وجود

... loading ...

وجود

پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ

اتوار 21 ستمبر 2025 پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ

حمیداللہ بھٹی

پاکستان اور سعودی عرب میں مشترکہ دفاع کا معاہدہ غیر متوقع پیش رفت نہیں کیونکہ ایسا کچھ ہونے کا امکان تھا ۔البتہ معاہدہ اتنی خاموشی سے طے پاجائے گا یہ غیر متوقع ضرورہے ۔شایداِس کی وجہ یہ ہوکہ دونوں کودبائو کاخدشہ تھا۔ اسی لیے کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی ۔سترہ ستمبر کو طے پانے والے معاہدے نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں اور امریکہ کی خاموشی نے عربوں کواُس نہج پرپہنچا دیا کہ وہ امریکہ پر دفاعی انحصار کرنے کے علاوہ بھی سوچنے لگے ہیں بلکہ ایسا امکان موجود ہے کہ دیگر ممالک بھی اسی قسم کے معاہدوں کی طرف جا سکتے ہیں ۔
تھوڑے عرصے کے لیے عرب ممالک بدظن رہے ۔مایوسی کی وجہ پاکستان کی کمزور معیشت بنی مگر رواں برس چھ سے دس مئی تک کے پاک بھارت واقعات نے دنیا کی سوچ تبدیل کردی اورعربوں کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ پاکستان کے سواکوئی اور ملک اُنھیں دفاع میں مددنہیں دے سکتا۔یہ ہے بھی توانہونی بات کہ آٹھ گُنا بڑا ملک سینکڑوں طیاروں سے حملہ آور ہوتا ہے اور اربوں مالیت کے سات جدید ترین لڑاکا طیارے تباہ کرانے کے بعد پسپائی اختیارکرلیتا ہے ۔دس مئی کو نمازِ فجر کے بعد جوابی حملہ شروع ہوتا ہے اور نمازِ عصر کے وقت بے مثال کامیابی پرشکرانے کے نوافل بھی ادا کرلیے جاتے ہیں۔بے مثال جنگی مہارت اور صلاحیتوں سے پاک فوج نے باورکرادیاکہ وہ اسلامی ممالک کی سب سے بڑی اور موثر فوج ہے ۔مئی واقعات نے عدمِ تحفظ کا شکارعربوں کے دل جیت لیے اور وہ دوبارہ پاکستان کے قریب آئے۔ رواں ماہ 9ستمبر کو قطر پر اسرائیلی حملے نے مزیدجھنجوڑاجس کی وجہ سے ایسی نئی دفاعی حکمت ِعملی پر غور کرنے لگے جو اسرائیلی جارحیت کا توڑ کرسکے ظاہر ہے پاکستان دنیا کا واحد جوہری ملک ہے جس کے پاس تمام اسلامی ممالک سے بڑی فوج ہے جوکسی بھی وقت اور کہیں بھی حیران کُن نتائج دے سکتی ہے، اسی بناپر سب کی نظریں اب پاکستان پر ہیں۔
قطر کی طرف سے طلب کی گئی ہنگامی عر ب و اسلامی سربراہی کانفرنس میں اسلامی قیادت کوملنے اور تبادلہ خیال کااچھا موقع ملا۔ اِس ہنگامی سربراہی کانفرنس میں جہاں میزبان قطر سمیت اسرائیلی خطرے سے دوچاردیگر عرب ممالک تک اظہارِ خیال میں محتاط رہے۔ وہاں پاکستان نے واشگاف الفاظ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے غاصب ملک قرار دیا اور قطری قیادت کو یقین دلایا کہ جوابی کارروائی کا آپ جو بھی فیصلہ کریں پاکستان ہر طرح کاساتھ دینے کو تیار ہیں۔ مشترکہ فورس کی تجویز تک پیش کی قیافہ ہے کہ اسی دوران پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی نوک پلک سنوارلی گئی۔ قبل ازیں ایران پر اسرائیلی حملے کی بھی پاکستان نے سخت مذمت کی اور ایران کی ہرممکن سفارتی و سیاسی مدد کی جس پر ایرانی قیاد ت نے نہ صرف پارلیمنٹ میں پاکستان کا نام لیکر تشکر تشکر کے نعرے لگائے بلکہ ایرانی صدر،سعود پزشکیان خاص طورپر شکریہ ادا کرنے پاکستان آئے۔ آج ایران اور اُس کے حامی بلکہ سعودی عرب اور اُس کے حامی دونوں ہی پاکستان کے ممنون ہیںمگروہ عالمی طاقتیں جن کامفادخطے کے عدمِ استحکام میں ہے۔ وہ پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کے معاہدے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتیں ۔جب ٹی ٹی پی جیسے شدت پسنداور بی ایل اے و مجید بریگیڈ جیسے قوم پرست گروہ پہلے ہی اُن کے رابطے میں ہیں۔ پاکستان کو بظاہراب بیرونی جارحیت کا خطرہ نہیں مگر احتیاط کا تقاضا ہے کہ دفاعی معاہدے کے ردِ عمل پر بھی نظر رکھی جائے کیونکہ امریکہ سے چاہے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہیں مگر اُس کی اولیں ترجیح ہمیشہ سے اسرائیل ہے ۔ممکن ہے بھارت اور اسرائیل دونوں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے و مجید بریگیڈ جیسے دہشت گردوں کواستعمال کرتے ہوئے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حالات خراب کرنے کی کوشش کریں۔ اربابِ اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذہن میں رکھیں کہ جتنا بڑا مقصد حاصل ہوتا ہے، ویساہی ردِ عمل بھی آ سکتاہے بڑے مقاصد کے لیے اندرونی کمزوریاں دورکرنادانشمندی ہے۔
مکہ و مدینہ جیسے مقدس مقامات کی سرزمین ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان سعودی عرب سے خاص لگائو رکھتے اورمقدس مقامات کادفاع کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے دفاعی معاہدے پر ہر پاکستانی خوش ہے۔ سعودی بادشاہوں سے شریف خاندان کا ذاتی تعلق ہے۔ 2015 میںجب یمن عدمِ استحکام سے دوچار ہواتو بھی سعودی عرب اور عرب امارات نے پاکستان سے فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا تھامگر پارلیمنٹ نے جب توثیق نہ کی تو سعودیہ اور امارات نے ناراض ہوگئے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان کو ولی عہد محمد بن سلیمان نے ذاتی طیارہ دیکر راستے سے واپس منگوالیا جوتلخی بڑھانے کاباعث بنا۔اسی دوران سی پیک کے حوالے سے چین کی طرف سے ناخوشی کے اِشارے بھی آئے جس سے ایسا محسوس ہونے لگا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ مگر مئی کی جنگ نے صورتحال یکسر بدل کر پاکستان کو اہم ترین بنادیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر نے جس آرمی چیف کو ناشتے پر مدعو کیا ہے وہ جنرل عاصم منیر ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صدر ٹرمپ نے سب سے کم ٹیرف پاکستان پر لگایا۔ اِس وقت تمام مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان کے اچھے اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ امریکہ ، روس،چین،برطانیہ سے تعلقات بھی ہموار ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کارپاکستان کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ یہ کامیاب سفارت کاری مئی کی جنگ کاصلہ ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کے دورے پر آئے تو رائل ائیر فورس کے طیاروں کا سکارٹ کرنابھی تاریخی واقعہ ہے۔ ماضی میں ایسا صرف امریکی صدور کی آمد پر ہی ہوتارہا۔ اگر ارباب وبست وکشاد نے کوئی حماقت نہ کی اور ملک کو سیاسی عدمِ استحکام کا شکارنہ ہونے دیاتو دفاعی قوت بننے کے ساتھ پاکستان کا معاشی قوت بننے کا بھی قومی امکان ہے ۔کیونکہ عربوں کو لڑاکا فوج اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے تو ہماری معیشت کو اربوں کی۔ذرا سی بے احتیاطی منزل دو ر کرسکتی ہے ۔ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ بھارت کو زمین اور فضامیں شکست دے چکے لیکن سندھ طاس معاہدہ اورمسئلہ کشمیر سمیت کئی ایسے پیچیدہ مسائل حل ہونا ہیں۔ بھارت نے فوجی شکست کا بدلہ آبی جارحیت سے لے لیا۔ مزید مکاریوں اور سازشوں کی بھی توقع ہے۔ افغان طالبان سے تعلقات ہموارنہیں اسرائیل وغیرہ جیسا ناہنجار کوئی شرارت کرے تو عبرت کا نشان ضرور بنائیں مگر یمنی حوثیوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں ،جب سعودیہ ،قطر اور عرب امارات تین ہزار ارب ڈالر دے بھی دھوکاکھاتے ہیں۔ ہم نے تولڑناہے لہٰذا 1980 کے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی نوک پلک ازرسرِ نو سنوارنابہتر ہوگا روس اور اسرائیل کے پیداکردہ حالات سے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر محسوس ہوتے ہیں ۔اِس لیے دفاعی معاہدے پر شادیانے بجانے کے ساتھ ہر پہلو کو ذہن میں رکھاجائے۔
٭٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
معاہدہ اور رومانوی دنیا! وجود اتوار 21 ستمبر 2025
معاہدہ اور رومانوی دنیا!

پارلیمنٹ میں مودی کا جھوٹ وجود اتوار 21 ستمبر 2025
پارلیمنٹ میں مودی کا جھوٹ

پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ وجود اتوار 21 ستمبر 2025
پاک سعودیہ مشترکہ دفاع کا معاہدہ

پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز وجود هفته 20 ستمبر 2025
پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز

مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل وجود هفته 20 ستمبر 2025
مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر