... loading ...
محمد آصف
جدید دور اپنی سائنسی ترقی اور میڈیا کی وسعت کے ساتھ بے شمار مواقع اور سہولتیں لایا ہے ۔ لیکن انہی ترقیوں کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک سماجی و ثقافتی رجحان بھی ابھرا ہے : عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش کا فروغ۔ جو رویے کبھی شرمناک، غیر اخلاقی یا ناقابلِ قبول سمجھے جاتے تھے ، آج انہیں ترقی، آزادی اور اظہارِ ذات کے نام پر عام اور قابلِ فخر بنا دیا گیا ہے ۔ یہ گمراہ کن رجحان نہ صرف اخلاقی اقدار کو کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کے ذہن و فکر کو بھی خطرناک سمت میں موڑ رہا ہے ۔ اس رجحان کے مرکز میں عریانی اور فحاشی کی تشہیر ہے ۔ مقبول کلچر، جسے فلمی صنعت، موسیقی، اشتہارات اور سوشل میڈیا بڑھاوا دیتے ہیں، عریانی کو اظہارِ آزادی اور فحاشی کو جرأت مندی کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ آج کے دور میں فلموں، ویڈیوز اور اشتہارات میں عریانی اور بے حیائی کو عام کر دیا گیا ہے ، اور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ بے حجابی ہی طاقت اور آزادی کی علامت ہے ۔ یہ سطحی تصور نہ صرف باوقار انسانی اقدار کو کمزور کرتا ہے بلکہ انسان کو اس کی اصل پہچان علم، کردار اور اخلاقی عظمت سے ہٹا کر محض جسمانی نمائش تک محدود کر دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی بے مقصد شہرت کی دوڑ نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ماضی میں شہرت کسی علمی، ادبی، سائنسی یا سماجی خدمت سے حاصل ہوتی تھی۔ لیکن آج کل ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے شہرت کے پیمانے بدل دیے ہیں۔ کوئی بھی شخص ایک رات میں کسی متنازع یا غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے مشہور ہو جاتا ہے۔ یہ عارضی اور کھوکھلی شہرت نوجوان نسل کو یہ غلط پیغام دیتی ہے کہ محنت، تعلیم اور ہنر سے بڑھ کر صرف شہرت کمانا ہی اصل کامیابی ہے ، چاہے اس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو۔
سطحی نمائش نے اس رجحان کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے ایک ایسا کلچر پیدا کر دیا ہے جہاں ہر شخص اپنی زندگی کا مصنوعی اور غیر حقیقی عکس پیش کرنے پر مجبور ہے ۔ قیمتی لباس، مہنگی گاڑیاں، مصنوعی خوبصورتی اور پرتعیش طرزِ زندگی کے مظاہرے ہی کامیابی کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، اور اصل معیار یعنی علم، دیانت اور اخلاقی قدریں پسِ پشت چلی گئی ہیں۔یہ گمراہ کن رجحان کئی نقصانات کا باعث ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہا ہے ۔ جب عریانی اور فحاشی کو عام کر دیا جائے تو حیا، احترام اور شرافت جیسی خوبیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ بے مقصد شہرت ایک ایسے کلچر کو جنم دیتی ہے جہاں نوجوان محنت یا علم کے بجائے صرف وقتی مقبولیت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سطحی نمائش نے ذہنی و نفسیاتی مسائل کو بڑھا دیا ہے ۔ نوجوان جب اپنی زندگی کا موازنہ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مصنوعی دنیا سے کرتے ہیں تو وہ احساسِ کمتری، مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ رجحان انسان کی فکری اور روحانی بنیادوں کی کمزوری کی علامت ہے ۔ انسان کو ایک بلند مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے :علم حاصل کرنا، تہذیبیں تعمیر کرنا اور اخلاقی عظمت کے ساتھ زندگی گزارنا۔ لیکن جب سماج ان اقدار کے بجائے سطحی نمائش اور وقتی شہرت کو کامیابی سمجھنے لگے تو نتیجہ اندرونی خلا اور بے سکونی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ چاہے شہرت اور توجہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ملے ، وہ انسان کے دل کو سکون نہیں دے سکتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ رجحان محض ذاتی انتخاب نہیں بلکہ ایک منظم کاروبار ہے ۔ فیشن انڈسٹری، تفریحی ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کھوکھلی نمائش اور فحاشی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ سنسنی خیزی اور بے حیائی ہی تیزی سے شہرت اور منافع دیتی ہے ۔ اس طرح یہ رجحان نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ استحصالی بھی ہے ۔ اس مسئلے کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب اجتماعی طور پر اقدار پر دوبارہ غور کیا جائے ۔ خاندان، تعلیمی ادارے ، مذہبی مراکز اور میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حیا اور شرافت کو کمزوری کے بجائے طاقت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اصل کامیابی علم، محنت اور کردار میں ہے ، نہ کہ وقتی شہرت یا سطحی نمائش میں۔ ساتھ ہی افراد کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ ہر لائیک، شیئر اور سبسکرپشن اس رجحان کو مزید بڑھاتا ہے ۔ اگر ہم بامقصد اور بااخلاق مواد کو فروغ دیں تو یہ رجحان کمزور پڑ سکتا ہے ۔ ذاتی سطح پر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں سادگی، خلوص اور سچائی کو اپنائے اور محض دکھاوے کے پیچھے نہ بھاگے ۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک ایسا گمراہ کن رجحان ہے جو معاشروں کو اخلاقی، ذہنی اور روحانی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یہ رجحان بظاہر دلکش نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اندرونی خلا، عدمِ استحکام اور بے سکونی پیدا کرتا ہے ۔
حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی اصل پہچان علم، کردار اور اقدار کو اپنائے اور سطحی نمائش کے چکر سے نکلے ۔ ورنہ یہ رجحان معاشروں کو مزید تباہی اور زوال کی طرف لے جائے گا۔
٭٭٭