارتی مکاری ختم نہ ہوئی ایک طرف امریکی قیادت میں لڑنے والی افواج کو انخلا سے باز رکھنے کی کوشش کرتا رہاتو ساتھ ہی بعد ازانخلا افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کی تگ ودو کرتارہا ۔
پندرہ اگست 2021میں طالبان نے کابل سمیت ملک کے بڑے حصے کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا اِس دوران جنرل فیض حمید کی کابل جاکر چائے پینے کی تصویر منظرِ عام پر آئی جس نے بھارت کو چونکایااور وہ نئے سرے سے سازشوں میں مصروف ہوگیا۔ مالی مدد اورطالبان سے تعاون بڑھانے کی آڑ میں دہشت گردوں کی سرپرستی شروع کردی ۔رواں برس فروری میں امیر خان متقی سے دبئی میں بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری ملے یہ 2021 کے بعد دونوں حکومتوں میں اعلیٰ سطح رابطہ تھا۔اِس ملاقات کے بعد بھارت نے افغانستان کی مالی امداد ایک ارب روپے کردی۔ ایسے حالات میں جب بائیس اپریل کے پہلگام حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی عروج پر تھی سولہ مئی کو طالبان حکومت کے نائب وزیرِ داخلہ ابراہیم صدر بھارتی دورے پر جاپہنچے جو نہ صرف ملا ہیبت اللہ کے معتمد ساتھی بلکہ ایرانی پاسداران ِانقلاب کے بھی قریب خیال کیے جاتے ہیں ۔اِس دورے کو دونوں حکومتوں نے خفیہ رکھا ۔بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے طالبان کے قائم مقام وزیرَ خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ٹیلی فون پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ اب ملا امیر خان متقی نواکتوبر سے بھارتی دورے پرہیں جو سولہ اکتوبر تک جاری رہے گا ۔سوال یہ ہے کہ جب دونوں ممالک کی سرحدیں نہیں ملتیں تجارتی مواقع بھی کم ہیں بھارت سے تجارت کے لیے افغانستان کو جو قریب ترین اور سہل راستہ ہے وہ پاکستان سے ہے ۔آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین کامیزبان پاکستان ہیں اور بھارت سے زیادہ افغانستان کے لیے تجاتی حوالے سے پاکستان اہم ہے ۔اِس کے باوجود ہمسایہ ملک کوچھوڑکر بھارت کو ترجیح دینے سے کسی سازش کی طرف اِشارہ ہوتاہے۔ صاف ظاہرہے ملاقاتوں میں جوکھچڑی پکائی جارہی ہے وہ دہشت گردی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی۔
افغان وزیرِ خارجہ کی بھارت آمد اِس بناپر بھی تشویشناک ہے کہ ماضی میں بھی دونوں ممالک پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری آئی تو بھارت نے جھٹ اپنی خدمات پیش کردیں ۔اب ایک بار پھرپاک امریکہ تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے تو بھارتی کی فکرمندی یہ ہے کہ کہیں پاکستان جدید ترین ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہ کر لے ۔اسی لیے افغانستان سے مل کر پاک امریکہ اتحاد توڑ نے کے لیے سرگرم ہے۔ اِمکان ہے کہ بھارت تمام تر احتیاط بالائے طاق رکھتے ہوئے طالبان حکومت تسلیم کرنے پر نہایت سنجیدگی سے غور کررہا ہے جس کے اثرات صرف جنوبی ایشیاہی نہیں وسطی ایشیا پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ دہشت گردوں کو فنانسر کے ساتھ زیادہ محفوظ اڈے ملیں گے تووہ زیادہ وسیع پیمانے پر کارروائیاں کرسکیں گے ۔ممکن ہے بھارت کا خیال یہ ہو کہ اِس طرح خطے سے پاک امریکہ اثر ورسوخ کم کیاجا سکتا ہے مگر افغانستان کے حوالے سے روس،چین،ایران اور پاکستان کی سوچ ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ افغانستان کو ہر صورت دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکناہے ۔نئی ملاقاتوں سے افغان طالبان نہ صرف روس سے دور ہوں گے بلکہ چین سے بھی سفارتی کشیدگی کا جنم لینا بعیدا زقیاس نہیں جبکہ ایرانی قیادت پہلے ہی تشویش کا شکار ہے۔ لہٰذا بھارت کے لیے بہتر ہو گا کہ افغانستان سے مل کر خطے کا امن تہہ بالا کرنے کی منصوبہ بندی کی بجائے امن کے لیے کام کرے اور افغانستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کی بجائے حقیقی ترقی کے لیے معاشی وتجارتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرے لیکن جنونی بھارتی قیادت ایسا نہیں چاہتی اور دہشت گردی کی سرپرست کے طورپراپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہے تو افغانستان پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خطے اور دنیا کو بلیک میل کرنے کی روش پر گامزن ہے جس کا تدارک کرنا خطے کے ممالک کے ساتھ عالمی طاقتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔