وجود

... loading ...

وجود

سیلاب کی تباہ کاریاں:وجوہات، اثرات اور ہماری ذمہ داری

بدھ 20 اگست 2025 سیلاب کی تباہ کاریاں:وجوہات، اثرات اور ہماری ذمہ داری

محمد آصف

پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک اور بڑے سانحے سے گزر رہا ہے ۔ حالیہ مون سون بارشوں نے ملک کے مختلف حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، خصوصاً خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشوں اور طغیانی نے تباہی مچا دی ہے ۔ دریاؤں میں طغیانی، پہاڑوں پر بھاری بارشوں کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ اور اچانک آنے والے فلیش فلڈز نے نہ صرف مکانات، کھیت اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا بلکہ سیکڑوں قیمتی انسانی جانیں بھی نگل لیں۔ یہ سانحہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی طرزِ زندگی، کمزور منصوبہ بندی، اور ماحولیاتی غفلت کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔
سیلاب کی بنیادی وجوہات
پاکستان میں بار بار آنے والے سیلاب کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ غیر معمولی بارشوں کا تسلسل ہے جو ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے ۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مون سون کے سسٹم زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں اور ایک ہی وقت میں بہت زیادہ بارش برسنے لگتی ہے ۔ دوسری اہم وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے ۔ جب پہاڑ اور وادیاں درختوں سے خالی ہو جائیں تو بارش کا پانی جذب ہونے کے بجائے سیدھا بہاؤ میں آتا ہے اور فلیش فلڈز پیدا کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ غیر منصوبہ بند آبادی، دریاؤں کے کنارے مکانات کی تعمیر، ندی نالوں پر قبضہ، اور نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے بھی حالات کو مزید خطرناک بنا دیا ہے ۔ حکومتی سطح پر بروقت حفاظتی اقدامات کا فقدان بھی ان وجوہات میں شامل ہے جس نے نقصان کو کئی گنا بڑھا دیا۔
انسانی جانوں کا نقصان
حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ۔ کچھ لوگ چھتیں گرنے سے شہید ہوئے ، کچھ پانی کے بہاؤ میں بہہ گئے جبکہ کئی افراد لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے گرنے کی نذر ہو گئے ۔ دیہات میں جہاں طبی سہولیات اور ایمرجنسی خدمات کمزور ہیں، وہاں زخمیوں کو بروقت امداد نہ ملنے کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ اس طرح کے نقصانات نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے صدمہ ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہیں۔
معاشی اور سماجی اثرات
سیلاب نے معیشت پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، خاص طور پر چاول، مکئی، سبزیاں اور پھلوں کے باغات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ صرف کسانوں کا نقصان نہیں بلکہ ملک کی زرعی معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے ۔ کھیت اجڑنے کے بعد کسانوں کے پاس آئندہ فصل کا بیج، کھاد یا سرمایہ نہیں ہوگا، جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح گھروں کی تباہی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے ، جو اب عارضی خیموں اور پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسکول اور اسپتال بھی متاثر ہوئے ہیں، جس سے تعلیم اور صحت کے نظام میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
سیلابی ریلوں نے سڑکیں، پل، بجلی کے کھمبے اور پانی کی سپلائی کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ کئی مقامات پر زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے ، جس کی وجہ سے امدادی ٹیمیں بروقت متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ سکیں۔ بجلی کے بریک ڈاؤن اور موبائل نیٹ ورک کے مسائل نے صورتحال کو مزید ابتر کر دیا۔ سڑکوں کی تباہی نے تجارتی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے ، جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑ رہا ہے ۔
ماحولیاتی پہلو
سیلاب محض ایک وقتی آفت نہیں بلکہ ماحولیاتی توازن کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے زرعی زمین بنجر ہو جاتی ہے ۔ آلودہ پانی پینے سے وبائی امراض پھیلنے لگتے ہیں، جن میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ملیریا جیسی بیماریاں شامل ہیں۔ کھڑے پانی نے مچھروں کی افزائش کو بڑھا دیاہے ، جس سے ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی اور زمین کی بگاڑ نے ماحولیاتی نظام کو غیر متوازن کر دیا ہے ، جو مستقبل میں مزید خطرات پیدا کر سکتا ہے ۔
حکومت اور اداروں کی ذمہ داری
سیلاب جیسی آفات سے نمٹنے کے لیے حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ۔ مگر بدقسمتی سے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بروقت اقدامات نہیں کیے جاتے ۔ متاثرہ علاقوں کے لیے ریسکیو ٹیمیں اور ہیلی کاپٹرز دیر سے پہنچتے ہیں، امدادی سامان ناکافی ہوتا ہے اور متاثرین طویل عرصے تک بے یار و مددگار رہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے علاقوں میں فلڈ پروٹیکشن وال، بہتر نکاسیِ آب کے نظام اور پکے بند تعمیر کرے ۔ ساتھ ہی، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر پالیسی بنائی جائے جس میں ماحولیاتی تحفظ، شجر کاری، اور پانی کے ذخائر کی بہتری کو ترجیح دی جائے ۔
عوام کی اجتماعی ذمہ داری
یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کا فرض ہے کہ قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں جنگلات کی کٹائی روکنے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بارش کا پانی جذب ہو سکے ۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات ختم کی جائیں اور نکاسیِ آب کے راستوں پر تجاوزات نہ کی جائیں۔ شہری علاقوں میں بارش کے پانی کے انتظام کے لیے بارش کے ذخائر (Rainwater Harvesting) کا نظام اپنایا جائے ۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں اور محلوں میں نکاسی کا مناسب انتظام کرے تاکہ بارش کے پانی کی روانی متاثر نہ ہو۔
عالمی برادری کا کردار
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات سہہ رہے ہیں حالانکہ ہمارا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس لیے عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرے تاکہ ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا سکیں اور آفات سے نمٹنے کے قابل ہو سکیں۔ بین الاقوامی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ فوری طور پر امداد فراہم کریں اور طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کریں۔
ہماری آئندہ حکمت عملی
سیلاب سے بچنے کے لیے ہمیں ایک جامع حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔ سب سے پہلے ہمیں آفات سے نمٹنے کے اداروں کو مضبوط اور فعال بنانا ہوگا۔ دوسرے نمبر پر، ہمیں تعلیم اور آگاہی کے ذریعے عوام کو تیار کرنا ہوگا تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت ردعمل دے سکیں۔ تیسرے نمبر پر، ہمیں ڈیموں اور چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ دینی ہوگی تاکہ بارش کا پانی ضائع نہ ہو بلکہ مستقبل میں استعمال کیا جا سکے ۔ چوتھے نمبر پر، ہمیں زرعی شعبے میں ایسے طریقے اپنانے ہوں گے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔
نتیجہ
پاکستان میں حالیہ سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ہماری کمزوریوں اور غفلتوں کا آئینہ دار بھی ہے ۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر ہم نے بروقت اپنی پالیسیوں، رویوں اور طرزِ زندگی میں تبدیلی نہ کی تو مستقبل میں مزید بڑے سانحات ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ اگر ہم سب اپنی ذمہ داری نبھائیں تو نہ صرف موجودہ مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار پاکستان بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سیلاب کی تباہ کاریاں:وجوہات، اثرات اور ہماری ذمہ داری وجود بدھ 20 اگست 2025
سیلاب کی تباہ کاریاں:وجوہات، اثرات اور ہماری ذمہ داری

ایلچی ؟ وجود بدھ 20 اگست 2025
ایلچی ؟

آپ تجربے سے حکمت حاصل کرتے ہیں! وجود بدھ 20 اگست 2025
آپ تجربے سے حکمت حاصل کرتے ہیں!

ایس آئی آر کے پسِ پردہ این آر سی وجود منگل 19 اگست 2025
ایس آئی آر کے پسِ پردہ این آر سی

روس۔یوکرین کشیدگی اور سفارت کاری وجود منگل 19 اگست 2025
روس۔یوکرین کشیدگی اور سفارت کاری

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر