... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
پاکستان میں بڑھتی مہنگائی اور غربت میں اضافہ کی اصل وجہ بڑھتے ہوئے قرضوں سے پاکستان کا عام غریب شہری اور متوسط طبقے کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اشیائے خُر و نوش ،پیٹرول اور بجلی میں ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ عام شہری کے کاندھوں پر قرضوں کا بوجھ ہے ۔پاکستان کی معیشت ایک ایسے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جس کا اثر ہر شہری کی زندگی پر براہ راست پڑ رہا ہے ۔ معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ کی حالیہ رپورٹ نے ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ ملک کا ہر فرد اس وقت 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے ۔ یہ اعداد و شمار محض کاغذی نہیں بلکہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ریاستی سطح پر لیے گئے قرضوں کا بار آخرکار عام شہری کے کندھوں پر منتقل ہو رہا ہے ۔ دس سال قبل یہی قرضہ فی شہری صرف 90ہزار 47روپے تھا، لیکن ایک دہائی میں اس میں اضافہ دو گنا سے بھی زیادہ ہو چکا ہے ۔ اس عرصے میں نہ صرف قرضوں کی شرح بڑھی ہے بلکہ روپے کی قدر میں بھی شدید کمی نے مسئلے کو سنگین بنا دیا ہے ۔ 2020سے اب تک روپے کی قدر میں 71فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جس کی وجہ سے بیرونی قرضے مقامی کرنسی میں 88 فیصد تک بڑھ گئے ۔ یہ صورتحال صرف ایک معاشی بحران نہیں بلکہ مستقبل کی نسلوں کے لیے بھی ایک خوفناک بوجھ ہے ۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے قرضے لینا کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک بیرونی ذرائع سے سرمایہ حاصل کرتے ہیں تاکہ ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جا سکیں، درآمدات کی ضروریات پوری ہوں اور ادائیگیوں کا توازن برقرار رہے ۔ لیکن مسئلہ اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب قرضے ملکی آمدنی سے زیادہ تیزی سے بڑھنے لگیں اور ان کے استعمال میں شفافیت نہ رہے ۔ پاکستان میں یہی کچھ ہوا۔ پچھلے دس برس میں قرضوں کا حجم کئی گنا بڑھ گیا لیکن اس کے مقابلے میں معیشت کی پیداواری صلاحیت، برآمدات اور ٹیکس وصولی میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا۔پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بجٹ خسارہ ہے ۔ ہر سال ملک کا بجٹ خسارے میں جاتا ہے اور اسے پورا کرنے کے لیے حکومت مزید قرضے لینے پر مجبور ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ درآمدات اور برآمدات میں توازن کی کمی بھی بحران کو بڑھاتی ہے ۔ پاکستان کی برآمدات محدود اور مخصوص شعبوں تک رہیں جبکہ درآمدات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار ہوئے اور حکومت کو قرضوں کے ذریعے ہی ادائیگیاں کرنے کی راہ اپنانی پڑی۔
اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق قرضوں کا سالانہ اوسطاً اضافہ 13 فیصد ہے ، جو کسی بھی معیشت کے لیے ایک تشویش ناک شرح ہے ۔ اگر یہ رفتار جاری رہی تو آنے والے پانچ سے دس برسوں میں پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہو جائے گی۔ قرضے محض رقوم کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ ان پر سود بھی ادا کرنا پڑتا ہے ، اور سود کی یہ ادائیگیاں بجٹ کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہیں۔ پاکستان کے بجٹ میں اس وقت سب سے زیادہ خرچ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر ہوتا ہے ، جبکہ تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کے لیے وسائل کم پڑ جاتے ہیں۔
قرضوں کے بڑھتے بوجھ نے روپے کی قدر پر بھی براہ راست اثر ڈالا ہے ۔ جب حکومت مسلسل قرضوں پر انحصار کرتی ہے تو ملکی کرنسی
دباؤ کا شکار ہوتی ہے ۔ 2020 سے اب تک روپے کی قدر میں 71 فیصد کمی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ معیشت کو سہارا دینے کے
بجائے قرضوں نے اسے مزید غیر مستحکم کر دیا۔ روپے کی گرتی قدر کا مطلب ہے کہ درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں، مہنگائی بڑھتی ہے اور عوام کی
قوت خرید کم ہوتی ہے ۔ یوں ہر سطح پر معاشی مشکلات بڑھتی ہیں اور عام آدمی کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے ۔
پاکستان کی معاشی صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرضے صرف بیرونی ذرائع تک محدود نہیں بلکہ اندرونی قرضوں کا حجم بھی بہت بڑھ چکا ہے ۔ حکومت مقامی بینکوں سے بھاری رقوم ادھار لیتی ہے جس سے نجی شعبے کے لیے قرضوں کی فراہمی متاثر ہوتی ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کاروباری سرگرمیاں سکڑتی ہیں، سرمایہ کاری کم ہوتی ہے اور روزگار کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ اس طرح قرضے معیشت کے لیے سہارا بننے کے بجائے ایک زنجیر ثابت ہوتے ہیں جو ترقی کے راستے کو باندھ دیتی ہے ۔
اس پورے منظرنامے میں عوام پر اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ مہنگائی کی بلند شرح، بیروزگاری، صحت اور تعلیم پر ناکافی اخراجات براہ راست عام شہری کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر ایک دہائی میں فی کس قرضہ 90 ہزار 47 روپے سے بڑھ کر 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے تک پہنچ چکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف موجودہ نسل بلکہ آنے والی نسلیں بھی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی جا رہی ہیں۔ یہ صورتحال معاشرتی ناہمواری کو بھی جنم دیتی ہے ، کیونکہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے عوام کو روزمرہ ضروریات پوری کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے بحران سے نکلنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ قرضوں کے استعمال میں شفافیت لائی جائے ۔ اگر قرضے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوں جو معیشت کو طویل المدتی فائدہ پہنچائیں، تو ان کا بوجھ عوام پر کم محسوس ہوگا۔ لیکن اگر قرضے صرف بجٹ خسارہ پورا کرنے یا غیر پیداواری اخراجات میں ضائع ہوں تو یہ بحران مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا۔دوسرا اہم قدم برآمدات کو بڑھانا ہے ۔ پاکستان کے لیے زرعی، صنعتی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے برآمدات کو وسعت دینا ضروری ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں اور قرضوں پر انحصار کم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ملک کی ایک بڑی آبادی اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہے ، اور اس کی وجہ سے حکومت کو مطلوبہ آمدنی حاصل نہیں ہو پاتی۔ اگر ٹیکس چوری روکی جائے تو قرضوں کی ضرورت بھی کم ہو جائے گی۔تیسرا قدم روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے مؤثر پالیسیوں کی تشکیل ہے ۔ روپے کی مسلسل گراوٹ نہ صرف قرضوں کے بوجھ کو بڑھاتی ہے بلکہ عوامی مشکلات میں بھی اضافہ کرتی ہے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے ، درآمدات پر کنٹرول اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے کرنسی کو سہارا دیا جا سکتا ہے ۔
چوتھا اور سب سے اہم اقدام حکومتی اخراجات میں کفایت شعاری ہے ۔ غیر ضروری سرکاری خرچ، لگژری پروجیکٹس اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کو محدود کر کے قومی وسائل کو عوامی فلاح اور ترقیاتی کاموں پر لگانا چاہیے ۔ جب تک حکومت خود اپنے اخراجات کو کنٹرول نہیں کرے گی، قرضوں کا بوجھ کم نہیں ہو سکے گا۔پاکستان کا مستقبل اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جب معیشت کو قرضوں پر انحصار سے نکال کر خود کفالت کی راہ پر ڈالا جائے ۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ شفافیت، برآمدات میں اضافہ، ٹیکس اصلاحات، روپے کی قدر کو مستحکم کرنا اور اخراجات میں کمی وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے قرضوں کے بوجھ کو بتدریج کم کیا جا سکتا ہے ۔ بصورت دیگر ہر آنے والا دن عوام کے لیے مزید مشکلات لے کر آئے گا اور قرضوں کی یہ زنجیر ٹوٹنے کے بجائے مزید سخت ہوتی جائے گی۔
یہ وقت ہے کہ ریاست اور عوام دونوں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کریں کہ قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے قربانیاں دینا ہوں گی۔ اگر آج سنجیدہ اصلاحات نہ کی گئیں تو آنے والی نسلیں بھی مقروض پیدا ہوں گی اور پاکستان کی معاشی خودمختاری ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ قرضے ترقی کے لیے لیے جائیں یا بحران سے نکلنے کے لیے ، لیکن ان کا اصل مقصد ہمیشہ عوام کی بہتری اور معیشت کی مضبوطی ہونا چاہیے ۔ اگر اس اصول پر عمل کیا گیا تو پاکستان قرضوں کے شکنجے سے نکل کر ایک خوددار اور مضبوط ملک بن سکتا ہے ۔
٭٭٭