... loading ...
محمد آصف
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے ایک اور بڑے سانحے سے گزر رہا ہے ۔ حالیہ مون سون بارشوں نے ملک کے مختلف حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، خصوصاً خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بارشوں اور طغیانی نے تباہی مچا دی ہے ۔ دریاؤں میں طغیانی، پہاڑوں پر بھاری بارشوں کے نتیجے میں لینڈ سلائیڈنگ اور اچانک آنے والے فلیش فلڈز نے نہ صرف مکانات، کھیت اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا بلکہ سیکڑوں قیمتی انسانی جانیں بھی نگل لیں۔ یہ سانحہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی طرزِ زندگی، کمزور منصوبہ بندی، اور ماحولیاتی غفلت کی عکاسی بھی کرتا ہے ۔
سیلاب کی بنیادی وجوہات
پاکستان میں بار بار آنے والے سیلاب کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ غیر معمولی بارشوں کا تسلسل ہے جو ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے ۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مون سون کے سسٹم زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں اور ایک ہی وقت میں بہت زیادہ بارش برسنے لگتی ہے ۔ دوسری اہم وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے ۔ جب پہاڑ اور وادیاں درختوں سے خالی ہو جائیں تو بارش کا پانی جذب ہونے کے بجائے سیدھا بہاؤ میں آتا ہے اور فلیش فلڈز پیدا کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ غیر منصوبہ بند آبادی، دریاؤں کے کنارے مکانات کی تعمیر، ندی نالوں پر قبضہ، اور نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے بھی حالات کو مزید خطرناک بنا دیا ہے ۔ حکومتی سطح پر بروقت حفاظتی اقدامات کا فقدان بھی ان وجوہات میں شامل ہے جس نے نقصان کو کئی گنا بڑھا دیا۔
انسانی جانوں کا نقصان
حالیہ بارشوں اور سیلاب میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ۔ کچھ لوگ چھتیں گرنے سے شہید ہوئے ، کچھ پانی کے بہاؤ میں بہہ گئے جبکہ کئی افراد لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے گرنے کی نذر ہو گئے ۔ دیہات میں جہاں طبی سہولیات اور ایمرجنسی خدمات کمزور ہیں، وہاں زخمیوں کو بروقت امداد نہ ملنے کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ اس طرح کے نقصانات نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے صدمہ ہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہیں۔
معاشی اور سماجی اثرات
سیلاب نے معیشت پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، خاص طور پر چاول، مکئی، سبزیاں اور پھلوں کے باغات شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ صرف کسانوں کا نقصان نہیں بلکہ ملک کی زرعی معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے ۔ کھیت اجڑنے کے بعد کسانوں کے پاس آئندہ فصل کا بیج، کھاد یا سرمایہ نہیں ہوگا، جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح گھروں کی تباہی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے ، جو اب عارضی خیموں اور پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسکول اور اسپتال بھی متاثر ہوئے ہیں، جس سے تعلیم اور صحت کے نظام میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
سیلابی ریلوں نے سڑکیں، پل، بجلی کے کھمبے اور پانی کی سپلائی کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ کئی مقامات پر زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے ، جس کی وجہ سے امدادی ٹیمیں بروقت متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ سکیں۔ بجلی کے بریک ڈاؤن اور موبائل نیٹ ورک کے مسائل نے صورتحال کو مزید ابتر کر دیا۔ سڑکوں کی تباہی نے تجارتی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے ، جس کا براہِ راست اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑ رہا ہے ۔
ماحولیاتی پہلو
سیلاب محض ایک وقتی آفت نہیں بلکہ ماحولیاتی توازن کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ مٹی کے کٹاؤ کی وجہ سے زرعی زمین بنجر ہو جاتی ہے ۔ آلودہ پانی پینے سے وبائی امراض پھیلنے لگتے ہیں، جن میں ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ملیریا جیسی بیماریاں شامل ہیں۔ کھڑے پانی نے مچھروں کی افزائش کو بڑھا دیاہے ، جس سے ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جنگلات کی کٹائی اور زمین کی بگاڑ نے ماحولیاتی نظام کو غیر متوازن کر دیا ہے ، جو مستقبل میں مزید خطرات پیدا کر سکتا ہے ۔
حکومت اور اداروں کی ذمہ داری
سیلاب جیسی آفات سے نمٹنے کے لیے حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ۔ مگر بدقسمتی سے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بروقت اقدامات نہیں کیے جاتے ۔ متاثرہ علاقوں کے لیے ریسکیو ٹیمیں اور ہیلی کاپٹرز دیر سے پہنچتے ہیں، امدادی سامان ناکافی ہوتا ہے اور متاثرین طویل عرصے تک بے یار و مددگار رہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے علاقوں میں فلڈ پروٹیکشن وال، بہتر نکاسیِ آب کے نظام اور پکے بند تعمیر کرے ۔ ساتھ ہی، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر پالیسی بنائی جائے جس میں ماحولیاتی تحفظ، شجر کاری، اور پانی کے ذخائر کی بہتری کو ترجیح دی جائے ۔
عوام کی اجتماعی ذمہ داری
یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کا فرض ہے کہ قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں جنگلات کی کٹائی روکنے اور زیادہ سے زیادہ شجر کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بارش کا پانی جذب ہو سکے ۔ دریاؤں اور ندی نالوں کے کنارے غیر قانونی تعمیرات ختم کی جائیں اور نکاسیِ آب کے راستوں پر تجاوزات نہ کی جائیں۔ شہری علاقوں میں بارش کے پانی کے انتظام کے لیے بارش کے ذخائر (Rainwater Harvesting) کا نظام اپنایا جائے ۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں اور محلوں میں نکاسی کا مناسب انتظام کرے تاکہ بارش کے پانی کی روانی متاثر نہ ہو۔
عالمی برادری کا کردار
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات سہہ رہے ہیں حالانکہ ہمارا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس لیے عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو مالی اور تکنیکی مدد فراہم کرے تاکہ ہم اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا سکیں اور آفات سے نمٹنے کے قابل ہو سکیں۔ بین الاقوامی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ فوری طور پر امداد فراہم کریں اور طویل المیعاد منصوبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون کریں۔
ہماری آئندہ حکمت عملی
سیلاب سے بچنے کے لیے ہمیں ایک جامع حکمتِ عملی اپنانی ہوگی۔ سب سے پہلے ہمیں آفات سے نمٹنے کے اداروں کو مضبوط اور فعال بنانا ہوگا۔ دوسرے نمبر پر، ہمیں تعلیم اور آگاہی کے ذریعے عوام کو تیار کرنا ہوگا تاکہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت ردعمل دے سکیں۔ تیسرے نمبر پر، ہمیں ڈیموں اور چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر پر توجہ دینی ہوگی تاکہ بارش کا پانی ضائع نہ ہو بلکہ مستقبل میں استعمال کیا جا سکے ۔ چوتھے نمبر پر، ہمیں زرعی شعبے میں ایسے طریقے اپنانے ہوں گے جو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔
نتیجہ
پاکستان میں حالیہ سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ہماری کمزوریوں اور غفلتوں کا آئینہ دار بھی ہے ۔ یہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر ہم نے بروقت اپنی پالیسیوں، رویوں اور طرزِ زندگی میں تبدیلی نہ کی تو مستقبل میں مزید بڑے سانحات ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ اگر ہم سب اپنی ذمہ داری نبھائیں تو نہ صرف موجودہ مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار پاکستان بھی تعمیر کیا جا سکتا ہے ۔
٭٭٭