... loading ...
ب نقا ب /ایم آر ملک
سہیل وڑائچ کا حالیہ کالم ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے فائدہ کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ بظاہر مقصد اُن کی وکالت کرنا تھا مگر اس کے نتائج اُلٹے نکلے۔ کروڑوں عوام کی رائے کو رد کرنا، انصاف کے نظام کو مفلوج کرنا اور بے گناہوں سے بغیر ثبوت معافی کا مطالبہ کرنا کسی بھی زاویے سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ الیکشن سے قبل یہی وڑائچ صاحب تھے جو مقتدرہ کو ووٹر کو مایوس کرنے کے نسخے تجویز کرتے تھے۔ موصوف نے نون لیگ کی فتح کی نوید بھی دے دی تھی۔ لیکن عوام نے 8 فروری کو ایک نرم انقلاب برپا کر دیا۔ نوازشریف اور ان کی بیٹی اپنا الیکشن بھی ہار گئیں۔ اس کے بعد عجلت اور بھونڈے طریقے سے الیکشن فارم میں ردوبدل کا سلسلہ شروع ہوا، جس نے نظام کی ساکھ مزید متزلزل کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈنڈے اور ”اوور انجینئرنگ” پر کھڑا موجودہ ڈھانچہ آج تک اپنی جوازیت (legitimacy) حاصل نہیں کر سکا۔
تمام تر جبر اور دباؤ کے باوجود عوام آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کارکنان برسوں کی ناحق قید کاٹنے کے بعد جب جیلوں سے باہر آتے ہیں تو اُن کی زبان پر پھر بھی عمران خان اور انصاف کا نعرہ ہی بلند ہوتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے کسی بھی طاقت سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔لیکن کیا اس تمہید کے تناظر میں کھڑے ہوکر ہم ان مزاحمتی کرداروں کو بھول سکتے ہیں جو وقت کے آمروں کے مد مقابل اپنا سچ لے کر کھڑے ہو گئے، شورش کی کتاب موت سے واپسی کا ایک ایک صفحہ سچائی کی بے مول حقیقت پر حرف ِ آخر ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد ، مولاناظفر علی خان ، محمد علی جوہر ،مدیر تکبیر صلاح الدین کی جدوجہد ایک تاریخ نہیں بلکہ آزادی اظہار کے اس خواب کی بازگشت ہے جو نسلوں کے فکری ارتقاء اور ہزاروں قربانیوں کے بعد ممکن ہوا۔ارشد شریف کی جدوجہد ہمیں یاد دلاتی ہے کہ صحافت محض خبر رسانی نہیں بلکہ ضمیر کی ترجمانی ہے۔یہ ایک ایسی مقدس ذمہ داری ہے جو سچائی کے خار دار رستوں پر چل کر انسانی شعور کی آبیاری کرتی ہے۔تاہم آج 2025 میں یہ کالم لکھتے ہوئے میرا قلم مجھ سے سوال کرتا ہے کہ کیا واقعی آج کا قلم آزاد ہے یا وہ ریاستی جبر،سیاسی مفادات،مذہبی انتہاء پسندی،کارپوریٹ پریشر اور ٹیکنالوجی کی چکاچوند میں زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک بے بس قیدی ہے۔ ایک ایسا قیدی جسے سچ بولنے کی پاداش میں گولی،قید،اغوائ،بدنامی یا موت کی صورت میں سزا دی جاتی ہے۔آج کا صحافی وہ مسیحا نہیں جو خبر لاتا ہے بلکہ وہ خود ایک خبر بن چکا ہے۔ وہ کبھی لاپتہ ہو جاتا ہے تو کبھی اسکرین سے ہٹا دیا جاتا ہے۔کبھی سوشل میڈیا پر مصلوب کر دیا جاتا ہے تو کبھی شہر کے قبرستانوں میں بے نشاں دفنا دیا جاتا ہے۔پاکستان میں صحافت کی تاریخ بظاہر قلم کی،لیکن باطن میں خون کی تحریر ہے۔سلیم شہزاد ہو یا ارشاد مستوئی کی گولیوں سے چھلنی لاش،قوم کے بہادر بیٹے ارشد شریف کی شہادت ہو یا مشعال خان کی ویڈیو یا پھر کسی نڈر رپورٹر کی غیر نشر شدہ تحقیقاتی رپورٹ،ہر ایک سطر میں ایک اجتماعی گناہ دفن ہے۔صحافی وہ آئینہ ہے جو معاشرے کا اصل چہرہ دکھاتا ہے ،لیکن کیا سہیل وڑائچ کو اس معاشرے کا حقیقی آئینہ کہا جاسکتا ہے ،جو معاشرہ میں آئینے کو توڑ کر چکنا چور کر دینے والوں کے قصیدہ گو ہوتے ہیں کیونکہ چہرہ بدلنے کی ہم میں ہمت نہیں اور سچائی ہم دیکھ نہیں سکتے۔
المیہ صرف میرے ملک کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی صحافت ایک شدید بحران کا شکار ہے۔بھارت میں صحافیوں کو ملک دشمن قرار دینا معمول بن چکا ہے۔ترکی میں آزادی صحافت پر آہنی ہاتھ ہے۔روس میں صحافت ایک خفیہ ایجنسی کے ماتحت نظر آتی ہے۔چین میں سچ بولنا بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔میکسیکو میں رپورٹرز کا قتل معمولی بات بن چکا ہے جبکہ افغانستان میں صحافت کے نام پر صرف ماتم باقی ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق ہر سال درجنوں صحافی قتل کر دیے جاتے ہیں جبکہ سینکڑوں کو قید کیا جاتا ہے اور ہزاروں کو سنسر شپ کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔
آج صحافت کو سب سے بڑا چیلنج خود میڈیا سے ہے۔کارپوریٹ ایجنڈے، اشتہارات،ریٹنگز اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی دوڑ نے خبر کو پراڈکٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔سچ اب صرف تب تک نشر ہوتا ہے جب تک وہ مالی طور پر فائدہ مند ہو۔ بصورت دیگر سچ کو دفن کر دیا جاتا ہے یا مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی یلغار،ٹرینڈز کا جبر اور ایجنڈا سیٹنگ نے صحافت کو فالوورز کی غلامی میں دے دیا ہے۔صحافت کا بحران صرف بیرونی نہیں بلکہ داخلی بھی ہے۔خود صحافتی ادارے اس بحران کا شکار ہیں جو فکری آزادی کے بجائے وابستگی،ذاتی مفادات،سیاسی طرف داری اور معاشی تحفظ کے نام پر حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا صحافت زندہ ہے یا وہ فقط ایک اسٹریمنگ شور ہے جو ہر صبح ہمیں چیخ کر جگاتا تو ہے لیکن اندر سے بے جان ہو چکا ہے ۔عوام کو یہ شعور حاصل ہو کہ وہ جھوٹے پراپیگنڈے اور افواہوں کا ایندھن نہ بنیں بلکہ تحقیق،توازن اور دیانت کو اہمیت دیں۔عوام اور حکمران دونوں میں یہ سوچ پنپنی ضروری ہے کہ صحافت وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنے اجتماعی چہرے کو دیکھ سکتے ہیں۔اگر ہم اس آئینے کو ہی توڑ دیں گے تو پھر نہ صرف سچ برباد ہوگا بلکہ ہم خود اپنے وجود سے بیگانہ ہو جائیں گے اور جب انسان اپنے سچ سے بیگانہ ہو جائے تو وہ محض سانس لیتا ہے، جیتا نہیں۔آج کے دن ہم صرف صحافیوں کو خراج تحسین نہیں پیش کرتے بلکہ اس مقدس سچ کو سلام کرتے ہیں جسے وہ اپنی جانوں پر کھیل کر ہم تک پہنچاتے ہیں کیونکہ جب تک صحافت زندہ ہے، سچ زندہ ہے اور جب تک سچ زندہ ہے تب تک انسانیت کی سانس باقی ہے۔
بہرحال سہیل وڑائچ نے اپنے روایتی انداز میں اس بار بھی معاملے کو زیادہ چک دیا اور اس عمل نے عوامی غصے میں مزید اضافہ کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں ہمیشہ جدوجہد، استقامت اور مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ ڈنڈے کے فضائل بیان کرنے یا قصیدے پڑھنے سے نہ لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تحریکیں دبائی جا سکتی ہیں۔ ورنہ ہر ملک میں آج بھی کوئی آمر بیٹھا ہوتا جو اپنے آپ کو اور قوم کو یہ بتا رہا ہوتا کہ اُسے معاشرے کی اصلاح کے لئے اللہ نے یہ عہدہ دیا ہے۔
٭٭٭