... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
پاکستان میں آجکل احمقو ں کا مکمل راج قائم ہوگیا ہے۔ آپ کو وہ باآسانی بڑے سے بڑے ایوانوں ، ہائوسز اور بڑے بڑے اداروں کی بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان دکھائی دیے جاسکتے ہیں اور ا س دید ہ دلیری کے ساتھ وہ سارے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں کہ عقل و دانش رکھنے والے انہیں دیکھتے ہی سر پٹ دوڑ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہم اس لحاظ سے بھی انتہائی خو ش نصیب واقع ہوئے ہیں کہ تقریباً پوری دنیا سے نا پیدیہ انسانی مخلوق صرف اور صرف پاکستان میں ہی باآسانی دیکھنے ، سننے کو نصیب ہے لیکن ایک زمانے میں پوری دنیا اس مخلوق سے دو چار تھی پھر وہ ناپیدہوتے ہوتے اب صرف پاکستان تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ آپ چاہیں کتنی ہی کیوں نہ کوششیں کرلیں لیکن پھر بھی آپ احمقوں سے نہیں بچ سکتے، آپ کی تمام کوششیں اس لیے بے سود ہوجاتی ہیں کہ آپ تو ہر ممکن ان سے بچنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہوتے ہیں لیکن وہ خود آپ سے آکر ٹکرا جاتے ہیں۔ اس لیے اگر ان سے بچے کی کوشش کررہے ہیں تو آج ہی سے اپنی کوششیں ترک کردیں کیونکہ آپ زندگی بھر احمقوں سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ آپ ان سے بچ نہیں سکتے۔
ایک مشہور فلسفی برسوں سے اپنے طالب علموں کو سیاست اور اخلاقیات کی تعلیم دے رہا ہے۔ اس کے شاگرد اسے ناپسند کرتے ہیں، کیونکہ وہ مسلسل ان کی عقل کو حقیر سمجھتا ہے اور اس کے بارے میں شیخی بگھارتا ہے۔ایک دن، ایک نوجوان لڑکی کلاس میں اس سے ایک سادہ سا سوال پوچھنے کے لیے ہمت پیدا کرتی ہے: ”کوئی عقل کیسے حاصل کرتا ہے”؟یہ فلسفی کو آف گارڈ پکڑتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کیا کہنا ہے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کے سوال کا جواب نہیں جانتا، کیونکہ وہ اخلاقیات اور سیاسی فلسفے پر توجہ مرکوز کرتا ہے، علمیات پر نہیں۔لڑکی حیران ہو کر کہتی ہے کہ تم کتنے ہوشیار ہو اور ہم کتنے گونگے ہیں، لیکن تم اس سادہ سے سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ عقل کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کلاس قہقہوں سے گونج اٹھی۔
اگلے دن، فلسفی نے لڑکی سے کہا، ” کل تمہارے سوال کا جواب نہ دینے کی واحد وجہ یہ تھی کہ میرے پاس اس کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں تھا، ورنہ جواب آسان ہے۔ تم خود شناسی سے عقل حاصل کرتے ہو۔درحقیقت، حکمت حاصل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے”۔
لڑکی مسکراتی ہے، ”کیا آپ کو یقین ہے؟ اگر ہم خود سوچ کر ہی عقل حاصل کر سکتے ہیں تو ہم آپ سے کلاس کیوں لے رہے ہیں”؟فلسفی بے آواز ہے اور کلاس دوبارہ اس پر ہنسنے لگی۔
ایک عاجز فلسفی اگلے دن کلاس میں آتا ہے اور لڑکی سے مخاطب ہوتا ہے، ”میں معافی چاہتا ہوں کہ اتنے سالوں سے مغرور رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف کر سکتے ہیں۔ آپ نے مجھے ایک اہم سبق سکھایا ہے،آپ دوسروں سے حکمت حاصل کر سکتے ہیں ”۔لڑکی خوش ہے لیکن خوش ہونے کا فیصلہ کرتی ہے، ”تم احمق ہو۔ میں آپ سے کہیں زیادہ جانتا ہوں اور اس کلاس کو پڑھانا چاہیے، کیونکہ آپ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں سکھا سکتے”۔
فلسفی نے اپنا افتتاح دیکھا، ”واقعی؟ میں حکمت حاصل کرنے کا تیسرا طریقہ سکھانے والا تھا جس کا ہم میں سے کسی نے بھی ذکر نہیں کیا۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ آپ ہمیں بتا سکتے ہیں”۔لڑکی اپنے گھمنڈ پر افسوس کرتی ہے، ”میں نہیں کر سکتی”… اس کے ہم جماعتوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ شرمناک حد تک توقف کے بعد اس نے پوچھا، ”یہ کیا ہے”؟
”آپ تجربے سے حکمت حاصل کر سکتے ہیں۔ گھمنڈ کے لیے اس طبقے کے سامنے شرمندہ ہونے کے تجربے نے مجھے عاجزی سکھائی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ آپ کو بھی یہی سکھائے گا”۔
کنفیوشس نے کہا ہے کہ ”تین طریقوں سے ہم حکمت سیکھ سکتے ہیں: پہلا، غور و فکر سے، جو سب سے عظیم ہے۔ دوسرا، تقلید سے، جو سب سے آسان ہے۔ اور تیسرے تجربے کے لحاظ سے، جو سب سے تلخ ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔