وجود

... loading ...

وجود

پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز

هفته 20 ستمبر 2025 پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز

محمد آصف

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ اسٹریٹجک ڈیفنس معاہدہ (Strategic MutualDefence Agreement) بلاشبہ خطے میں ایک تاریخی اور فیصلہ کن پیش رفت ہے ۔ اس معاہدے نے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت بخشی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی کئی سوالات اور امکانات کو جنم دیا ہے ۔ یہ معاہدہ اس پس منظر میں سامنے آیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے ، ایران و اسرائیل کی کشیدگی عروج پر ہے ، اور امریکہ کی خطے میں کمزور ہوتی ہوئی ساکھ نئے اتحادی ڈھانچوں کی ضرورت کو اجاگر کر رہی ہے ۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس کے اثرات خطے اور دنیا کے کئی ممالک تک پھیل سکتے ہیں۔اس معاہدے کے مطابق اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا، اور دونوں مشترکہ طور پر اس کا دفاع کریں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے اپنی سلامتی کو باہم جوڑ دیا ہے ، جو ایک انتہائی جرات مندانہ فیصلہ ہے ۔ پاکستان، جو ایک
ایٹمی طاقت ہے ، سعودی عرب کے لیے ایک مضبوط دفاعی ساتھی بن سکتا ہے ، جبکہ سعودی عرب کے مالی وسائل اور جدید ہتھیار پاکستان کے لیے فوجی اور تکنیکی سہارا فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف فوجی تعاون تک محدود ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں انٹیلی جنس شیئرنگ، مشترکہ فوجی مشقیں، اور عسکری حکمت عملیوں پر بھی عمل درآمد ممکن ہوگا۔
علاقائی توازن پر اثرات
پاک سعودیہ معاہدے کا سب سے نمایاں اثر خطے کے تزویراتی توازن پر پڑے گا۔ ایران، جو پہلے ہی سعودی عرب کا سب سے بڑا حریف ہے ، اس معاہدے کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھ سکتا ہے ۔ اگر پاکستان کھل کر سعودی عرب کے دفاع میں شریک ہوتا ہے تو ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے ۔ دوسری جانب اسرائیل، جو حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری کارروائیوں اور تعلقات کے پھیلاؤ میں سرگرم رہا ہے ، اس معاہدے کو اپنے عزائم کے لیے رکاوٹ کے طور پر دیکھے گا۔ مزید یہ کہ بھارت، جو پاکستان کا روایتی حریف ہے اور سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا تھا، اس معاہدے پر محتاط رویہ اپنائے گا کیونکہ اس کے اثرات براہِ راست جنوبی ایشیا کی سلامتی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
نیوکلیئر پہلو اور عالمی خدشات
اگرچہ معاہدے میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا، لیکن دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کی نظر اس بات پر ہے کہ کہیں یہ معاہدہ سعودی عرب کو بالواسطہ طور پر ایک ”نیوکلیئر چھتری” تو فراہم نہیں کرتا۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہمیشہ سے عالمی سیاست میں ایک اہم نکتہ رہے ہیں، اور اس معاہدے نے ان خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ امریکہ اور یورپی ممالک ممکنہ طور پر اس پہلو پر اپنی تشویش کا اظہار کریں گے ، جبکہ اسرائیل کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے ۔
پاکستان کے لیے مواقع
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ کئی مواقع پیدا کرتا ہے ۔ سب سے پہلے ، سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات پاکستان کی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب پہلے ہی پاکستان میں
سرمایہ کاری کر رہا ہے ، خاص طور پر توانائی، تیل ریفائنری اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں۔ دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ اگر یہ تعلقات اقتصادی شراکت داری میں بھی مزید وسعت اختیار کرتے
ہیں تو پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے یہ ایک ریلیف ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کو بھی مزید مواقع میسر آ سکتے ہیں، جس سے ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوگا۔
چیلنجز اور خطرات
اس معاہدے کے ساتھ جہاں امکانات ہیں، وہیں کئی خطرات اور چیلنجز بھی موجود ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کسی خطے کے تنازع میں براہِ راست ملوث ہو سکتا ہے ۔ اگر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے تو پاکستان پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے مشکل ہوگی کیونکہ ایران کے ساتھ اس کی سرحد مشترک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، مذہبی اور تجارتی روابط بھی ہیں۔ اگر پاکستان مکمل طور پر سعودی بلاک میں شامل ہو جاتا ہے تو ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، جس کے اثرات بلوچستان اور سرحدی سلامتی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایک اور چیلنج بھارت کا ردعمل ہے ۔ بھارت اس معاہدے کو اپنے خلاف سمجھ سکتا ہے ، خاص طور پر اگر سعودی عرب پاکستان کو عسکری اور اقتصادی طور پر مضبوط کرنے لگے ۔ بھارت خطے میں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتا ہے تاکہ اس معاہدے کا توڑ نکالا جا سکے ۔ اس کے نتیجے میں خطے میں اسلحے کی دوڑ اور کشیدگی مزید بڑھنے کا امکان ہے ۔
عالمی سیاست پر اثرات
یہ معاہدہ صرف پاک سعودیہ تعلقات تک محدود نہیں بلکہ عالمی سیاست پر بھی اثر ڈالے گا۔ امریکہ، جو طویل عرصے سے سعودی عرب کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے ، اس معاہدے کو اپنی پالیسی کے تناظر میں دیکھے گا۔ واشنگٹن کے لیے یہ سوال اہم ہوگا کہ سعودی عرب نے کیوں پاکستان جیسیایٹمی طاقت کے ساتھ اتنا بڑا معاہدہ کیا۔ ممکن ہے امریکہ اس کے جواب میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرے ۔ چین کے لیے یہ معاہدہ خوش آئند ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں ہی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے حامی ہیں، اور چین اس اتحاد کو اپنے
مفادات کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔
داخلی سیاست پر اثرات
پاکستان کے اندر اس معاہدے کے اثرات مختلف ہوں گے ۔ ایک طرف یہ حکومت کے لیے عوامی مقبولیت کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ اسے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔لیکن دوسری جانب اپوزیشن اور کچھ تجزیہ نگار اس پر خدشات ظاہر کر سکتے ہیں کہ کہیں پاکستان کسی ایسی جنگ یا تنازع میں نہ الجھ جائے جو اس کے اپنے قومی مفادات کے خلاف ہو۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی میں بحث ہونا ناگزیر ہے ۔
معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان کس کا؟
اس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان بھارت اور اسرائیل کو ہوا کیونکہ یہ دونوں ممالک اب پاکستان اور سعودی عرب پر حملہ نہیں کر سکتے ۔ اگر بھارت پاکستان پر حلہ کرتا ہے تو اس معاہدے کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایک پر حملہ دونوں پر حلہ تصور کیا جائے گا۔ پاکستان پر حملے کے بعد سعودی عرب کی حکومت یقینی طور پر سعودی عرب سے آنڈین کو فوری طور پر بھارت بھیجے گی، اور اسرائیل سعودی عرب پر حملہ نہیں کرے گا کیونکہ اب ہم سعودی عرب کو قانونی طور پر ہر طرح سے ہر ایک سے محفوظ رکھیں گے ۔ دنیا میں تقریباً 56 مسلم ممالک ہیں لیکن اس کام کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کو چنا کیونکہ ہماری افواج نے حال ہی میں بھارت کے چار رافیل طیارے مار گرائے ہیں جب ہم اکیلے ہی اپنے سے سات گنا بڑے ملک کو حیران اور پریشان کر سکتے ہیں تو اسرائیل تو پھر بھی بھارت سے 150 گنا چھوٹا ہے ۔ اگر انہوں نے قطر جیسی غلطی کی، تو ہماری فورسز انہیں زندہ چبا دیں گے !!!
نتیجہ
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ پاک سعودیہ معاہدہ ایک تاریخی قدم ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے ۔ یہ معاہدہ پاکستان کو عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا
موقع فراہم کرے گا اور سعودی عرب کو ایک مضبوط عسکری شراکت دار دے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کئی خطرات اور چیلنجز بھی لاتا ہے جنہیں دانشمندی، توازن اور محتاط حکمتِ عملی کے ساتھ سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ اگر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں توازن قائم رکھے اور معاہدے کو اپنی قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ جوڑے تو یہ اس کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر یہ تعلقات یکطرفہ جھکاؤ اختیار کر لیتے ہیں تو پاکستان کو خطے میں نئی دشمنیوں اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز وجود هفته 20 ستمبر 2025
پاک سعودیہ معاہدہ: ممکنہ اثرات اور چیلنجز

مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل وجود هفته 20 ستمبر 2025
مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل

ہم لکھنے والے !!ہم لکھنے والے !! وجود هفته 20 ستمبر 2025
ہم لکھنے والے !!ہم لکھنے والے !!

غزہ جغرافیہ نہیں، ایک چیخ ہے! وجود هفته 20 ستمبر 2025
غزہ جغرافیہ نہیں، ایک چیخ ہے!

قربانیوں کا صلہ ترقیاں بند اور کٹوتیاں؟ وجود جمعه 19 ستمبر 2025
قربانیوں کا صلہ ترقیاں بند اور کٹوتیاں؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر