... loading ...
محمد آصف
ہمارا معاشرہ آج کئی قسم کے مسائل سے دوچار ہے ۔ ان مسائل میں سب سے بڑا معاشی مسئلہ سودی نظام ہے ، جو اپنی مختلف صورتوں میں لوگوں کو جکڑ رہا ہے ۔ قرآن و سنت میں سود کو سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے لیکن افسوس کہ موجودہ دور میں سود کو مختلف ناموں اور طریقوں کے ذریعے جائز کاروبار کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے ۔ انہی صورتوں میں سے ایک”قسطوں کا نظام”ہے جو بظاہر عوام کی سہولت کے لیے متعارف کرایا گیا لیکن درحقیقت یہ سود خوری کی ایک جدید شکل بن چکا ہے ۔ قسطوں کی آڑ میں عوام کو معاشی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے اور معاشرے میں غیر متوازن رویے جنم لے رہے ہیں۔
قسطوں کا رجحان اور ظاہری سہولت
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں قسطوں پر اشیاء خریدنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ آج موٹر سائیکل، کار، موبائل فون، گھریلو برقی آلات، حتیٰ کہ کپڑے اور جوتے بھی قسطوںپر دستیاب ہیں۔ بظاہر یہ ایک سہولت ہے کہ لوگ فوری طور پر اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں اور بعد میں آسان قسطوں میں رقم ادا کر دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قسطوں کے نام پر اشیاء کی قیمت میں غیر ضروری اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک موٹر سائیکل جس کی نقد قیمت 1 لاکھ روپے ہے ، قسطوں پر وہی موٹر سائیکل 1 لاکھ 40 ہزار یا اس سے زیادہ میں فروخت کی جاتی ہے ۔ یہ اضافہ دراصل وقت کے بدلے لیا جانے والا معاوضہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق سود کے زمرے میں آتا ہے ۔
قسطوں کے نظام میں سودی پہلو
قسطوں کی آڑ میں سود خوری کے کئی طریقے رائج ہیں: سب سے عام طریقہ یہ ہے کہ چیز کی نقد قیمت کم رکھی جاتی ہے لیکن قسطوں پر خریدنے والے سے زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے ۔ اگر خریدار کسی وجہ سے قسط بروقت ادا نہ کر سکے تو اس پر بھاری جرمانہ لگایا جاتا ہے جو مزید سودی بوجھ ہوتا ہے ۔ بعض ادارے یا کمپنیاں قسطوں کے نام پر فائلنگ فیس، سروس چارجز اور دیگر اخراجات کے طور پر اضافی رقم وصول کرتی ہیں۔ بینک اور مالیاتی ادارے قسطوں کی سہولت کے ساتھ”مارک اپ” کی شرح طے کرتے ہیں جو دراصل سود ہی ہے ۔
عوام کا استحصال
قسطوں کے اس نظام کا سب سے زیادہ نقصان غریب اور متوسط طبقہ اٹھاتا ہے ۔ ان کے پاس نقد رقم نہ ہونے کی وجہ سے وہ قسطوں کا سہارا لیتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اصل قیمت سے کہیں زیادہ رقم ادا کرتے ہیں۔ یوں یہ سہولت ان کے لیے بوجھ اور معاشی غلامی میں بدل جاتی ہے ۔ کئی خاندان قسطوں کے جال میں پھنس کر اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ان ادائیگیوں میں صرف کر دیتے ہیں، جس سے گھریلو اخراجات اور دیگر ضروریات متاثر ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قرض اور قسطوں کا چکر ان کی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتا ہے اور سکون و اطمینان غائب ہو جاتا ہے ۔
سماجی اثرات
قسطوں کی آڑ میں سود خوری معاشرے پر نہایت خطرناک اثرات ڈال رہی ہے ۔ معاشرتی بے سکونی: قسطوں کے بوجھ کی وجہ سے گھریلو جھگڑے اور ذہنی دباؤ بڑھتا ہے ۔
فضول خرچی اور نمود و نمائش
قسطوں کی آسان سہولت نے لوگوں کو غیر ضروری اشیاء کی طرف مائل کر دیا ہے ۔ لوگ اپنی آمدنی سے بڑھ کر چیزیں خریدتے ہیں تاکہ دوسروں کو متاثر کر سکیں۔
غربت میں اضافہ
قسطوں کے سودی بوجھ نے غریب کو مزید غریب اور امیر کو مزید امیر بنا دیا ہے ۔
اعتماد کا فقدان
قسطوں کی عدم ادائیگی پر ضبطی اور قانونی کارروائی کی وجہ سے خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان اعتماد ختم ہو رہا ہے ۔
سود کی مذمت اور اسلام کا نقطئہ نظر
اسلام نے سود کو صریحاً حرام قرار دیا ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :”اللہ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔”
(البقرہ: 275) ایک اور مقام پر سودی کاروبار کرنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول ۖ کے ساتھ جنگ کا اعلان کرنے والا کہا گیا ہے ۔ (البقرہ: 279)۔اسلام قسطوں پر خرید و فروخت کو کلیتاً منع نہیں کرتا۔ اگر کسی چیز کی قیمت ایک بار طے کر دی
جائے ، چاہے وہ نقد ہو یا قسطوں پر، تو یہ جائز ہے ۔ لیکن اگر وقت کے بدلے قیمت میں اضافہ کیا جائے یا تاخیر پر جرمانہ لیا جائے تو یہ سود میں شمار ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے آج قسطوں کا جو نظام رائج ہے وہ زیادہ تر سودی اصولوں پر مبنی ہے ۔
قسطوں کی آڑ میں بڑھتی حرص اور لالچ
قسطوں نے معاشرے میں ایک اور بیماری کو بھی جنم دیا ہے اور وہ ہے حرص و لالچ۔ لوگ ان اشیاء کو بھی قسطوں پر خریدنے لگے ہیں جو ان کی بنیادی ضرورت نہیں ہوتیں۔ موبائل فون کی نت نئی اقساط، برانڈڈ کپڑے ، اور پرتعیش سامان لوگوں کو اپنی استطاعت سے بڑھ کر زندگی گزارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ طرزِ زندگی قرض کے جال کو مزید پھیلا رہا ہے اور انسان کو سکون سے دور کر رہا ہے ۔
حکومت اور اداروں کی ذمہ داری
ملک میں سودی نظام کے خاتمے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے چاہییں۔ قسطوں کے نظام کو قانونی دائرے میں لا کر اس میں موجود سودی پہلوؤں کو ختم کیا جائے ۔ سودی جرمانوں اور مارک اپ کے خلاف قانون سازی کی جائے ۔ اسلامی بینکاری کے تحت قسطوں کا ایسا طریقہ کار بنایا جائے جس میں عوام کو سہولت بھی ملے اور سود سے بھی بچا جا سکے ۔ اس مقصد کے لیے علمائ، ماہرین معیشت اور حکومتی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
عوام کی بیداری
عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس سودی جال میں پھنسنے سے بچیں۔ اپنی ضرورت کو خواہش پر ترجیح دیں اور صرف وہی چیز خریدیں جس کی اشد ضرورت ہو۔ قسطوں کا معاہدہ کرنے سے پہلے اچھی طرح پڑھیں اور یہ جانچیں کہ اس میں کوئی سودی پہلو تو شامل نہیں۔ اسلامی بینکاری اور شرعی اصولوں کے مطابق قسطوں کے طریقے اپنانے کی کوشش کریں۔ اگر معاشرے میں عوام سود سے بچنے کا عزم کر لیں تو سودی کاروبار اپنی جگہ خود بخود کمزور پڑ جائے گا۔
نتیجہ
قسطوں کی آڑ میں سود خوری آج کے دور کا ایک بڑا سماجی ناسور ہے جس نے عوام کو معاشی غلامی میں جکڑ لیا ہے ۔ بظاہر سہولت کے نام پر یہ نظام حقیقت میں استحصال اور سودی کاروبار کی نئی شکل ہے ۔ یہ نہ صرف افراد اور خاندانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ پورے معاشرے کو عدم استحکام کی طرف لے جا رہا ہے ۔ اسلام نے سود کو ہر حال میں حرام قرار دیا ہے اور اس کا متبادل عدل و انصاف پر مبنی تجارتی اصول فراہم کیے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور فرد اور بطور معاشرہ سودی قسطوں کے نظام سے خود کو بچائیں، اسلامی طریقہ اپنائیں اور ایک ایسا معاشی ماحول قائم کریں جو برکت، سکون اور انصاف پر مبنی ہو۔
٭٭٭