... loading ...
محمد آصف
۔۔۔۔۔۔۔
دورِ حاضر میں پاکستانی نوجوان نسل کے اخلاقی، سماجی اور فکری بگاڑ کے اسباب اور اثرات پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفے میں نوجوانوں کو خودی، عظمت اور حریت کا درس دیا تھا، لیکن آج کا نوجوان مادہ پرستی، لادینیت اور بے مقصدیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے ۔ اقبال کے تصورِ خودی اور عظمتِ انسانیت کو سامنے رکھتے ہوئے ، ہمیں اس بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا جائزہ لینا ہوگا اور اس کا حل اقبالی فکر کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ آیئے اک نظر دیکھتے ہیں کہ نوجوان نسل کے بگاڑ کے اسباب ہیں کیا؟ اقبا ل نے تعلیم کو انسان کی شخصیت سازی کا اہم ذریعہ قرار دیا تھا، لیکن آج پاکستان کا تعلیمی نظام روٹی کمانے کے لیے ڈگریاں دینے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ نوجوانوں میں علم کے بجائے ڈگریوں کا حصول مقصود بن گیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ اخلاقی اور فکری طور پر کمزور ہو رہے ہیں۔
اقبال نے مشرق کی اقدار کو مغرب کی تقلید سے بچانے پر زور دیا تھا، لیکن آج کا نوجوان مغربی کلچر، لباس اور رہن سہن کو اپنا کر اپنی شناخت کھو رہا ہے ۔ سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا کے ذریعے غیر اسلامی اقدار کو فروغ دیا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے نوجوانوں میں بے راہ روی اور مادہ پرستی بڑھ رہی ہے ۔ پہلے خاندان نوجوانوں کی تربیت کا اہم مرکز ہوا کرتے تھے ، لیکن آج والدین کی مصروفیت اور لاپروائی نے نوجوانوں کو اخلاقی قدروں سے دور کر دیا ہے ۔ اقبال نے گھر کو انسان کی پہلی درسگاہ قرار دیا تھا، لیکن آج گھروں میں تربیت کی بجائے صرف مادی ضرورتیں پوری کی جا رہی ہیں۔ معاشی مشکلات اور بے روزگاری نے نوجوانوں کو مایوسی اور جرائم کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ اقبال نے نوجوانوں کو محنت اور خود اعتمادی کا درس دیا تھا، لیکن آج کا نوجوان روزگار کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے خودکشی یا غیر قانونی سرگرمیوں کا رخ کر رہا ہے۔
اقبال کے نزدیک مذہب انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا اہم ذریعہ تھا، لیکن آج نوجوان مذہب کو صرف رسمی عبادات تک محدود سمجھتے ہیں۔ اخلاقیات، دیانت داری اور خدمتِ خلق جیسی قدروں سے دوری نے نوجوانوں کو خودغرض اور مطلب پرست بنا دیا ہے ۔ اقبال ایک دردِ دل سوز، دور اندیش اور فکرِ قومیت رکھنے والی شخصیت تھے ۔ جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کیلئے پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ۔ انہیں یاد آتا کہ کبھی مسلمان دنیا پر راج کرتے تھے ۔ انہی مسلمانوں نے برصغیر پر ایک صدی تک حکومت کی تھی اور آج اس حال میں ہیں کہ اپنے ہی قابل رشک ماضی سے ناآشنا ہیں۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ اس سرمایہ کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ اقبال کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لئے تھے ۔ کیونکہ جب تک کسی قوم کو جگایا نہ جائے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اور سب سے پہلی بات لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہوتا ہے ۔ شعور ملنے پر ہی وہ قوم اپنا آئندہ کا نصب العین طے کرتی ہے ۔ اقبال ناامید دِلوں میں امید کی رمق پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ وہ مسلم جوانوں سے بہت پر امید تھے ۔اقبال نوجوانوں کو عقاب سے تشبیہ دیا کرتے تھے ۔ عقاب ایک ایسا پرندہ ہے جو بلندی پر اپنا مسکن بناتا ہے ۔ اپنی تیز نگہی کے باعث وہ بلندی سے ہی اپنا شکار تلاش کرلیتا ہے ۔ اقبا ل عقاب کی ساری خوبیاں اپنے مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ برصغیر کا مسلم جوان تیز، چست اور اپنے ہدف کو پورا کرنے والا بنے ۔
مفکرِ پاکستان نے نوجوانوں کو تدبر اور غور و فکر کی طرف گامزن کیا۔ان کا کلام اور فلسفہ نوجوانوں کی کردار سازی پر مبنی ہے ۔ انہوں نے اپنے کلام سے اسلام اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کو عام کیا اور نوجوانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ اپنی زندگی قرآن و سنت اور اسوۂ حسنہ ۖکی روشنی میں گزاریں۔ علامہ اقبال کے کلام میں مسلم امہ کا اتار چڑھاؤ ‘اسلامی قوانین’ سیاست ،ثقافت اور ادب’ قوموں کا عروج و زوال’تاریخ و فلسفہ اور حکمرانوں کے حالاتِ زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے نوجوانِ ہند کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ان کو آزادی کا حق لینے کی طرف مائل کیا۔ آج پھر پاکستان کے نوجوان کو فکر اقبال کی ضروت ہے جو ان کے ضمیر کو جھنجھوڑے اور یاد کروائے کہ تم کس امت کا حصہ ہو اور تمہاری کیا تاریخ تھی’ تم جانتے ہوکہ تم کتنی بڑی کہکشاں کے ٹوٹے ہوئے تارے ہو؟ اے نوجوانان ملت تیری منزل کیا تھی تو کن سوشل میڈیا کی خرافات میں الجھ گیا ہے ۔”اے قوم کے نوجوانو! تمہاری منزل کیا تھی؟ تم نے خود کو سوشل میڈیا کی لغویات میں کیوں الجھا رکھا ہے” ؟
اقبال کی شاعری کسی ایک دور تک محدود نہیں ہے ۔ جب بھی مسلمان نوجوان غفلت میںپڑیں گے تو ان کے الفاظ ان کے لیے رہنمائی کا کام کریں گے ۔ آج کے تناظر میں نوجوانوں کو اس عقاب جیسے جذبے کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ پاکستان کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیا یہ انمول اثاثہ صحیح منزل کی طرف بڑھ رہا ہے ؟ اگر حکومت اس 60 فیصد
اثاثے کے مستقبل پر سنجیدگی سے غور کرے تو شاید ان نوجوان ذہنوں کو اپنے حقیقی مقدر کی طرف رہنمائی مل سکے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نوجوان راستے کھو چکے ہیں؟ انہیں خود سے پوچھنا چاہیے :”کیا زندگی کا مقصد اتنا ہی محدود ہونا چاہیے ”؟
پاکستانی نوجوانوں کا بگاڑ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں، بلکہ قومی زوال کی علامت ہے ۔ اقبال کی فکر ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ نوجوانوں کو خودی، ایمان اور عمل کی راہ پر گامزن کیا جائے ۔ اگر ہم اقبال کے فلسفے کو اپنا لیں تو نہ صرف نوجوان نسل کو بگاڑ سے بچایا جا سکتا ہے ، بلکہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور مستحکم ملک بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اقبال کے پیغام کو عام کریں اور نوجوانوں کو ان کے حقیقی مقام سے روشناس کرائیں۔
٭٭٭