وجود

... loading ...

وجود

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

جمعرات 02 اکتوبر 2025 بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

محمد آصف

جدید دور اپنی سائنسی ترقی اور میڈیا کی وسعت کے ساتھ بے شمار مواقع اور سہولتیں لایا ہے ۔ لیکن انہی ترقیوں کے ساتھ ساتھ ایک خطرناک سماجی و ثقافتی رجحان بھی ابھرا ہے : عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش کا فروغ۔ جو رویے کبھی شرمناک، غیر اخلاقی یا ناقابلِ قبول سمجھے جاتے تھے ، آج انہیں ترقی، آزادی اور اظہارِ ذات کے نام پر عام اور قابلِ فخر بنا دیا گیا ہے ۔ یہ گمراہ کن رجحان نہ صرف اخلاقی اقدار کو کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کے ذہن و فکر کو بھی خطرناک سمت میں موڑ رہا ہے ۔ اس رجحان کے مرکز میں عریانی اور فحاشی کی تشہیر ہے ۔ مقبول کلچر، جسے فلمی صنعت، موسیقی، اشتہارات اور سوشل میڈیا بڑھاوا دیتے ہیں، عریانی کو اظہارِ آزادی اور فحاشی کو جرأت مندی کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ آج کے دور میں فلموں، ویڈیوز اور اشتہارات میں عریانی اور بے حیائی کو عام کر دیا گیا ہے ، اور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ بے حجابی ہی طاقت اور آزادی کی علامت ہے ۔ یہ سطحی تصور نہ صرف باوقار انسانی اقدار کو کمزور کرتا ہے بلکہ انسان کو اس کی اصل پہچان علم، کردار اور اخلاقی عظمت سے ہٹا کر محض جسمانی نمائش تک محدود کر دیتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی بے مقصد شہرت کی دوڑ نے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ماضی میں شہرت کسی علمی، ادبی، سائنسی یا سماجی خدمت سے حاصل ہوتی تھی۔ لیکن آج کل ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے شہرت کے پیمانے بدل دیے ہیں۔ کوئی بھی شخص ایک رات میں کسی متنازع یا غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے مشہور ہو جاتا ہے۔ یہ عارضی اور کھوکھلی شہرت نوجوان نسل کو یہ غلط پیغام دیتی ہے کہ محنت، تعلیم اور ہنر سے بڑھ کر صرف شہرت کمانا ہی اصل کامیابی ہے ، چاہے اس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہ ہو۔
سطحی نمائش نے اس رجحان کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے ایک ایسا کلچر پیدا کر دیا ہے جہاں ہر شخص اپنی زندگی کا مصنوعی اور غیر حقیقی عکس پیش کرنے پر مجبور ہے ۔ قیمتی لباس، مہنگی گاڑیاں، مصنوعی خوبصورتی اور پرتعیش طرزِ زندگی کے مظاہرے ہی کامیابی کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، اور اصل معیار یعنی علم، دیانت اور اخلاقی قدریں پسِ پشت چلی گئی ہیں۔یہ گمراہ کن رجحان کئی نقصانات کا باعث ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ معاشرتی اقدار کو تباہ کر رہا ہے ۔ جب عریانی اور فحاشی کو عام کر دیا جائے تو حیا، احترام اور شرافت جیسی خوبیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ بے مقصد شہرت ایک ایسے کلچر کو جنم دیتی ہے جہاں نوجوان محنت یا علم کے بجائے صرف وقتی مقبولیت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ سطحی نمائش نے ذہنی و نفسیاتی مسائل کو بڑھا دیا ہے ۔ نوجوان جب اپنی زندگی کا موازنہ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مصنوعی دنیا سے کرتے ہیں تو وہ احساسِ کمتری، مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ رجحان انسان کی فکری اور روحانی بنیادوں کی کمزوری کی علامت ہے ۔ انسان کو ایک بلند مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے :علم حاصل کرنا، تہذیبیں تعمیر کرنا اور اخلاقی عظمت کے ساتھ زندگی گزارنا۔ لیکن جب سماج ان اقدار کے بجائے سطحی نمائش اور وقتی شہرت کو کامیابی سمجھنے لگے تو نتیجہ اندرونی خلا اور بے سکونی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ چاہے شہرت اور توجہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ملے ، وہ انسان کے دل کو سکون نہیں دے سکتی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ رجحان محض ذاتی انتخاب نہیں بلکہ ایک منظم کاروبار ہے ۔ فیشن انڈسٹری، تفریحی ادارے اور ٹیکنالوجی کمپنیاں انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر کھوکھلی نمائش اور فحاشی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ سنسنی خیزی اور بے حیائی ہی تیزی سے شہرت اور منافع دیتی ہے ۔ اس طرح یہ رجحان نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ استحصالی بھی ہے ۔ اس مسئلے کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب اجتماعی طور پر اقدار پر دوبارہ غور کیا جائے ۔ خاندان، تعلیمی ادارے ، مذہبی مراکز اور میڈیا سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حیا اور شرافت کو کمزوری کے بجائے طاقت کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ اصل کامیابی علم، محنت اور کردار میں ہے ، نہ کہ وقتی شہرت یا سطحی نمائش میں۔ ساتھ ہی افراد کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ ہر لائیک، شیئر اور سبسکرپشن اس رجحان کو مزید بڑھاتا ہے ۔ اگر ہم بامقصد اور بااخلاق مواد کو فروغ دیں تو یہ رجحان کمزور پڑ سکتا ہے ۔ ذاتی سطح پر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں سادگی، خلوص اور سچائی کو اپنائے اور محض دکھاوے کے پیچھے نہ بھاگے ۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عریانی، فحاشی، بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک ایسا گمراہ کن رجحان ہے جو معاشروں کو اخلاقی، ذہنی اور روحانی سطح پر نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یہ رجحان بظاہر دلکش نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اندرونی خلا، عدمِ استحکام اور بے سکونی پیدا کرتا ہے ۔
حقیقی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی اصل پہچان علم، کردار اور اقدار کو اپنائے اور سطحی نمائش کے چکر سے نکلے ۔ ورنہ یہ رجحان معاشروں کو مزید تباہی اور زوال کی طرف لے جائے گا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بیس نکات کی باسی کڑھی وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بیس نکات کی باسی کڑھی

غزہ: موت کے سائے میں صحافت وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
غزہ: موت کے سائے میں صحافت

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

پاکستان کا ہر شہری مقروض وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
پاکستان کا ہر شہری مقروض

آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر