... loading ...
محمد آصف
روس اور یوکرین کا تنازع اکیسویں صدی کے سب سے اہم جغرافیائی سیاسی مسائل میں سے ایک ہے ، جو عالمی سلامتی، معاشی استحکام
اور بین الاقوامی سفارت کاری کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے ۔ یہ کشیدگی تاریخی اختلافات، طاقت کی سیاست، اور اثر و رسوخ
کے مقابل دعوؤں میں جمی ہوئی ہے ۔ 2014کے بعد سے یہ تنازع تیزی سے بڑھا اور بالآخر فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر
مکمل حملے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ تصادم نہ صرف یوکرین کو تباہ کر رہا ہے بلکہ عالمی اتحادوں کو بھی از سرِ نو ترتیب دے رہا ہے ، بین
الاقوامی قانون کی ساکھ کو چیلنج کر رہا ہے اور عالمی اداروں کی کمزوری کو آشکار کر رہا ہے ۔ اگرچہ جنگ جاری ہے ، لیکن سفارت کاری ہی واحد
ممکنہ اور سب سے زیادہ مطلوبہ راستہ ہے ۔
اس تنازع کی جڑیں یوکرین کی اسٹریٹجک اہمیت اور روس کے ساتھ اس کے تاریخی تعلقات میں ہیں۔ صدیوں سے یوکرین مشرق اور
مغرب کے درمیان متنازع خطہ رہا ہے ۔ 1991میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد یوکرین ایک آزاد ریاست بنا، مگر روس نے کبھی
اس کے یورپ کی طرف جھکاؤ کو دل سے قبول نہیں کیا۔ 2014کے”میدان احتجاج” جس کے نتیجے میں روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ
معزول ہوئے ، ایک بڑا موڑ تھا۔ یوکرین کی یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ قربت روس کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھی گئی۔ اس کے ردعمل
میں روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیااور مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کی حمایت شروع کر دی، جس نے برسوں تک جنگ کو ہوا دی۔ 2022ء کی پیش رفت نے صورت حال کو عالمی بحران میں بدل دیا۔ روس نے اپنی مداخلت کو روسی بولنے والے عوام کے تحفظ اور نیٹو کی
توسیع کو روکنے کے بہانے سے درست قرار دیا۔ مگر یوکرین اور مغرب نے اسے کھلی جارحیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہا۔
اس جنگ نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا، ہزاروں ہلاک ہوئے اور بڑے بڑے شہر کھنڈر بن گئے ۔ یہ تنازع ایک وسیع انسانی المیے میں
بدل چکا ہے ، جس میں یوکرین مغربی امداد اور فوجی تعاون پر انحصار کر رہا ہے ۔ اس جنگ نے عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی، توانائی کی
منڈیوں اور سلامتی کے انتظامات پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔سفارتی کوششیں جنگ کی شدت کے سامنے ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
بیلاروس اور ترکی میں ہونے والے ابتدائی مذاکرات کسی حد تک امید افزا تھے لیکن جلد ہی عدم اعتماد اور بڑھتی ہوئی دشمنی کی وجہ سے ٹوٹ
گئے۔ یوکرین اپنی مکمل خودمختاری اور روسی افواج کے انخلا پر ڈٹا رہا جبکہ روس نے یوکرین کی غیر جانبداری اور علاقائی تبدیلیوں کی قبولیت پر
زور دیا۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین،ترکی اور چین جیسے ممالک کی ثالثی کی کوششیں بھی زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ نتیجتاً سفارتی جمود غالب رہا
کیونکہ دونوں فریق سمجھتے ہیں کہ میدانِ جنگ پر زیادہ کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
یہ تنازع عالمی اداروں کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل روس کے ویٹو کی وجہ سے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھا سکی۔
دوسری جانب نیٹو پہلے سے زیادہ متحد نظر آیا اور فن لینڈ و سویڈن نے روسی جارحیت کے خوف سے رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یورپی
یونین نے روس پر سخت پابندیاں لگائیں، جس سے اس کی معیشت، توانائی کے شعبے اور سیاسی اشرافیہ کو نشانہ بنایا گیا۔ مغرب کی یوکرین کو
فوجی و مالی امداد روس کا مقابلہ کرنے کی بنیادی حکمت عملی ہے ۔ مگر ان اقدامات نے عالمی سیاست میں مزید تقسیم پیدا کی ہے ، اور روس نے
چین، ایران اور دیگر غیر مغربی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں۔ سفارت کاری کا سب سے اہم سوال یوکرین کے مستقبل
کا ہے ۔ کیا یوکرین مغرب کے ساتھ جُڑ کر نیٹو اور یورپی یونین کا حصہ بنے گا یا روس کو راضی کرنے کے لیے غیر جانبداری قبول کرے گا؟
یوکرین کے لیے خودمختاری اور فیصلہ سازی کے حق پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ روس کے لیے نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع روکنا بقا کا
مسئلہ ہے ۔ یہی متضاد مؤقف سفارت کاری کو پیچیدہ بنا دیتا ہے ۔ تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے طویل تنازعات بھی بالآخر مذاکرات سے
ختم ہوتے ہیں، بشرطیکہ دونوں فریق سمجھیں کہ فوجی طاقت کے ذریعے مکمل حل ممکن نہیں۔ یہ تنازع یورپ سے باہر بھی عالمی سفارت کاری
کے لیے ایک امتحان ہے ۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک اس معاملے پر تقسیم ہیں۔ مغربی ممالک نے روس کی مذمت کی لیکن کچھ
ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی تاکہ اپنی معیشت، توانائی اور تاریخی تعلقات کو ترجیح دے سکیں۔ یہ تقسیم عالمی سیاست کی نئی حقیقت کو ظاہر
کرتی ہے جہاں اب صرف مغربی تسلط نہیں بلکہ کثیر قطبی نظام ابھر رہا ہے۔
معاشی نتائج نے صورت حال کو مزید مشکل بنا دیا ہے ۔ روس پر لگائی گئی پابندیاں اس کی جنگی مشین کو کمزور کرنے کے لیے تھیں لیکن ان
کے اثرات توانائی اور خوراک کی عالمی ترسیل پر بھی پڑے ۔ یورپ کو روسی گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنے پڑے ،
جبکہ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں خوراک کی کمی دیکھی گئی۔ یہ حالات دنیا بھر کی حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ سفارتی حل کے لیے زور
دیں۔پھر بھی سفارت کاری ناگزیر ہے ۔ طویل جنگ یوکرین کی مزید تباہی اور یورپ بھر میں بڑی جنگ یا ایٹمی تصادم کا خطرہ بڑھا سکتی
ہے۔ انسانی امداد کی راہداری، قیدیوں کا تبادلہ اور اناج کی ترسیل جیسے اقدامات یہ دکھاتے ہیں کہ محدود سفارت کاری اب بھی ممکن ہے ۔
انہی اقدامات کو ایک بڑے امن عمل میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ، جس میں یوکرین کے لیے سلامتی کی ضمانتیں، متنازع علاقوں پر
مذاکرات اور نیٹو و روس کے تعلقات کا مستقبل شامل ہو۔
سفارت کاری کے لیے تخلیقی سوچ اور لچک درکار ہے ۔ ایک ممکنہ فارمولا یہ ہو سکتا ہے کہ یوکرین کو مغرب کی طرف سے مضبوط سلامتی کی
یقین دہانیاں ملیں لیکن باضابطہ نیٹو رکنیت نہ دی جائے ، جبکہ روس بتدریج اپنی افواج واپس بلائے ۔ ایک اور طریقہ متنازع علاقوں میں بین
الاقوامی نگرانی میں ریفرنڈم کا ہو سکتا ہے ، حالانکہ یہ بہت متنازع ہے ۔ اسی طرح یوکرین کی تعمیرِ نو کے لیے مالی امداد روس پر عائد پابندیوں
میں نرمی کے ساتھ مشروط کی جا سکتی ہے ۔ بظاہر یہ تجاویز مشکل دکھائی دیتی ہیں لیکن سفارت کاری اکثر اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب
فوری حالات سے آگے سوچا جائے ۔ بالآخر روس۔یوکرین تنازع یہ ثابت کرتا ہے کہ فوجی طاقت کی ایک حد ہے اور اصل اہمیت سفارت
کاری کی ہے ۔ دونوں فریقین کو بھاری نقصان ہو رہا ہے ؛ یوکرین بربادی کا شکار ہے اور روس عالمی تنہائی کا سامنا کر رہا ہے ۔ جتنی دیر یہ
جنگ چلتی رہے گی، مفاہمت اتنی ہی مشکل ہو جائے گی۔ لیکن تاریخ یہ بھی دکھاتی ہے کہ سخت ترین دشمن بھی بالآخر مذاکرات کی میز پر آتے
ہیں۔ آج عالمی سفارت کاری کا اصل چیلنج یہی ہے کہ ایک ایسا راستہ نکالا جائے جو خودمختاری، انصاف اور امن کی بنیاد رکھ سکے ۔
روس۔یوکرین کشیدگی صرف ایک علاقائی جنگ نہیں بلکہ عالمی نظاموں کی کشمکش، بین الاقوامی قوانین کی کمزوری اور جدید تنازعات کے
حل کی مشکلات کی علامت ہے ۔ سفارت کاری میں بے شمار رکاوٹیں ہیں لیکن یہی امن کا واحد راستہ ہے ۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ
دونوں فریقین پر بامعنی مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالے اور نئے حل تلاش کرے ۔ امن آج دور دکھائی دیتا ہے ، مگر سفارت کاری کے بغیر وہ
ہمیشہ کے لیے دور رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔