... loading ...
حمیداللہ بھٹی
دہشت گردی سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں بلکہ یہ ناسور پورے خطے کے امن ،استحکام اور ترقی کی راہ میں ایسی رکاوٹ ہے جو غربت وافلاس اور بے روزگاری کی اہم وجہ ہے ۔روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ چاہے کالعدم ٹی ٹی پی جیسے شدت پسند گروہ ہوں یا پھر بی ایل اے اوراُس کا ذیلی گروپ مجید بریگیڈ ، قوم پرستی کا لبادہ اُڑھ کر دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ اِن کا یجنڈا قتل وغارت سے خوف وہراس پھیلانا ہے تاکہ تجارتی و معاشی سرگرمیاں نہ ہوں ،یہ تنظیمیں افغان حکام کی یقین دہانیوں کے باوجودافغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہیں اب جبکہ امریکہ نے بی ایل اے اور اِس کے ذیلی گروپ مجید بریگیڈ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے توکچھ بہتری آنے کی توقع ہے۔ نیز اِن تنظیموں کوبھارت سے ہتھیار،تربیت اور مالی مدد کی صورت میں ملنے والی بیرونی کمک کاخاتمہ ہو سکتاہے۔ کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات بہت اہم ہیں۔ پاک افغان قیادت وعدوں کے مطابق ذمہ داریاں پوری کرتی ہے تو یہ امن وترقی کی بنیادبن سکتے ہیں ۔سہ فریقی مذاکرات میں پاک چین و افغان وزرائے خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں ، تجارتی تعلقات کو مزید وسعت دینے کے علاوہ معاشی تعاون کے عزم کا اعادہ کیا ہے جس سے اُمید ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کی جاری مُہم کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔
چین اور پاکستان ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ اِس لیے معاشی ،تجارتی اور دفاعی تعاون فروغ پزیر ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر اور قریبی بنانے میں بھی چین کااہم اور فعال کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس مئی کے آخری عشرے سے دونوں ملکوں کے سیاسی ،اور اقتصادی تعلقات میں بتدریج بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور تجارتی سرگرمیوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے لیکن اِس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ سلامتی کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور مجموعی تعلقات میں نمایاں بہتری کا فقدان رہا جس کی وجہ سے پاکستان کے افغانستان سے تحفظات ختم نہ ہوئے اب دونوں ممالک کو چین نے موقع دیا ہے کہ سی پیک کو وسعت دینے اور دہشت گردوں کی سرکوبی میںتعاون کریں۔ طالبان قیادت اِس موقع سے فائدہ اُٹھا کر افغانستان میں طویل ہوتے غربت و افلاس کے سائے ختم ،جبکہ دیگرایسے تنازعات کو بھی حل کر سکتی ہے جو دونوں ممالک میں بداعتمادی کا باعث ہیں۔جس طرح چین کے پاکستان کے ساتھ معاشی اور دفاعی مفادات ہیں ہمسایہ ہونے کے ناطے وہ افغانستان میں بھی امن وترقی کا خواہاں ہے چین نے پاک افغان قیادت کو معاشی منظر نامہ تبدیل کرنے کا نادر موقع دیا ہے لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب علاقائی سلامتی کے حوالے سے افغانستان صرف وعدے نہ کرے بلکہ عملی زمہ داریاں بھی پوری کرے خطے میں امن قائم ہو گاتو ہی سی پیک جیسے معاشی منصوبوں کی افغانستان تک توسیع ہو سکتی ہے ۔طالبان قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علاقائی تجارت بڑھے گی تو عوامی سطح پر خوشحالی کا سفر تیز ہو گا مگراِس کے لیے ایسے عملی اقدامات ناگزیرہیں جس سے پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کو یقین آئے کہ افغان سرزمین اب دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ وگرنہ سہ فریقی مذاکرات سے وابستہ امن کی توقعات پوری نہیں ہونگیں اور سیاسی و تجارتی پیش رفت کا دورانیہ بھی مختصر ہو سکتا ہے ۔
پاکستان اورافغانستان کے ساتھ چینی کردار سے سہ فریقی مذاکرات میں وسعت آئی ہے چین چاہتا ہے کہ ترقی وخوشحالی کویقینی بنانے کے لیے دہشت گردوں کا صفایا ہو اور طالبان اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف گروہوں کو استعمال نہ کرنے دیں۔ نیز پاکستان عالمی سطح پر ایسی سرگرمیوں کاحصہ نہ بنے جن سے طالبان حکومت سفارتی حوالے سے تنہا ہو خوش آئند پہلو یہ ہے کہ طالبان انتظامیہ نے چینی ہدایات قبول کرنے لگی ہے کیونکہ کابل میں اپنا سفارتخانہ بند نہ کرکے اُس نے طالبان کو عالمی سفارتی تنہائی سے بچایایہی فیصلہ روس سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا موجب بناہے۔ چین کا فیصلہ اُس کے اپنے مفادات کے لیے بھی بہتر ثابت ہوا ہے۔ اُس کی کمپنیاں خطرات سے محفوظ، افغانستان سے معدنیات نکالنے میں مصروف ہیں۔ اب بھی چینی دبائو کے نتیجے میں ہی افغان سرزمین پرطالبان کی طرف سے دہشت گردوں پر سختی ہورہی ہے، چاہے سی پیک منصوبوں کے استحکام کے لیے چین نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کیا ہے مگر پاکستان کی طرح افغانستان کا معاشی مستقبل بھی دہشت گردی کے خاتمہ سے منسلک ہے کیونکہ ٹی ٹی پی ،بی ایل اے سمیت جیسے شدت پسند اور قوم پرست گروہ جو آجکل پاکستان کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں وہ مستقبل میں افغانستان کے لیے بھی بدامنی درد سر بن سکتے ہیں کیونکہ دہشت گرد کسی کے مستقل دوست نہیں ہوتے بلکہ مالی طورپر مضبوط اور عددی اعتبارسے طاقتور ہو کر سرپرستوں سے بھی ٹکرا سکتے ہیں۔ لہٰذا طالبان اگر پورے ملک پراپنی رَٹ چاہتے ہیں تو امن کے حوالہ سے دہشت گردوں کی سرکوبی کے حوالہ سے اپنی یقین دہانیاں پوری کرنا ہوں گی، وگرنہ سہ فریقی مذاکرات مقاصد کے حوالہ سے لاحاصل ثابت ہوں گے۔
ایسے حالات میں جب کئی ممالک کے معدنی ذخائرخاتمے کے قریب ہیں پاکستان سے زیادہ ترمعدنیات نکالنے کا عمل شروع بھی نہیں ہو سکا۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق اِن معدنیات کا تخمینہ ٹریلین ڈالرز میں ہے جن سے پاکستان معاشی استحکام کی منزل حاصل کر سکتا ہے جس طرح چین ،روس سمیت دیگر ممالک کوافغانستان اپنی معدنیات بیچ کر آمدن حاصل کررہا ہے ،پاکستان بھی سنجیدگی کا مظاہر ہ کرے تومعدنیات ملکی ترقی کی کلیدبن سکتی ہیں۔ خوش قسمتی سے چین اور امریکہ کی کئی بڑی اور معروف کمپنیاں شراکت داری پر آمادہ وتیار ہیں ۔ بڑی رکاوٹ بدامنی ہے جسے ختم کرنانہایت ضروری ہے۔ اب جبکہ چینی دبائو کی وجہ سے مجبورہوکر طالبان اپنا رویہ مثبت بنانے کی یقین دہانی کرارہے ہیں تو دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی سمیت بی ایل اے اور مجیدبریگیڈ کے خلاف فوری طورپر فیصلہ کُن کارروائی کاآغاز کردینا چاہیے ۔اِس حوالے سے کسی سے نرمی یا رحمدلی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف چین اور امریکہ سے حاصل ہونے والاتعاون تبھی فائدہ مندہوسکتا ہے اگر بروقت فیصلے کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔
پاکستان معاہدے کرتے ہوئے اپنا مفاد مقدم رکھے اور توازن کی پالیسی جاری رکھے اور جب کبھی امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی نوبت آئے تو چین کو ترجیح دی جائے کیونکہ بھارت کے خلاف دفاع مضبوط بنانے اور افغان طالبان کو راہ راست پر لانے میں اُس کا کلیدی کردار ہے جبکہ امریکہ نے ایف سولہ دیتے ہوئے مشروط کردیاتھا کہ بھارت پر حملے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ نیز افغانستان سے انخلا کے بعد بھی پاکستان کویکسر نظرانداز کر دیا تھامگر چین نے معاشی طوپر دیوالہ ہونے سے بچانے کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی میں بھی کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کیا،سہ فریقی مذاکرات میں بھی پاکستان کے مفاد کاتحفظ کیاہے۔ اب بھارت بھی چین کے قریب ہونے کی کوشش کررہا ہے جس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭