... loading ...
افتخار گیلانی
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں، جو شبِ سیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے ۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے ۔
رات کی چادر بھی فلسطین کے مظلوم خطہ غزہ یا وہاں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے سکون کا لمحہ فراہم نہیں کرتی ہے ۔ فضا کو اسرائیلی ڈرونز کی گونج مسلسل چیرتی رہتی ہے ۔یہ ڈرونز بھوکے گِدھوں کی طرح جیسے زخمی شکار کے اوپر منڈلاتے رہتے ہیں۔ غزہ میں کسی بھی صحافی سے بات کیجیے تو فون کے پس منظر میں ڈرونز کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے ، جو ہر لمحہ موت کی خبرسنا تی ہے ۔اس شور کا مطلب ہے ؛ نہ نیند، نہ آرام، نہ لمحے بھر کی فراغت۔ ہر پل اچانک موت کو گلے لگانے کا خدشہ۔
اڑتیس سالہ آزاد صحافی اور فلمساز مومن فائز کے لیے ڈرون کی یہ آواز زندگی کا کڑوا سنگیت بن چکی ہے ۔وہ غزہ سے مجھے بتا رہے تھے : جب ہم آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہی بھنبھناہٹ کانوں میں گونجتی ہے ۔ پھر اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے ۔ مکانات لرز اٹھتے ہیں، شیشے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ ہم گھبرا کر باہر نکلتے ہیں تاکہ دیکھیں کس عمارت کو زمیں بوس کر دیا گیا، کتنے لوگ مارے گئے ، اور کہیں ہمارے کسی ساتھی کی لاش تو ملبے میں نہیں دبی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ جہاں عام لوگ دھماکے کے مقام سے دور بھاگتے ہیں، وہاں فائز اور ان کے ساتھی اس طرف دوڑ کر ملبے اور دھویں میں کود پڑتے ہیں۔ ہاتھوں میں کیمرے تھامے ، اور اوپر سے دوبارہ بم برسنے کا خدشہ موجود رہتا ہے ۔جب میں نے فائز سے پوچھا کہ آجکل ایک صحافی کا دن غزہ میں کیسے شروع ہوتا ہے ۔ تو ان کا کہنا تھا؛جب ہم صبح گھر سے نکلتے ہیں تو یقین نہیں ہوتا کہ شام تک زندہ واپس لوٹیں گے یا نہیں۔ رات کو سوتے ہیں تو پتا نہیں کہ اگلی صبح آنکھ کھلے گی یا نہیں۔
فائز کا جسم خود غزہ کی جنگوں کی ایک چلتی پھرتی دستاویز ہے ۔ تیرہ برس پہلے ایک اسرائیلی بم نے ان کی دونوں ٹانگیں چھین لیں۔ وہ بیساکھیوں کے سہارے صحافت کے میدان میں واپس لوٹے ۔ وہ ملبوں پر کھڑے ہو کر کیمرہ اٹھاتے رہے ۔ بعد میں ایک اور حملے میں ان کی انگلیاں ضائع ہوگئیں۔ وہ کہتے ہیں؛میں کم از کم تین بار شدید زخمی ہو چکا ہوں۔ محض اتفاق نے بچا لیا، ورنہ میں بھی انہی قبروں میں سویا ہوا ہوتا، جن پر آجکل فوٹیج بناتا رہتا ہوں۔ کام جاری رکھنا بھی ایک فرض ہے ۔وہ اپنی صبح عام لوگوں کی طرح چائے یا ناشتے سے نہیں بلکہ مرنے والوں کی گنتی کرنے سے شروع کرتے ہیں۔ موبائل پیغامات کھنگالتے ہیں، پیرا میڈکس اور سول ڈیفنس اہلکاروں سے تصدیق کرتے ہیں، اور پھر ہسپتالوں میں پہنچتے ہیں جہاں ہر راہداری چیخوں سے بھری رہتی ہے ۔اس کے بعد جنازے ۔ پھر ایک اور بمباری۔ پھر ایک اور جنازہ۔ پچھلے دو سال سے یہ ایک معمول بن چکا ہے ۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس میں صرف غم ہے ۔ وہ بتاتے ہیں:ہم صبح شہیدوں کی تلاش میں نکلتے ہیں اور رات بموں کی آواز کے ساتھ سو جاتے ہیں۔
بجلی اور انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کہ وجہ سے صحافی کبھی سولر پینل، کبھی ہانپتے ہوئے جنریٹر، کبھی اسرائیلی یا مصری سم کارڈ کے سہارے اپنی خبریں دنیا تک پہنچاتے ہیں۔اس خطر ے کے باوجود کہ اسرائیلی سم کا استعمال جاسوسی کے شبہ میں ان کی جان کو مزید خطرے میں ڈال سکتا ہے ، وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔فائلیں چھوٹے چھوٹے میموری کارڈز پر چھپا کر رکھی جاتی ہیں تاکہ اگر بمباری میں سب کچھ تباہ بھی ہو جائے تو شواہد محفوظ رہیں۔کیمرے ٹوٹے ہوئے ، لینز دراڑ زدہ، ٹرائی پوڈ بکھرے پڑے ہیں۔ فائز کہتے ہیں:زیادہ تر سامان حملوں اور آئے دن کی بے دخلی اور نقل مکانی کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔ جو بچا ہے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے ۔ پھر بھی استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر دنیا کچھ نہیں دیکھ پائے گی۔فائز کا کہنا ہے کہ یہ جنگ پچھلی جنگوں سے مختلف اور اس میں خاص طور پر صحافیوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے :بمباری اندھی ضرور ہوتی ہے ۔ مگراس بار صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہم دنیا کو ایک حقیقت دکھا رہے ہیں، ہم ماتم کی آواز ہیں۔ اسی لیے ہمیں خاموش کرنا چاہتے ہیں۔
یہ حقیقت صرف ان کے ذاتی احساسات نہیں بلکہ اعداد و شمار بھی گواہی دیتے ہیں۔ فلسطینی صحافی یونین کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 240 فلسطینی صحافی مارے جا چکے ہیں۔رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز یعنی آر ایس ایف کے مطابق یہ تعداد 278 ہے ۔
جدید تاریخ میں کسی بھی جنگ نے صحافیوں کو اس پیمانے پر ہلاک نہیں کیا۔عراق، افغانستان، شام یا بوسنیا، کہیں بھی اتنے زیادہ صحافی ایک ہی تنازع میں مارے نہیں گئے ۔جن صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا، وہ پریس جیکٹ پہن کر کام کر رہے تھے ، بعض اسپتالوں کے باہر میڈیا خیموں میں بیٹھے تھے ، یا اپنے گھروں میں اہلِ خانہ کے ساتھ تھے ۔ اس کے باوجود میزائل ان پر برسائے گئے ۔دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا خطہ ہو جہاں کیمرہ یا صحافت اتنا بڑا جرم بن گیا ہو۔یہ صحافی صرف بموں سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ بھوک سے بھی نبرد آزما ہیں۔مارچ 2024 میں اسرائیل نے سرحدی راستے بند کر دیے جس سے 24 لاکھ انسان محصور ہو گئے ۔ اب تک 450 افراد بھوک سے مر چکے ہیں، جن میں 150بچے شامل ہیں۔رپورٹرز بھی قطار میں کھڑے ہو کر روٹی کا ایک ٹکڑا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر اوقات اپنی بھوک بھلا کر بچوں کو کھلاتے ہیں، اور پھر میدانِ کارزار میں نکل پڑتے ہیں۔کئی بار وہ جنازے میں اپنے ہی بچوں کو دفناتے ہیں اور شام کو دوسروں کے جنازے کور کرتے ہیں۔ فائز کہتے ہیں:ہم فلم تو بناتے ہیں، مگر ہمارے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہر بچہ جو کیمرے میں آتا ہے وہ اپنا بچہ لگتا ہے۔کچھ صحافی ایسے بھی ہیں جو دن بھر بھوکے رہ کر رپورٹنگ کرتے ہیں، محض چائے اور ایک روٹی پر گزر بسر کرتے ہیں۔ کئی بار تھکن اور فاقے سے وہ میدان میں گر پڑتے ہیں، لیکن پھر بھی کیمرہ نہیں چھوڑتے ۔صحافیوں کی ہلاکت پر عالمی میڈیا اور ادارے صرف بیانات اور قراردادوں تک محدود ہیں۔ یکم ستمبر کو ستر ملکوں کے ڈھائی سو سے زائد اخبارات نے صفحہ اول پر مشترکہ سرخی لگائی: جس رفتار سے اسرائیلی فوج صحافیوں کو مار رہی ہے ، جلد ہی کوئی باقی نہ رہے گا جو آپ کو خبر دے سکے ۔لیکن عملی قدم کچھ نہ ہوا۔ آر ایس ایف نے چار بار جنگی جرائم کی شکایت عالمی فوجداری عدالت میں دی مگر پیش رفت صفر۔ مغربی میڈیا کے بڑے ادارے بھی خاموش ہیں۔فائز کڑواہٹ سے کہتے ہیں:باہر کے بڑے چینل بھی خاموش ہیں، نوکری کھونے یا ملک بدری کے خوف سے ۔ تاریخ ان کی خاموشی معاف نہیں کرے گی۔
ایک اور فلسطینی صحافی، سلمیٰ القدومی بتارہی ہے کہ جنگ کے پندرہ ماہ میں بار بار زبردستی نقل مکانی اور خاندان سے جدائی سہنا سب سے مشکل مرحلہ رہا ہے :آپ ایک جگہ ٹھہرتے ہیں، اور پھر دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر چل پڑتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ کوئی جگہ واقعی محفوظ نہیں ہے ۔وہ جنوبی غزہ میں رپورٹنگ کے دوران وہ زخمی ہوئیں، اسی واقعے میں ان کی ایک ساتھی جان سے گئیں۔ایک صحافی محمد منصور اپنے گھر پر فضائی حملے میں اپنی بیوی اور بیٹے سمیت مارے گئے ۔ وہ خان یونس کے رہائشی تھے اور فلسطین ٹوڈے کے لیے کام کرتے تھے ۔اسی روز شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیا میں 23 سالہ صحافی حسام شباط، جو الجزیرہ کے نمائندے تھے ، کار حملے میں مارے گئے ۔اسرائیلی فوج نے بیان میں کہا کہ اس نے شباط کو’ختم کر دیا’ اور الزام لگایا کہ وہ ‘اسنائپر دہشت گرد’تھے ۔
شباط کی ہلاکت کے بعد قطر میں قائم الجزیرہ نے اپنے نمائندے کی ہلاکت کو’قتل ناحق’قرار دے کر سخت مذمت کی۔ ادارے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ‘صحافیوں کے منظم قتل’کی مذمت کرے ۔مرام حمید، جو الجزیرہ انگلش، ڈیجیٹل کے لیے غزہ سے رپورٹنگ کرتی ہیں، کہتی ہیں؛میں تھک گئی ہوں۔
وہ بتاتی ہیں:میں اس لیے تھک گئی ہوں کیونکہ میرا دل اور دماغ مسلسل آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ وہ جھگڑتے ہیں کہ کون سی کہانی لکھنی ہے ، کون سی چھوڑنی ہے ۔ اتنی دردناک، غم انگیز اور صدمہ خیز کہانیاں ہیں کہ آپ انہیں نظرانداز نہیں کر سکتے ۔ یہ عقل اور جذبات کی جنگ ہے ۔ کوئی بات منطقی نہیں لگتی۔ اس طویل جنگ کے ہولناک مناظر دیکھنے کے بعد نیند اور سکون دونوں رخصت ہو گئے ہیں۔ نہ دل یہ سب سہہ سکتا ہے نہ دماغ۔ اپنی روزمرہ کی روٹین کے بارے میں وہ بتار ہی ہیں:میں سوتی ہوں، جاگتی ہوں، چلتی ہوں، کھانا پکاتی ہوں، کپڑے ہاتھ سے دھوتی ہوں، اپنے نومولود کی دیکھ بھال کرتی ہوں، مگر دماغ مسلسل متحرک رہتا ہے ۔ وہ کہانیاں لکھتا رہتا ہے ۔وہ عورت جو چار بچوں کے ساتھ خیمہ نہ ملنے پر سڑک پر سو رہی ہے ، وہ شخص جو قابض فوج کی قید سے چھوٹ کر اب ہسپتال میں چائے بیچ رہا ہے ، وہ میڈیکل کی طالبہ جو تعلیم مکمل نہ کر سکی اور اب مایوس ہو کر خیمے میں بیٹھی ہے ، وہ ماں جو ہر روز صحافیوں سے بچی کے لیے دودھ کی فریاد کرتی ہے ، اور وہ عورتیں جو ہسپتال کی راہداریوں میں بچوں کو گرمی اور سردی سے بچانے کیلئے سو جاتی ہیں۔مرام مزید کہتی ہیں کہ اس کا دماغ ہر روز اس کو ایک نئی کہانی کی طرف لے جاتا ہے ؛
ایک جوشیلی لڑکی کی کہانی جو صبح روٹی کی قطار میں لگتی ہے اور شام کو ہسپتال میں صحافیوں کے کپڑے دھو کر مدد کرتی ہے ۔ یا اس نوجوان کی کہانی جو لکڑی کے ڈنڈے پر موبائل باندھ کر کیمپ والوں کو ہاٹ اسپاٹ سے انٹرنیٹ بانٹتا ہے ۔ یہ سب طاقتور کہانیاں ہیں، جو دنیا تک پہنچنی چاہیے ۔
ہسپتالوں کے ایک سین کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہے :وہ اپنا بیگ خیمے میں رکھ کر باہر نکلتی ہوں تو ایک بچی کی لاش پر بین سنائی دیتا ہے ۔ لوگ کل کے ملبے سے نکالے گئے شہید کے جنازے کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ ماں باپ چیختے ہیں۔ عورتیں زمین پر گرتی ہیں۔ مرد حوصلہ دیتے ہیں:صبر کرو، بیٹا شہید ہے ۔ مردوں کو غسل دلوانے کی بھی لائن ہے ۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو اٹھائے کھڑا ہے کہ کب کفن نصیب ہو۔وہ کہتی ہے کہ یہ روزِ محشر کا منظر ہے ۔مگر اب عادی ہو چکی ہوں۔اسی دوران کوئی چائے بیچ رہا ہے ، تھکے لوگ کافی پی رہے ہیں، بچے بھُنے ہوئے چنے بیچ رہے ہیں۔مرام کے مطا بق :یہ مناظر اب اتنے عام ہو گئے ہیں کہ اب یہ جذبات سے عاری لگتا ہے ۔ وقت اور جگہ ہی نہیں کہ کوئی اپنے پیاروں کو الوداع کہہ سکے ۔ان سب کے بیچ میرا دماغ شرمندہ ہو جاتا ہے ۔ مگر پھر سوال اٹھتا ہے ؛ اگر ہم نہ لکھیں تو کون لکھے گا؟ اگر ہم نہ دکھائیں تو کون دکھائے گا؟ شہیدوں کی کہانیاں کون سنائے گا؟ تاریخ کے لیے اس قیامت کو کون محفوظ کرے گا؟ خدایا، یہ کیسا ظلم ہے !تقریباً دو سال ہو گئے ، لائیو کوریج، انٹرویوز اور مضامین کا سلسلہ ہے ۔ مگر دل پوچھتا ہے ؛ کیا فائدہ؟ دماغ پوچھتا ہے ؛ کیا فائدہ؟ دنیا تو کچھ کرتی نہیں۔
صحافیوں کی یہ کہانیاں مل کر ایک حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں،غزہ کے صحافی دنیا کے آخری گواہ ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو غزہ کی کہانی اندھیروں میں دفن ہو جائے گی۔ شاید دنیا بعد میں کہہ دے ہمیں پتا نہیں تھا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ صحافی اپنی جان پر کھیل کر یہ حقائق دنیا تک پہنچا رہے ہیں تاکہ کل کوئی انکار نہ کر سکے ۔مومن فائز کہتے ہیں کہ غزہ کے صحافی عنقا کی طرح راکھ سے پھر جی اٹھتے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ ہر کوریج ان کی آخری ہو سکتی ہے ۔ پھر بھی ان کا عزم ہے کہ ٹوٹے کیمروں سے ، اپنی آخری سانس تک سب کچھ ریکارڈ کرتے رہیں گے اور دنیا کے ضمیر کو جگانے کا کام کرتے رہیں گے ۔ ان کے کئی ساتھی فاقے سے بے ہوش ہو گئے مگر رپورٹنگ نہیں چھوڑی۔
غزہ کے صحافی وہ چراغ ہیں جو شب ِسیاہ میں بجھا دیے جا رہے ہیں۔ مگر انہی کی قربانیوں نے غزہ کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو دنیا اندھی ہو جائے ۔ تاریخ ان کے خون کو سطر سطر لکھے گی اور آنے والی نسلیں جانیں گی کہ ظلم کے اندھیروں میں بھی کچھ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سچ کا چراغ جلاتے رہے ۔
٭٭٭