وجود

... loading ...

وجود

بی ایل اے کی دہشت گردی

جمعه 22 اگست 2025 بی ایل اے کی دہشت گردی

ریاض احمدچودھری

امریکہ نے کالعدم بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم بی ایل اے اور اس کا ذیلی گروپ کالعدم مجید بریگیڈ عالمی دہشت گرد تنظیم ہے۔ بی ایل اے کو 2019ء میں عالمی دہشت گرد گروپ قرار دیا گیا تھا۔ بی ایل اے نے کراچی ائر پورٹ اور گوادر کمپلیکس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بی ایل اے نے حال ہی میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 31 افراد شہید اور 300 یرغمال بنائے گئے تھے۔
پاکستان نے امریکہ کی جانب سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشتگرد قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی ایل اے اور مجید بریگیڈ نے لسانیت اور حقوق کے نام پر معصوموں کا خون بہایا۔ دہشت گردی، دہشت گردی ہے۔ کوئی بھی مقصد شہریوں کے قتل کو جائز نہیں بنا سکتا۔ دنیا کو دہشت گردی کی اس لعنت کے خاتمے کیلئے متحد ہونا ہوگا۔ امریکہ کا یہ فیصلہ پاکستان کی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔ جلد ان کالعدم تنظیموں کے سہولت کار بھی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل ہوں گے۔ کلبھوشن اور دیگر شواہد جو پاکستان کی جانب سے دیئے گئے وہ ثابت ہو گئے ہیں۔ ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت رہے ہیں۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ فرنٹ پر رہا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارے جوان اور شہری شہید ہوئے ہیں۔ ہمارا مؤقف مغرب، امریکہ اور دنیا بھر میں قبول کیا جا رہا ہے۔
بھارت کی پراکسیز پر پابندی پاکستان کی جیت ہے۔ مختلف ممالک کے ذریعے ان کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ ہوتی ہے۔ یہ دہشتگرد ڈالرز کمانے کیلئے مدارس، سکولوں پر حملے کرتے ہیں۔ بھارت دہشتگرد گروپوں کی فنڈنگ اور ٹریننگ کرتا ہے۔ بھارت کا بیانیہ جھوٹ پر مشتمل تھا۔ وہ آج ایک بار پھر ہارا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بارہا عالمی سطح پر یہ کوشش کی گئی کہ بھارت کی پشت پناہی میں سرگرم علیحدگی پسند گروہوں کو بے نقاب کیا جائے۔ لیکن کئی بار بھارتی لابنگ اور عالمی دباؤکی وجہ سے پاکستان کی کہیں شنوائی ہوئی کہیں نہ ہوئی۔ بھارت مسلسل ان گروہوں کی مالی و عسکری مدد کرتا رہا تاکہ بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے اور علیحدگی کی فضا پیدا کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی سرپرستی بھارت کر رہا ہے۔ بھارت پاک چین اقتصادی راہ داری اور پاکستان میں اپنے لے پالک دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے خاتمے سے پاگل پن کا شکار ہے۔بھارت بلوچستان میں مداخلت کر کے امن و امان کی صورت حال بگاڑنے اور بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کے خلاف ابھارنے میں سرگرم ہے۔ لیکن بلوچستان میں فوجی آپریشن کے بعد بلوچ نوجوانوں کا بیرون ملک جا کر پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو جانا ملک کی سلامتی کے لئے خطرے کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر برطانیہ میں مقیم بلوچ علیحدگی پسندوں کا ایک گروپ پاکستان دشمن پروپیگنڈے پر مبنی زہر آلود لٹریچر بھی تقسیم کر رہا ہے۔سوئٹزرلینڈ کے مختلف شہروں میں آزاد بلوچستان کے بینر آویزاں کیے گئے جس میں بلوچستان میں ہونے والی نام نہاد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔
ا ب بھارت مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے بلوچستان کے معاملے کو اچھال رہا ہے۔ اس کا ثبوت بی ایل اے کی جانب سے میڈیا کے مثبت کردار پر تنقید ہے۔ علیحدگی پسند رہنما گہرام بلوچ کا کہنا ہے کہ ہم بلوچستان و پاکستان کے تمام صحافتی اداروں ، جرنلسٹ فورمز،پریس کلبز،اخباری مالکان ، ہاکرز انجمن ،کیبل آپریٹرزسمیت انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ مقبوضہ بلوچستان میں میڈیا کی یکطرفہ رویہ اور سرکاری بیانیہ پر تکیہ کرنے والے نہ صرف ہماری بلکہ بلوچ قوم کی اْس آواز کو سنا جائے جو پاکستانی بربریت کے نتیجے میں بلوچ ماں اور بہنوں کی آہ اور سسکیوں سے پیدا ہو کر عرش کو چھورہی ہیں،اس پر خاموشی انتہا قسم کی بد دیانتی ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ 17 فروری 2012 کو امریکی ایوانِ نمائندگان میں رکن ڈیانا روہرباچر نے بلوچستان میں حقِ خود ارادیت کے لئے ایک قرارداد پیش کی تھی۔ اس قرارداد کا متن یوں تھا:”بلوچستان کے عوام، جو اس وقت پاکستان، ایران اور افغانستان میں تقسیم ہیں، کو حقِ خود ارادیت اور اپنی خودمختار ریاست کے قیام کا حق حاصل ہے۔ انہیں عالمی برادری میں اپنی حیثیت کے تعین کا موقع ملنا چاہیے، یہ فیصلہ آزادانہ اور کسی بیرونی دباؤ یا جبر کے بغیر ہونا چاہیے۔ بلوچ عوام ایک قدیم اور منفرد قومی، ثقافتی اور مذہبی شناخت رکھتے ہیں۔ تاریخ میں یہ خطہ خانیتِ قلات کے طور پر آزاد رہا، مگر بعد میں برطانوی اور ایرانی تسلط کے باعث تقسیم ہوا۔ پاکستان میں شمولیت کے بعد بلوچ عوام کو مسلسل سیاسی و معاشی محرومی، ریاستی جبر اور عسکری کارروائیوں کا سامنا رہا، جس سے ان میں مزاحمت پیدا ہوئی۔ ایران میں بھی بلوچ برادری نسلی اور مذہبی بنیادوں پر امتیاز اور تشدد کا شکار ہے۔ امریکی پالیسی انسانی حقوق کی پامالی اور جبر کی مخالف ہے، لہٰذا بلوچستان کے عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ “قرارداد میں جو تحفظات تھے سارے بے بنیاد، لغو اور جھوٹ تھے۔ ایک ایک لفظ سے بھارتی ذہنیت کی بدبو آتی ہے۔”یہ قرارداد بعد میں ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امور کو بھیج دی گئی، لیکن وہاں اس پر مزید کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ نہ اس پر بحث ہوئی، نہ ووٹنگ، اور یوں یہ کمیٹی ہی میں ختم ہو گئی۔ امریکی قانون سازی میں جب کوئی بل یا قرارداد کمیٹی سے باہر نہ نکلے تو کانگریس کی مدت پوری ہونے پر وہ خود بخود کالعدم ہو جاتی ہے۔ اس قرارداد کا مقصد ایک تو بھارت کے ایما پر دباو? ڈالنا تھا، مگر اس کا پیش ہونا ہی امن پسند دنیا کے لیے تشویش کا باعث اورلمحہ فکریہ تھا کیونکہ یہ دہشتگردی کے بیانیے کو جواز دینے کے مترادف ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
قسطوں کی آڑ میں سود خوری:ایک سماجی ناسور وجود جمعه 22 اگست 2025
قسطوں کی آڑ میں سود خوری:ایک سماجی ناسور

بی ایل اے کی دہشت گردی وجود جمعه 22 اگست 2025
بی ایل اے کی دہشت گردی

الاسکاسربراہی ملاقات وجود جمعرات 21 اگست 2025
الاسکاسربراہی ملاقات

بھارتی فوجیوں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ وجود جمعرات 21 اگست 2025
بھارتی فوجیوں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ

نئے سیاسی دھماکے کی تباہی وجود جمعرات 21 اگست 2025
نئے سیاسی دھماکے کی تباہی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر