وجود

... loading ...

وجود

مودی سرکار کاکشمیری طلباء سے ناروا سلوک

بدھ 08 اکتوبر 2025 مودی سرکار کاکشمیری طلباء سے ناروا سلوک

ریاض احمدچودھری

صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کیلئے ہم چند واقعات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم کشمیری طلبا پر بھارتی انتہا پسند ہندووں نے حملہ کر کے کئی طلبا کو زخمی کر دیا ۔ ڈیرہ دھون اترا کھنڈ علاقے میں قائم سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلبا کے بقول انہیں کالج میں گھس کر غنڈوں نے مارا پیٹا جس کی وجہ سے کالج میں کئی ایک طلبا زخمی ہو گئے ہیں۔ کشمیری طالب علموں کی ایک غیر کشمیری طالب علم کے ساتھ کسی بات پر توں توں میں میں ہوئی جس کو بعد میں کالج میں زیر تعلیم طلبا نے آپس میں مل بیٹھ کر معاملہ حل کیا۔ کشمیری طلبا کا کہنا تھا غنڈوںکی ایک جماعت کالج میں داخل ہو کر کشمیری طلبا کو چن چن کر مارنے لگی جس کے ساتھ ہی اکثر طلبا نے کمروں کے دروازے بند کر دئیے جبکہ کئی اساتذہ جو کشمیری طلبا کو بچانے کی کوشش کررہے تھے، کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس نے تمام طالب علموں کو کالج سے نکال کر انکی عارضی رہائش گاہوں تک پہنچایا۔
بھارت میں مسلمانوں سے تعصب اور دشمنی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک کالج سے 23 کشمیری طلبا کو نکال دیا گیا ہے۔ کشمیری طلبا کواس بنا پرکالج چھوڑدینے کی ہدایت کی ہے کیونکہ انسانی وسائل و ترقی کی بھارتی وزارت نے وزیراعظم اسکالر شپ اسکیم کے تحت ان کی فیس ادا نہیں کی۔ نکالے گئے طلبا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو وزیر اعظم اسکالر شپ کی بنیاد پرامبالہ کے کالج میں داخلہ دیا گیا تھا اور داخلے کے وقت طلبا کواس بات کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے تمام اخراجات بھارتی حکومت برداشت کر لے گی۔ اسی طرح بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے ایک پرائیویٹ کالج میں زیر تعلیم کم از کم 40کشمیری طالب علم دو طلباگروپوں میں جھڑپوں کے بعد مجبورا اپنی تعلیم ترک کر کے کشمیر واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ کالج میں زیر تعلیم باقی کشمیر ی طلباء انتظامیہ کی یقین دہانی کے باوجود خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کٹھ پتلی انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ انہیں سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ بھی اپنے گھروں کو واپس آسکیں کیونکہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ طالب علموں کاکہناتھا کہ انہیں بری طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے۔بھارتی ریاست راجستھان کے شہرچتورگڑھ میں میوریونیورسٹی میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر ہندو انتہا پسندوں نے گائے کا گوشت کھانے کاالزام لگاکرحملہ کردیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ کچھ طلبا نے ہاسٹل میں ان کے کمروں اورسامان کی توڑپھوڑکی اوران پرپتھراؤکیا۔ اس کے بعد مقامی پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے4 کشمیری طلبا کو گرفتار کرلیا۔ یونیورسٹی کے انچارج طارق صوفی نے کہاکہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب مقامی لوگوں کے ایک گروپ کوپتہ چلاکہ کشمیری طلبانے گائے گا گوشت کھایاہے۔ کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور ان پرحملہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوںمیں بھی گائے کا گوشت کھانے والوںکونشانہ بنایاجارہاہے۔ یہ ہندو کا تعصب ہے جس کی بنیاد پر بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں ہو پا رہا۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک کشمیری طالب علم آفتاب حسین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ کے دہشت گردوں نے نوراتری گربہ کی تقریب میں داخل ہونے پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے اور ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم آفتاب حسین کو بے رحمی سے مارا پیٹا اور گھسیٹ کر باہر نکالا۔عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آفتاب کو شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور سرعام اس کی تذلیل کی گئی۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے کشمیری طالب علم آفتاب حسین پرہندوتوا دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں کشمیری طلباء پر حملوں سے واضح ہوتاہے کہ بھارت ایک فرقہ پرست ریاست ہے جہاں کوئی کشمیری محفوظ نہیں ہے۔ حریت کانفرنس نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر سے اپنی قابض افواج اور بی جے پی کے بیوروکریٹس کو فوراً نکالے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔
بھارت مقبوضہ جموںوکشمیر میں طلبا ء کو تعلیم کے حق سے محروم کررہا ہے۔حال ہی میںجاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 7 دہائیوں سے زائد عرصے تک بھارت کے زیر قبضہ جموںوکشمیر میںنظام تعلیم مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ 5 اگست 2019 کوبھارت کی طرف سے مسلط کردہ غیر انسانی فوجی محاصرے سے تعلیمی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پہلے اسکول غیر معمولی فوجی محاصرے کی وجہ سے کئی مہینوں تک بند رہے اور پھر والدین اپنے بچوں کو اس خوف سے کہ بھارتی فورسز انہیں اٹھاکر نہ لے جائیں، اسکول بھیجنے سے کتراتے رہے جس سے مقبوضہ علاقے کے طلبہ کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔رپورٹ میں سوال اٹھایا گیاہے کہ جب کشمیری طلبا روزانہ کی بنیاد پربھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے پیاروںکو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں تو وہ تعلیم پر کس طرح توجہ دے سکتے ہیں۔ علاقے میں بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے طلباء کو نفسیاتی طور پر متاثر کیاہے جبکہ متعدد طلباء بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوںکے دوران شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض حکام کی طرف سے انٹرنیٹ کی باربار معطلی سے بھی مقبوضہ علاقے میں تعلیم کا بڑی حد تک حرج ہوا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر