... loading ...
صحن ِچمن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عطا محمد تبسم
مشتاق احمد خان پاکستان کے ایک معروف سیاسی رہنما اب عالمی میدان میں حقوق انسانی کے عالمی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ وہ جماعت ِاسلامی سے وابستہ ہیں (اب مستعفی ہو چکے ہیں) اور سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے (مارچ 2018 تا مارچ 2024) بھی ان کا نام ہمیشہ حق و انصاف کی کی آواز بنا رہا ۔ ان کا نام گزشتہ برسوں میں فلسطینی تحریکِ انصاف کی حمایت، مظلوموں کی آواز اٹھانے اور Save Gaza تحریکوں کی قیادت کرنے کے باعث نمایاں ہوا۔ لیکن ان کی شہرت کا ایک اور نیا اور بین الاقوامی رخ اس وقت سامنے آیا ، جب وہ گلوبل صمود فلوٹیلا کے حصے کے طور پر امدادی کشتیاں غزہ لے جانے والی مہم میں شامل ہوئے ۔ اس مہم کے دوران انہیں
اسرائیلی فورسز نے حراست میں لے لیا، اور بعد ازاں رہائی ملی۔ اس واقعہ اور بین الاقوامی میڈیا میں ان کے بارے میں شائع ہونے والی
خبروں اور تجزیوں نے نہ صرف ان کی شہرت کو نئی جہت دی بلکہ ایک ایسے کردار کا رخ بھی روشن کیا جو مشکل حالات میں ثابت قدم رہتا
ہے۔ ایک بہادر اور جری رہنما، جو اپنے موقف کی سچائی پر ڈٹ کر کھڑا رہا۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہادت کی تمنا ہی نہیں بلکہ
اس کے لیے میدان جنگ میں اترنا واقعی ایک بہادری کی بات تھی، جسے ساری دنیا اپنے اسکرین پر دیکھ رہی تھی۔ جب اسرائیلی بحریہ نے
امدادی قافلے کو روکا اور شرکاء کو حراست میں لیا، تو یہ واقعہ فوراً عالمی خبروں کا حصہ بن گیا۔
گلوبل صمود فلوٹیلا میں تقریباً 45 کشتیاں شامل تھیں جن میں سے کچھ کشتیوں نے کارگو پہنچانے کی کوشش کی تھی، اور تنظیمی رہنماؤں،
سیاستدانوں، کارکنان سمیت عالمی شخصیات بھی اس میں شامل تھیں۔ صحافی اور خبری ادارے نے اس واقعے کو دو بڑے زاویوں سے دیکھا۔
انسانی حقوق و قانونِ بین الاقوامی کا زاویہ: اسرائیل کی کارروائی کو دریاؤں پر پائریسی کہنا، عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دینا، کاروان
کے گرفتار افراد کو فوری رہا کرنے کی بین الاقوامی اپیل وغیرہ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی نے اس کارروائی کو بین الاقوامی قانون کی
خلاف ورزی قرار دیا۔اس واقعہ نے مشتاق احمد خان کو عالمی سیلیبریٹی بنا دیا، اسرائیل کے چہرے پر کالک مل گئی، فوری طور پر ساری دنیا
میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔متعدد ممالک نے اسرائیل کی کارروائی کی مذمت کی، گرفتار افراد کے لیے دباؤ بڑھایا، اور سفارتی رابطے کیے
گئے ۔یہ ردعمل اس بات کا ثبوت تھا کہ مشتاق احمد خان کا معاملہ صرف پاکستانی سطح کا نہیں رہا بلکہ یہ ایک بین الاقوامی انسانی اور قانونی مسئلہ
بن گیا۔بین الاقوامی میڈیا نے انہیں متعدد انداز سے پیش کیا۔ وہ مظلوموں کا حمایتی اور انسان دوست رہنما کہے جانے لگے ۔ بہت سی
رپورٹیں مشتاق احمد اور دیگر کارکنوں کو ایسے افراد کے طور پر پیش کرتی ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انسانی زندگی بچانے کی جدوجہد
میں شریک ہوئے ۔ میڈیا نے ان کی گرفتاری کی تفصیلات، زیر حراست رویہ، اور بعد کی رہائی کے حالات پر روشنی ڈالی۔ کئی تجزیہ نگاروں نے
کہا کہ مشتاق احمد کی کہانی ایک علامتی کہانی بن گئی ایک فرد جس نے مظلوم کی خاطر جدوجہد کی، گرفتاری کا سامنا کیا، مگر نہ گھبرایا، اور بالآخر
رہائی پائی اور اس طرح وہ عالمی سطح پر ایک علامتی مزاحمتی کردار کے طور پر سامنے آئے ۔ مشتاق احمد خان کو 2 اکتوبر 2025 کو اسرائیلی
فورسز نے امدادی کشتی میں سوار کرتے ہوئے حراست میں لیا۔ کئی بیانات میں کہا گیا کہ مشتاق احمد کو اسرائیلی عدالت میں پیش کیا جائے گا
اور پھر سزا دی جائے گی۔ 7 اکتوبر 2025 کو مشتاق احمد خان کو اسرائیلی حراست سے رہائی ملی اور وہ پاکستان کے سفارت خانے ، عمان،
میں پہنچے ۔ پھر مشتاق احمد خان پاکستان کیلئے روانہ ہوئے اور اپنی واپسی پر عوامی پروگرام، میں انہوں نے عوام کو بتایا کہ دورانِ حراست انہیں
ہاتھ پائوں زنجیروں میں جکڑا گیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئی ان پر کتے چھوڑے گئے ، انھوں نے بھوک ہڑتال کی، انھیں پانی اور دوا کی
رسائی محدود کی گئی، اور دیگر زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن وہ نہ ڈرے نہ خوفزدہ ہوئے ۔ مشتاق احمد خان کا یہ سفر صرف ایک گرفتاری سے رہائی کی
کہانی نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک ایسی مثال بن گیا جو ثابت کرتی ہے کہ اصول، جرأت، استقامت اور انسانی ضمیر کا دفاع بلندی کی راہ ہو سکتی
ہے ۔ ذیل میں وہ عوامل ہیں جنہوں نے ان کی کامیابی کو خاص شکل دی۔ مشتاق احمد خان اب عسکریت یا صرف تقریری سیاست کرنے والا
رہنما نہیں رہے ؛ انہوں نے خود کو خطرے میں ڈالنے کے لیے قدم اٹھایا، امدادی قافلے میں شامل ہوئے ، اور اس جدوجہد کا حصہ بنے
یہ رویہ انھیں مصنوعی اور خود ساختہ لیڈر کی بجائے عملی لیڈر بناتا ہے ۔ جو اپنے موقف کی سچائی پر یقین رکھتا ہے ، اور اس کے لیے جان دینے
سے بھی گریز نہیں کرتا۔ان کا نام ، نہ صرف ایک فرد بلکہ پوری قوم کے لیے کامیابی کی علامت بن گیاہے ۔ دنیا بھر میں مشتاق احمد پاکستان
اور تحریک اسلامی کی پہچان بن کر ابھرے ہیں۔ فیس بک اور ٹوئیٹر پر ان کے مداحوں کی تعداد اب لاکھوں میں ہے ۔پاکستان بھر کی عوام،
مکاتب فکر، کارکنان اور میڈیا نے انہیں قوت دی۔ احتجاجی مظاہرے ، سوشل میڈیا رد و بدل، میڈیا کوریج نے اس معاملے کو پُر اہم بنا دیا۔
ان کی واپسی پر عوامی خیرمقدم نے یہ تاثر مزید مضبوط کیا کہ وہ صرف سیاستدان نہیں، عوامی آواز کا ترجمان ہیں۔
اس واقعے نے مشتاق احمد خان کو ایک علامتی کردار عطا کیا: وہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر ایک مزاحمتی آواز بن گئے ۔ اس کی مثال
بین الاقوامی خبری پردازی، تجزیاتی مضامین، انسانی حقوق تنظیموں کی رپورٹوں میں ملتی ہے ۔ وہ مسلسل موقف اور منصوبہ بندی کا عزم رکھتے
ہیں۔ رہائی کے بعد ان کا بیان واضح تھا کہ یہ محض ایک جدوجہد کا آغاز ہے ، نہ کہ اختتام۔ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں
مزید امداد بھیجنے ، اسرائیلی محاصرے کو توڑنے ، اور مقاصد کو عوامی سطح پر اجاگر کرنے کا وعدہ بھی۔اس واقعے نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر
فلسطین اور غزہ کی صورتحال کو نمایاں کیا، اور عوام کی توجہ کو اس جانب موڑا۔ذاتی سطح پر، مشتاق احمد کی شبیہ ایک عزم و قربانی کا لیڈر کی صورت
میں مضبوط ہوئی، جس نے مشکل وقت میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی مشتاق احمد خان کے اس بین
الاقوامی امیج کو غزہ اور دنیا بھر کے انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے لیے استعمال کرے ۔مشتاق احمد کو اس موقع کو استعمال
کرنا چاہیے تاکہ غزہ اور فلسطینی حقوق کے مسائل کو مستقل سطح پر اجاگر کریں وہ بین الاقوامی قانونی فورمز، بین الاقوامی عدالتوں، اقوام متحدہ
اداروں میں موقف پیش کریں ۔ انہیں اپنی کامیابی کو مزید معاشرتی اور سیاسی اثر میں تبدیل کرنا چاہیے یعنی عوامی شعور بیدار کرنا، تعلقات
بنانا، اور اخلاقی و عملی لیڈرشپ جاری رکھنا چاہیے ۔ مشتاق احمد خان کے اس جرات مندانہ اقدام پر عوامی ردِعمل پاکستان میں کافی مثبت رہا
ہے ۔ سوشل میڈیا پر حوصلہ افزائی، احتجاجی مطالبے پر انھیں پذیرائی ملی ہے ۔ مشتاق احمد نے نہ صرف مصائب برداشت کیے بلکہ اپنی پالیسی
اور موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ اس بات نے انھیں عوامی ہیرو بنا دیا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ ان کی سیاسی جماعت اور ان کے قائدین سے بھی یہ
مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ان کی جدوجہد کو جائز طور پر سراہا جائے ۔ مشتاق احمد خان کی کہانی نہ صرف ایک سیاسی رہنما کی گرفتاری اور رہائی کی
داستان ہے ، بلکہ ایک ایسی مثال ہے کہ انسانی ضمیر، بین الاقوامی یکجہتی اور سفارتی صلاحیت کس طرح کسی کو مؤثر انداز میں پیش کر سکتی ہے ۔
ان کی کامیابیin terms of رہائی، اپنی بات کی عالمی سطح پر پہچان، اور عوامی حمایتیہ ثابت کرتی ہے کہ اصول پر مبنی کردار اور مستقل موقف
عوامی احترام اور اثر کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔یہ کامیابی صرف خود مشتاق احمد خان کے لیے نہیں، بلکہ اس تحریک کیلئے بھی ہے جو فلسطینی عوام کے لیے انصاف اور انسانی حقوق کی بحالی کی کوشش کر رہی ہے ۔
٭٭٭٭