... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
آزدیٔ صحافت کے حوالے سے آج کل رنگارنگ بو قلموں، متنوع اور گوناگوں باتیں کی جارہی ہیں۔ صحافت اور قلم کو پابند کرنے کے
خواب دیکھنے والے اکثر خود نظر بند ہوجایا کرتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں کو تو دو غلے پن ، دُہرے معیارات اور تضادات نے کہیں کا بھی
نہیں رکھا، وہ اپوزیشن میں ہوں تو آزادیٔ رائے، آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ تقریر کے بلا شرکت غیرے چیمپئن بننے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن
جب وہ ایوان اقتدار میں داخل ہوتے ہیں تو تخریب کار،دہشت گرد اور سماج دشمن عناصر کے ساتھ ساتھ گستاخ اور ”دریدود ہن قلم کاروں ”
کی سرکوبی کو بھی اپنا فرض اولین اور فرض منصبی قرار دیتے ہیں۔ اب حق گو قلم کار حیران و سرگرداںہے کہ وہ کدھر جائے، نہ خوش ہے یہ جہاں
اُس سے نہ خوش ہے وہ جہاں اس سے، مجنوں کی جان ناتواں لئے ہر دو صورتیں عذابِ جاں ہیں۔ فراق لیلیٰ بھی اور وصال لیلیٰ بھی۔۔۔۔
سچ لکھیں تو حاکمان وقت کی جبینیں شکن آلود ہو جاتی ہیں، جھوٹ لکھیں تو اپنے آپ سے گھن آنے لگتی ہے کیا وہ لکھنا چھوڑ دیں؟ ان کے لکھنے
سے صورتحال میںکونسی واضح تبدیلی اور تغیر رونما ہو جاتا ہے؟ کہتے ہیں کہ یہاں تو لکھنا ہی قبروں پر دیے روشن کرنے، ریت میں ہل چلانے اور صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔
مشینی مصروفیات، مادی آسائشات اور ڈش انٹینا کی رنگینیوں،انٹر نیٹ کی دلچسپیوں اور خوش فعلیوں کے اس دور میں توشاہی مسجد کے بلند و بالا میناروں پر بھی جب کھڑے ہو کر موذن اذان دے تو بھی مسجد مرثیہ خواں رہتی ہے کہ نمازی نہ رہے۔ اگر دنیاداری کی دلدل میں دھنسے کلمہ گوؤں کے پاس نماز پڑھنے کی بھی فرصت نہیں تو کیا موذن بھی اذان دینا چھوڑ دیں؟ سچ لکھنا اور اذان دینا یکساں عمل ہے۔ سچ کے آثار ظاہر ہو کر رہتے ہیں۔ یہ تو وہ زرخیز بیج ہے کہ اسے کھارے اور کڑوے سمندر میں بھی پھینک دیا جائے تو اگ آتے ہیں۔ زندہ و بیدار اور خوش ذوق عارفوں اورروحانیات کی جمالیاتی سرشاریوں میں مست بادہ ،وحدت کے پرستاروں کا کہنا ہے کہ اذان کی آواز فضاؤں میں جہاں جہاں ارتعاش پیدا کرتی ہے، وہاں وہاں افق افق طمانیت کے ستارے ضو دے اُٹھتے ہیں اور موذن کی یہ رس بھری آواز ہوائوں کے دوش پر سوار ہوکر جس جس گوشے میں پہنچتی ہے، وہاں بیداریوں اور سرشاریوں کے گل کدے آباد ہو جاتے ہیں۔
زمانہ ساز اور چلتے پرزے کالم نگار اور قلمکارجمہوری ظل ِ سبحانیوں کے قصیدہ نگار بن گئے۔ یہ بڑے ہی پر کار اور فنکار قسم کے کالم نگار اور قلم کار ثابت ہوئے۔ باوردی صدارت کا عہد ہو یا بے دردی صدارت کا زمانہ… انہیں ہر موسم راس آتا ہے۔ بازار ِمکرو ریاکا چوراہا انہی تیز طرار بڑھک باز قلمکاروں اور کالم نگاروں کے دم قدم سے ہمیشہ آباد رہا۔ یہ ”فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور کی بات ہے۔ جب بڑے بڑے رند مشرب قلمکار ” مثالیت پسندی” کے سبو توڑ کر ” عملیت پسندی” کے ساغر اچھال رہے تھے، اخبارات کے سینے میں سنسر شپ کا خنجر ترازو تھا، اظہار رائے کے دروازے پر پابندیوں کے گر انبار بوجھل تالے آویزاں تھے، صداقت نگار صحافیوں کی انگلیاں فگار اور خامے خونچکاں تھے، قلم ـــــکشکول اور قرطاس کسبی کا بستر بن چکا تھا، الطاف گوہر کا اور قدرت اللہ شہاب آئے روز پریس ایڈوائس کے نئے نئے ” نسخے ” اور ” ہدایت نامے” تصنیف فرمار ہے تھے۔ متاعِ لوح و قلم چھن جانے کے باوجود فیض احمد فیض حالات کا مرتبہ یوں نذرِ قرطاس کر رہا تھا:
ادھر نہ دیکھو کہ جو بہادر
قلم یا تیغ کے دھنی تھے
جو عزم وہمت کے مدعی تھ
اب ان کے ہاتھوں میں صدق ایمان کی آزمودہ پرانی تلوار ٹوٹ گئی ہے
جوکج کلاہ صاحب چشم تھے
جو اہل ِ دستار محترم تھے
کلاہ کسی نے گروی رکھدی ہے
کسی نے دستار بیچ دی ہے
ادھر بھی دیکھو جو اپنے رخشاں لہو کے دینار
مفت بازار میں لٹا کر
نظر سے اوجھل ہوئے
اور اپنی لحد میں اس وقت تک بھی ہیں
جو حرفِ حق کی صلیب پر اپنا تن سجا کر
جہاں سے رخصت ہوئے
اور اہل جہاں میں اس وقت تک بھی ہیں
اس دوران ایسے لوگ بھی سامنے آئے جنہوں نے چڑھتے سورج کی دہلیز پر نہ صرف یہ کہ اپنی دستار رکھدی بلکہ ضمیر بھی رکھ آئے ،یہ سیاہ منظر نامہ انتہائی خوفناک تھا۔ اتنا خوفناک کہ کچھ کہنے اور لکھنے سے پہلے ہی دل خون ہو جاتے ،سانس لینا بھی سزا لگتا تڑپنے کی اجازت تھی نہ فریاد کی ۔۔عنادل سرمہ در گلو تھے ۔۔۔ طائر پر سمیٹے کنجِ چمن میں مراقبہ زن تھے ۔۔۔ سادہ لوح بھول چکے تھے جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ آمر اور جابر حکمران ہر دور میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی ناتمام اور مذموم و سعی کرتے رہے ہیں۔ اس چہکتے ہوئے بلبل کی خوش الحانیوں اور خوش نوائیوں پر بارہا پہرے بٹھانے کی کوششیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ بعض شاطر اور عیارصیادوں نے تو کئی مرتبہ دام ہم رنگ زمیں بچھا کر در اسے زیر دام لانے کی تدابیر کی ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں منہ کی کھانا پڑی ہے اور بسا اوقات تو یوں بھی ہوا کہ دانے ڈنکے کی آڑ میں اسے پارہ کھلانے کی بھی سازشیں ہوئیں ۔ سرمہ در گلو ہونے کے باوجود صحن ِ گلشن کا یہ موذن اپنی دلکشا اذانوں، سکوت شکن صداؤں اور سحر خیز نواؤں سے فضاؤں کو معمور کرتارہا،یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس خوش نوائی، زمزمہ پیرائی اور خوش الحانی کی اسے بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ کبھی اس کے پر کاٹے گئے، کبھی اس کے نشیمن پر بجلیاں گرائی گئیں، کبھی اسے زنجیروں میں جکڑ کر پنجرے میں محبوس کر دیا گیا۔ اسارت کے عالم اور گھٹن کے ماحول میں بھی اس کے ہونٹوں پر یہی ترانہ مستانہ رہا:
وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہو جائے
کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے
یہ داستان ہے فروری 1997ء سے اکتوبر 1999ء کے پہلے عشرے کی” منتخب جمہوری ظلِ سبحانی ”بھاری مینڈیٹ کے خم کے خم چڑھانے کے بعد مد ہوش و سر مت ہو چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ فتو حات کا نشہ سب سے خطر ناک نشہ ہوتا ہے۔فاتح حاکم کی فتوحات کی رنگین داستانوں کی بازگشت چار سو گونج رہی تھی۔ قاضی القضاة میزان عدل تو نہ جھکا سکا لیکن اسے گردن نیاز خم کرنا پڑی۔ سپہ سالار نے اپنی نیام کے غلاف سے شمشیرِ آبدار ابھی نکالی ہی تھی کہ اسے بھی نو دو گیارہ ہونا پڑا ۔ ایوان صدارت کی ” چوٹی بالا” پر آراستہ زرنگار مسند پر فروکش بلوچ سردار نے ذر اسی سرتابی کی تو اسے بھی چوٹی زیریں ” کی راہ د کھا دی گئی۔ سیاست کی مہارانی نے کافی زور آزمائی کی لیکن بے سود لے دے کے قلم و قرطاس کے قبیلے کے کچھ سرکش قلندر رہ گئے تھے جو کبھی کبھی ”حرف حق” اور ”حرف انکار” اپنے ہونٹوں پر لانے کی تا تمام کوشش کرتے:
بڑے خطرے میں ہے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آگئی دیوار زنداں ہم نہ کہتے تھے
بھٹو صاحب نے جب ایوب خان کی زلف گرہ گیر کی اسیری سے رہائی حاصل کر کے عوامی سیاست شروع کی تو انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ وہ شہری آزادیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جب ایوان اقتدار میں داخل ہو سکے تو شہری آزادیوں پر شب خون مارنے والوں کیخلاف دمادم مست قلندر ہوگا۔ جب دمادم مست قلندر کا ڈنکا بجا اور” قائد عوام ” نگار خانہ اقتدار میں داخل ہوئے تو انہوں نے” فکس اپ پروگرام” کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ اس پروگرام کا اولین ہدف بھی صحافی بنے ۔ زیڈ اے سلہری کو پاکستان ٹائمنر کی چیف ایڈیٹری سے ہٹایا گیا، معظم علی کو زیر حراست لیا گیا، این پی ٹی کا سومنات بدستور آباد رہا۔ صلاح الدین کے ” جسارت پر پابندی لگی، تکبیر ” کی گردن نار و ا پابندیوں کے گلوٹین کے نیچے رکھ دی گئی۔ ماہنامہ ارود ڈائجسٹ، ہفت روزہ ” چنان” اور روز نامہ ”نوائے وقت کو تختۂ مشق ستم بنایا گیا۔ اداکار، اذان حق، لیل و نہار اور اسلام جمہوریہ کے ڈیکلریشن منسوخ ہوئے۔ آغا شورش کا شمیری، ضیاء شاہد، صلاح الدین ،مجیب الرحمن شامی،ممتاز اقبال ملک اور الطاف حسن قریشی کیلئے درِ زنداں و اہوا ۔۔۔ بدقسمتی سے اس ملک میں ارباب صحافت اور اہل علم کیلئے کٹھن اور مشکل ترین ادوار ہمیشہ عوامی ظلِ سبحانیوں اور جمہوری عالم پناہوں کے ادوار ثابت ہوئے۔ ان کے ادوار میں بھی صداقت شعارو دیانتدار اہل قلم کے دامن پر پیوند تو ہوتے ہیں دھیے نہیں جبکہ بلیک لیبل گروپ کے خود فروش، رائے فروش اور نظریہ فروش صحافی اسی پر نازاں، شاداں اور فرحاں رہتے ہیں کہ ان کے قمار خانے بھی چل رہے ہیں، نگارخانے اور میخانے بھی آباد ہیں۔ آج بھی صورتحال یہی ہے ۔سچ پر کڑا وقت اور پہرا ہے ،جب صورتحال یوں ہو جائے تو بے ساختہ پنجابی کے عظیم شاعر استاد دامن کی یاد حافظے کے شہر کو صبا کے مشکبار جھونکوں کی طرح اپنی شبنمی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ استاد نے آج سے تقریبا نصف صدی قبل کہا تھا:
خون جگر دا تلی تے رکھ کے تے
دھرتی پوچدے پوچدے گزر چلے
ایتھے کیویں گزاریے زندگی نوں
ایہو سوچدے سوچدے گزر چلے