... loading ...
حمیداللہ بھٹی
جنگ بندی کافیصلہ نہیں ہو سکا۔ مگرامریکی ریاست الاسکامیں صدرپوٹن اورصدرٹرمپ کی ملاقات کو نتائج و اثرات کے حوالہ سے دیکھیں توبھی یہ ایک بڑی پیش رفت ہے، چاہے مغربی ممالک مایوسی کا شکار ہیں ۔کیونکہ وہ جنگ بندی کے حوالہ سے خاصے پُرامید تھے کہ امریکی صدر روسی ہم منصب سے جنگ بندی کا وعدہ لیکر ہی واپس لوٹیں گے۔ ٹرمپ خود بھی ایک سے زائد بار کہہ چکے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں ۔یہی توقع لیکرانھوں نے اپنے ملک کی ریاست میں روسی ہم منصب ملاقات کی اور مہمان کا فقیدالمثال استقبال کیا ۔مگر بظاہر سربراہی ملاقات سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں اور جنگ بندی کے لیے صدرٹرمپ کی کاوشیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں ۔لیکن ملاقات کامثبت پہلو یہ ہے کہ ا گلی ملاقات پر اتفاق ہو گیا ہے جو روسی دارالحکومت ماسکو میں ہو گی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔یہ روس کے بدلتے تیورکی طرف اِشارہ ہے ۔شاید روسی صدر ایسا تاثر نہیں دینا چاہتے کہ وہ صدرٹرمپ کو ہر قیمت پر ناکام ثابت کرناچاہتے ہیں یا جنگ بندی کے خواہش مند عالمی رہنمائوں کو سننا ہی نہیں چاہتے۔ ماسکو ملاقات کا عندیہ دراصل جنگ بندی کی ہی خواہش ہے۔ لہٰذا بھلے الاسکا سربراہی ملاقات سے وابستہ اُمیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ ماسکو ملاقات یااِس سے قبل جنگ بندی کاامکان موجود ہے ۔
الاسکا جو رقبے کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اگر روس اور امریکی صدور آج سے ڈیڑھ صدی قبل ملتے تو امریکی صدر کے میزبان روسی صدر ہوتے کیونکہ یہ علاقہ کبھی روسی ملکیت تھاجسے بہتر لاکھ ڈالر میں امریکہ نے خرید کراپناحصہ بنایا۔ ابتدا میں ا سے احمقانہ خریداری کہا گیا مگر اب یہ علاقہ تیل،قدرتی گیس اور سونے کے وسیع معدنی ذخائر کی بدولت امریکی معیشت کا اہم ترین حصہ ہے۔ الاسکا سے روس محض پچاس میل دورہے۔ پندرہ اگست کو روسی وفد صرف آبنائے بیرونگ عبورکرنے کے بعد امریکی علاقے میں داخل ہو کر سربراہی ملاقات کاحصہ بنا۔
صدرٹرمپ اور صدر پوٹن کے مزاج میں بہت فرق ہے۔ اگر ٹرمپ بڑبولے مشہور ہیں تو پوٹن کم الفاظ میں مدعا بیان کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ٹرمپ کا پس منظر فوجی نہیں سرمایہ کارکاہے جبکہ پوٹن ایک ایسے ماہر جاسوس رہ چکے ہیں جو ہرلمحہ حریف پر وار کرنے کاموقع تلاش کررہاہو۔ ٹرمپ دھمکا کراگر مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پوٹن عملی طورپر حریف کو اِس قدربے بس کر دینے پریقین رکھتے ہیں کہ مخالف فریق بغیر کسی حیل وحجت تمام مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہی کچھ یوکرین میں ہورہا ہے۔ یوکرین کو نیٹو سے دور رکھنے اور معدنیات کی آڑ میں امریکی داخل ہونے سے روکنے کے لیے پوٹن پُرعزم ہیں ۔مزاج کا یہ فرق الاسکاسربراہی ملاقات میں نمایاں رہا لیکن ملاقاتیں اور مذاکرات جاری رکھنے کا غیر معمولی فیصلہ مایوسی کی نفی کرتا ہے۔ پسِ پردہ روابط بھی جاری ہیں جن کا مقصد جنگ بندی ہے جو ٹرمپ کے ڈیل میکرامیج کوبرقرار رکھتا ہے۔
24فروری 2022کو یوکرین پر حملے کے بعدسے پوٹن مسلسل ایسا تاثر دے رہے تھے کہ یوکرین کے حوالے سے وہ کسی عالمی دبائو کوخاطر میں نہیں لائیں گے مگر امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں کے بل بوتے پر یوکرین نے اپناخوب دفاع کیاہے اور حملہ آور روسی افواج کی توقع سے بڑھ کر مزاحمت کی ہے۔ ڈرونز اور میزائل حملوں سے نہ صرف بری فوج کی پیش قدمی سُست کی بلکہ خودکش ڈرونز سے رواں برس ہی روسی فضائیہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے ،جس پر روس کے دفاعی حلقے حیران ہیںاورملک کے اندرسے بھی اب جنگ بندی کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ یہ جنگ سے تھکاوٹ ہے ۔ظاہر ہے ایسی آوازوں اور حالات سے پوٹن بھی یکسر لاعلم نہیں ۔البتہ اعتماد اور اطمنان کا تاثر دیکر زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش میںہیں ۔یوکرین جنگ بندی کرانے میں ٹرمپ کامیاب نہیں ہو سکے ۔لیکن پوٹن سے معاہدہ نہ ہو سکنے کی باتیں کسی حد تک ابھی اِس لیے بھی قبل ازوقت ہیں کہ کسی تعطل کے بغیر بات چیت کا جاری عمل کسی تصفیے کی راہ ہموار کر سکتاہے ۔
یہ درست ہے کہ صدر پوٹن نے یوکرین جنگ کے حوالے سے فوری رعایت سے انکار کرتے ہوئے جنگ بندی کی تجاویز قبول نہیں کیں جس پر مغربی ممالک امریکہ سے مِل کر سخت پابندیاں لگانے کے خواہاں ہیں۔ ٹرمپ کی آرزو تو یہ تھی کہ بات چیت کا ایجنڈا محدودنہ رہے بلکہ کھلے دل سے ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی حاصل کی جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ روسی صدر یوکرین جنگ پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے خواہشمند ہیں بھی یانہیں ۔بظاہر پوٹن کی بجائے صدرٹرمپ آگے بڑھنے کی بجائے کئی قدم پیچھے ہٹتے محسوس ہوئے۔ الاسکا ائر بیس میں ہونے والی بات میں پوٹن کا رویہ قدرے سخت محسوس ہوا۔مگر پوٹن نے ٹرمپ کوبالکل ہی مایوس نہیں کیا وگرنہ اگلی ملاقات کا عندیہ ہر گز نہ دیتے۔
الاسکا ملاقات کے بعد دونوں صدور نے ذرائع ابلاغ سے خلافِ توقع مختصر بات چیت کی ظاہرہے بتانے کے لیے بھی زیادہ کچھ نہ تھا اسی لیے خلافِ معمول صدر ٹرمپ نے کوئی سوال قبول نہ کیا البتہ پوٹن نے جنگ کی بنیادی وجوہات پر بات کرنے پر زور دیتے ہوئے خبردار کردیا کہ یوکرین اور مغربی ممالک جنگ بندی کے لیے امریکہ سے ہونے والی پیش رفت میں خلل ڈالنے سے باز رہیں اگلے اجلاس بارے ٹرمپ کی خواہش پر ہی پوٹن نے ماسکو میں میزبانی کی پیشکش کی جس کے بعد ٹرمپ کا الاسکا میں عظیم اور کامیاب دن کی بات میں وزن لگتاہے ۔
روس و یوکرین جنگ بندی ناممکن نہیں ۔اگر امریکہ اور مغربی ممالک یہ یقین دہانی کرادیں کہ یوکرین کو نیٹو کا رُکن نہیں بنائیں گے کیونکہ ایسا ہونے سے پوٹن کو خدشہ ہے کہ روس کے خلاف یوکرین نیٹو کا میزائل فائر کا مرکز بن سکتا ہے۔ اسی لیے نیٹو میں یوکرین کی شمولیت کو سرخ لکیر قرار دیتے ہیں مگر 2008سے یوکرین نیٹو میں شمولیت کا عندیہ دے رہا ہے۔ 2014میں کریمیا کھونے کے بعد بھی اُس نے روش تبدیل نہ کی تو آٹھ برس بعدمشرقی صنعتی مرکز ڈونباس اورلوہانسک سے بھی محروم ہو گیا۔ کمزور معیشت کا حامل یہ معدنی ذخائر سے مالا مال ملک روس اور امریکہ دونوں کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی ممالک کے اہم رہنمائوں کے ساتھ یوکرینی صدرزیلنسکی آجکل پھر امریکی دورے پر ہیں ٹرمپ سے رواں برس فروری میں تلخی پر منتج ہونے والی بات چیت کے بعد اُن کی امریکی صدر سے پہلی ملاقات ہے ۔اب وہ ٹرمپ کاوشوں پر تشکر کا اظہارنہیں بھولے پوٹن کے خیالات جاننے کے بعدیوکرینی صدرکو ٹرمپ کریمیا سمیت مختلف علاقوں سے فی الحال دستبردار ی پر راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پانا عین قرین قیاس ہے چاہے روس کی پوزیشن بالاتر ہی کیوں نہ رہے کیونکہ جنگ بندی کے بعد ہی یوکرینی معدنیات سے امریکہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔