وجود

... loading ...

وجود

نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول

پیر 01 ستمبر 2025 نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول

ڈاکٹر سلیم خان

نائب صدارت کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرتے وقت جسٹس سدرشن نے جب کہا کہ یہ تعداد کی نہیں نظریات کی جنگ ہے تو وزیر داخلہ امیت شاہ کو مرچی لگ گئی ۔ وہ بھول گئے کہ یہ عوامی انتخاب نہیں ہے۔ نائب صدر کے انتخاب میں دونوں ایوانِ پارلیمان کے اراکین حصہ لیتے ہیں اس لیے اول جلول بکواس کرنے کے بجائے انہیں اپنے پرانے جوڑ توڑ کے کھیل پر توجہ دینی چاہیے ۔ آئین کی دفعہ 66(1) کے تحت نائب صدر کا انتخاب سنگل ٹرانسفریبل ووٹ کے ذریعے تناسبی نمائندگی کے نظام سے کیا جاتا ہے اور ووٹنگ خفیہ بیلٹ کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ اس لیے ان کو کانگریس کی قیادت والے اتحاد کے نائب صدر امیدوار جسٹس بی۔ سدرشن ریڈی پر انتہا پسند (نکسل) تحریک کے دفاع کا الزام عائد کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن اگرکوئی عادت سے مجبور ہو تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ اس سے قبل وہ پندرہ لاکھ کی واپسی کو ‘انتخابی جملہ ‘ کہہ کر پھنس چکے ہیں اور وہ تبصرہ تو اب ضرب المثل بن چکا ہے ۔ پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کے لیے چھاتی ٹھونک جان دینے والے مکالمے کو بھی آپریشن سیندور کی جنگ بندی کے بعد خوب اچھالا گیا۔ اس بار پھر ان سے ایک بڑی غلطی ہوگئی ۔
امیت شاہ نے کوچی میں ایک میڈیا گروپ کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے یہ غیر ذمہ دارانہ دعویٰ کردیا کہ اگر ریڈی نے سالوا جُڈوم کے خلاف فیصلہ دیا نہ ہوتا، تو ملک میں 2020 سے پہلے ہی بائیں بازو کی شدت پسند تحریک ختم ہو چکی ہوتی۔ اس کے بعد وہ بولے
کہ کانگریس کی منتخب کردہ امیدوار کے باعث کیرالا میں اس کی جیت کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں حالانکہ وہ بھول گئے ریاست میں فی الحال اشتراکی حکومت ہے ۔ ریڈی کو اشتراکی ثابت کردینے سے اختلاف کے باوجود سارے بائیں بازو کے ارکان پارلیمان انہیں کو ووٹ دیں گے نیز اگلے صوبائی انتخاب میں ڈھُل مُل کمیونسٹ ووٹر بھی کانگریس کی طرف کھسک جائے گا۔ یہ دراصل سنسکرت محاورہ وناش کالے
وپریت بدھی ّ کی مصداق ہے جس کا مطلب ہوتا ہے تباہی کے دنوں میں عقل الٹ جاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ‘ووٹ چور گدی چھوڑ’اور’تڑی
پار واپس جاؤ’کا نعرہ سننے کے بعد موصوف کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے ورنہ وہ اتنی فاش غلطی کبھی نہیں کرتے ۔
امیت شاہ نے اس انٹرویومیں اپنے پیر پر کلہاڑی چلاتے ہوئے کہا کہ کیرالا نکسل تحریک کا شکار رہ چکا، اور عوام دیکھ رہی ہے کہ کانگریس، بائیں بازو کے دباؤ میں ایک ایسے امیدوار کو میدان میں لائی ہے ، جو نکسل تحریک کا حامی رہا اور سپریم کورٹ جیسے مقدس فورم کو اپنی حمایت کے لیے استعمال کرچکاہے ۔ اس غیر ذمہ دارانہ بیان سے وزیر داخلہ نے سپریم کورٹ کے تقدس کو کھلے عام پامال کرنے کا جرم کردیا مگر انہیں احساس تک نہیں ہوا۔ سالوا جُڈوم پر 2011 میں جسٹس ریڈی کے فیصلے کا حوالہ دے کر وہ بولے ریڈی سالوا جُڈوم کی نظریاتی بنیاد پر فیصلہ کرنے والاآدمی ہے ۔ چھتیس گڈھ کی ریاستی حکومت نے دسمبر 2011 میں قبائلی نوجوانوں کو اسلحہ سے لیس کرکے نکسل نوازوں کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بی جے پی چونکہ دونوں کی دشمن ہے اس لیے اس نے ایک کانٹے سے دوسرا کانٹا نکالنے کی چال چلی ۔ جسٹس ریڈی نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا کہ ماؤ نوازوں سے لڑائی میں قبائلی نوجوانوں کو کسی بھی نام(کُویا کمانڈو یا سالوا جُڈوم) سے استعمال کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے ۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایسے قبائلی نوجوانوں کو فوری طور پر بے ہتھیار کیا جائے ۔
امیت شاہ نے یہ سوچ کر جھوٹ بولا کہ جسٹس سدرشن ان کے گونگے بہرے امیدوار کرشنن کی طرح چپ رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اپوزیشن کے امیدوار بی سدرشن ریڈی نے ‘ آج تک’ سے بات چیت میں اس دعویٰ کی ایسی قلعی کھولی کہ اگر کوئی باوقار انسان ہو تو چلو بھر پانی ڈوب مرے لیکن سنگھ کی شاکھا میں سب سے پہلے عزت نفس کو کچلا جاتا ہے اس لیے ان لوگوں کو شرم نہیں آتی۔جسٹس سدرشن نے اول تو یہ کہا کی ان کی امیدواری کوئی ”لڑائی” نہیں ہے بلکہ ”اصولی مسابقہ”ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور نہ ہوں گے ۔ ان کے بقول نائب صدر کا انتخاب پارلیمانی اراکین کرتے ہیں، سیاسی جماعتیں نہیں کرتیں ۔ اس لیے وہ سبھی سے انفرادی رابطہ قائم کریں گے ۔ ۔ اس لحاظ سے کسی غیر سیاسی قانون داں کا نائب صدر ہونا اور ایوان بالا کی صدارت کرنا زیادہ پسندیدہ ہوگا ۔ ریڈی نے اپنے اور کرشنن کے درمیان یہ فرق بتایا کہ وہ پندرہ سال کی عمر میں ایک نظریاتی جماعت یعنی آر ایس ایس سے وابستہ ہوگئے تھے ۔ انہوں نے ایک روشن خیال آئینی جمہوریت نواز کے طور پر اپنا تعارف کراتے ہوئے آئین کا نسخہ دکھایا تو ان سے پوچھا گیا کہ راہل بھی یہی دکھاتے پھرتے ہیں ۔ اس پرو ہ بولے خود راہل کہہ چکے ہیں کہ وہ خودتو صرف چار سال یہ کتاب لے کر گھوم رہے ہیں جبکہ ان کا امیدوار پچھلے باون سال سے اس کو ساتھ رکھے ہوئے ۔ ویسے سنگھ آئین دشمنی بھی جگ ظاہر ہے۔
جسٹس ریڈی نے علاقائی تفاخر پر بی جے پی کو یاد دلایا کہ وہ خود ایک ملک ایک شہریت کی حامی ہے اس لیے یہ “تیلگو فخر بمقابلہ تمل فخر کی لڑائی نہیں ہے ۔ وہ بولے ہم سب ہندوستانی شہری ہیں، کوئی اپنی مرضی سے تمل ناڈو یا تلنگانہ میں نہیں پیدا ہوا، اس لیے یہ کوئی فخر یہ مقابلہ نہیں ہے ۔ ان سے جب کہا گیا کہ چندرا بابو نائیڈو کے بھی یہی موقف ہے تو وہ بولے چونکہ تلگو دیشم پارٹی کا قیام ہی ”تیلگو فخر” کے نعرے پرہوا اس لیے وہ اس سے پلہ نہیں جھاڑ سکتی۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کے ذریعہ ریڈی کو “نکسلی نظریہ کا حامل شخص قرار دینے کے الزام پر انہوں نے کہا موصوف اگر ایک بار اس فیصلے کو پڑھ لیں تو اچھا ہے ۔ امیت شاہ اگر پڑھنے لکھنے والے ہوتے سنگھ میں کیوں رہتے ؟ ریڈی
نے کہا سلوا جوڈم پر دیا گیا فیصلہ سپریم کورٹ کا تھا، میں نے تواسے لکھا تھا، یہ میرا ذاتی فیصلہ نہیں تھا۔ریڈی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر
شاہ اتنے سالوں تک خاموش کیوں تھے ؟جسٹس ریڈی نے پوچھا “میں یہاں ہندوستان میں تھا، پھر انہوں نے یہ کیوں نہیں کہا کہ میری وجہ
سے نکسل ازم ختم نہیں ہوا، اب وہ اسے ایشو بنا رہے ہیں، انہیں حق ہے ، وہ ایسا کر سکتے ہیں، لیکن وہ اتنے سالوں تک خاموش کیوں رہے ؟
جسٹس ریڈی نے یاد دلایا کہ اسی وقت اس قانون کو چھتیس گڑھ کی حد تک نافذ کرنے کی اجازت دے دی گئی اور معاملہ نمٹ گیا۔ سوال یہ ہے اس کے نافذ العمل ہونے کے باوجود نکسل نظریہ اس ریاست میں کیوں ختم نہیں ہوا؟ انہوں نے یاد دلایا کہ ابھی پچھلے ماہ بھی اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے کے لیے کچھ لوگوں نے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا تھا تو ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔ ایسے میں کیا موجودہ ججوں کو بھی نکسل نواز قرار دے دیا جائے گا؟ بی جے پی کی یہ عادت ہے رہی ہے کہ وہ اپنے ہر مخالف کو ملک کا دشمن قرار دے دیتی تھی۔ اپنے اوپر تنقید
کرنے والوں کو پاکستان یا چین نواز بتا دیتی تھی اب اس میں نکسل نوازی کے نئے الزام کا اضافہ ہوگیا ہے ۔ آر ایس ایس کا ڈھول پیٹنے والے کرشنن کے مقابلے سدرشن نے میڈیا میں یہ کہہ کر سدرشن چکر چلا دیا کہ انہیں ہرجماعت سے حمایت کی امیدہے کیونکہ وہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ مستقبل میں اس کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ موصوف نے یہ چونکانے والاانکشاف کیا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ وہ دیگر علاقائی جماعتوں سے بھی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی آر ایس اور وائی ایس آر سی پی جیسی جماعتوں سے بات چیت جاری ہے اور مؤخر الذکر نے حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے ۔
آج کل بی جے پی کے ستارے گردش میں چل رہے ہیں ۔ آئے دن کوئی نہ کوئی گڑا مردہ قبر سے باہر ان کے لیے مسائل کھڑے کردیتا ہے ۔ کبھی اڈانی کے زیر انتظام بندر گاہ پر ہزاروں کروڈ کی منشیات ضبط ہوتی ہیں تو کبھی فرضی جماعتوں کی تجوری میں ‘آدرش گجرات کے اندر ہزاروں کروڈ کی چندہ چوری منظر عام پر آجاتی ہے ۔ یہ چندہ چوری اس قدر دلچسپ ہے کہ دس گمنام جماعتوں کو جنہوں نے پچھلے تین انتخابات میں صرف 46امیدوار کھڑے کیے پھر بھی ان کو 3400 ہزار کروڈ کا چندہ مل گیا اور ووٹ ملے کل 56ہزار۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بے نامی پارٹیوں کو ملک مختلف مقامات سے بی جے پی کے کہنے پر چندہ دلوایا گیا۔ وہ روپیہ ٹیکس بچانے کے بعد یا تو انہیں لوٹا دیا گیا یا بی جے پی نے استعمال کرلیا۔اس طرح اب ووٹ چوری کے بعد نوٹ چوری کے معاملے میں کمل والے پھنس گئے ہیں۔ ان لوگوں نے اب اس ڈھٹائی سے لوٹ مار شروع کردی ہے کہ شعلے کاگبرّ سنگھ بھی شرما جائے لیکن یہ فلم اب بڑی تیزی سے اپنے کلائمکس کی جانب رواں دواں ہے ۔ حزب اختلاف کے ٹھاکر راہل سنگھ کے ساتھ ویرو اورجئے کی طرح اکھلیش اور تیجسوی بھی چٹان کی مانندکھڑے ہیں۔ لگتاہے بہت جلد گبرّ نریندر اور اس کے سانبھا امیت شاہ کا کھیل ختم ہونے والا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول وجود پیر 01 ستمبر 2025
نائب صدر کے انتخاب میں امیت شاہ کا سیلف گول

ہندوتوا سے مسلمان غیر محفوظ وجود پیر 01 ستمبر 2025
ہندوتوا سے مسلمان غیر محفوظ

نشہ یا کھیل ایک سوالیہ نشان؟ وجود پیر 01 ستمبر 2025
نشہ یا کھیل ایک سوالیہ نشان؟

پانی بھی تماشا ہے ! وجود پیر 01 ستمبر 2025
پانی بھی تماشا ہے !

پاکستان اور بنگلہ دیش دوستی کانیا سفر وجود اتوار 31 اگست 2025
پاکستان اور بنگلہ دیش دوستی کانیا سفر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر