... loading ...
بے لگام / ستار چوہدری
تاریخ بتاتی ہے ،سر جھکانے کی قیمت ملتی ہے ،سراٹھانے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ،سر ہمیشہ بونوں کا ہی جھکا ہے ،قیمت کیا ملتی ہے۔۔۔؟ عہدے اور ایوارڈز۔۔۔اور تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی، ہر شخص کے قد کی بہتر پیمائش کرتی ہے ۔۔۔ میں نے چھوٹے قد والوں کو دراز قد میں دیکھا ہے ،میں نے لمبے قد والے بونے بھی دیکھے ہیں۔۔۔ ابھی کل ہی شہر اقتدار میں ”بونوں کی منڈی” لگی،پوری قوم نے دیکھا کس کس کو سر جھکانے کی قیمت ملی۔۔۔ اور تمام بونے ”قیمت ” وصول کرکے کیمرے کے سامنے ”فاتحانہ” مسکراہٹ سجائے ہوئے تھے ،جس طرح تقریب صلہ فرماں برداری اور خدمت گزاری پر اٹھائی گیروں،پالش گیروں،چمچوں،کڑچھوں کو تمغے دیے گئے، قومی اعزازات کے ساتھ اس سے بڑا کوئی مذاق ہوسکتا ہے ۔۔۔ ؟ سوال ہے ،اگرزندگی میں تمغہ نہ ملے تو کیا ہوجائے گا۔۔۔؟ اگر مل جائے تو کیا ہوجائے گا۔۔۔؟ یہ بھی لوگ ہیں جنہوں نے اعزازات کو ٹھوکر ماردی تھی لیکن ان کی عزت ،شہرت پر کوئی اثر پڑا۔۔۔۔؟ یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں،معروف ناول نگار مستنصر حسین تارڑ نے پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز سے کمال فن ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا پاکستان کی جانب سے ایوارڈ دیے جانے کے ضوابط اور روایات کو توڑا گیا۔۔معروف سائنسدان پرویز ہود بھائی نے 2001 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ستارۂ امتیاز لینے سے معذرت کرلی تھی،ان کا موقف تھا سول ایوارڈز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔ سندھی دانشور تاک جویو نے 2020میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی لینے سے انکار کردیا،کیونکہ ان کے بیٹے کو ایوارڈ کے اعلان سے چند دن پہلے اغوا کرلیا گیا تھا،انہوں نے کہا جہاں ان کے بیٹے کو کوئی اغوا کرلے اور وہ وہاں وہ ایوارڈ کیسے وصول کریں۔۔۔ویرتا علی اجن نے اپنی مرحوم والدہ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کا2020میں ایوارڈ لینے سے انکار کیا،انہوں نے کہا تھا جس دور میں صحافیوں اور ادیبوں کے خلاف ریاستی جبر ہورہا ہو،وہ ایوارڈ کیوں وصول کریں،مزید کہا اگر ان کی والدہ زندہ ہوتیں تو وہ بھی یہی کرتیں۔۔۔سرائیکی شاعر اقبال سوکٹری نے فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں تمغہ حسن کارکردگی لینے سے انکار کردیا تھا۔۔۔ضمیر نیازی نے بے نظیر بھٹو کے دور میں اخبارات پر پابندیوں کے خلاف احتجاجاً تمغہ حسن کارکردگی لینے سے انکارکردیا تھا۔۔۔معروف شاعر احمد فراز نے جنرل پرویز مشرف سے ہلال امتیاز وصول کیا،2006میں بلوچستان میں فوجی مداخلت اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے خلاف احتجاجاً ایوارڈ واپس کردیا تھا۔۔۔ سندھی ادیب عطا محمد بھانبرو نے اپنے بیٹے کی جبری گمشدی اور بعد میں ملنے والی لاش پر تمغہ امتیاز واپس کردیا تھا۔۔ ۔ نسیم زہرہ اور زاہدہ حنا نے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تمغہ حسن کارکردگی لینے سے معذرت کرلی تھی۔۔۔سرائیکی شاعر اشو لال نے نظریاتی بنیادوں پر اکادمی ادبیات کے ایوارڈ کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔۔۔
حال ہی میں معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے فن تعمیر کے شعبے کا اہم عالمی ایوارڈ وولف فرائزلینے سے انکارکردیا تھا،اس ایوارڈ میں اسے دوکروڑ اسی لاکھ بھی ملنے تھے ،کہا تھا اس ایوارڈ کو وصول کرنا ضمیر کے خلاف ہے ۔۔۔ بھارتی اداکارہ کنگنا رناوت نے دوسرے بڑے فلمی ایوارڈ کی تقریب میں ایوارڈ لینے سے انکارکردیا، کہا تھا،ایوارڈ صرف ریٹنگ بڑھانے کیلئے دیے جاتے ہیں۔۔۔کیا۔۔۔احمد فراز،ہود بھائی،نسیم زہرہ،اشولال،زاہدہ حنا،یاسمین لاری،کنگا رناوت،عطا بھانبرو،ضمیر نیازی، ویرتا علی،تاک جویو، مستنصر حسین تارڈ کا قد چھوٹا ہوا۔۔۔؟کوئی شہرت،عزت میں فرق پڑا۔۔۔؟ نہیں بھائی !! یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ میں زندہ رہتے ہیں،امرہوجاتے ہیں،لوگ انکی مثالیں دیتے ہیں۔۔۔رواں سال ” بونوں کی منڈی ” دوبار لگی،قومی اعزازات کا کھل کر مذاق اڑایا گیا۔۔۔انگریز سرکار نے برصغیر کے اشرافیہ کو جاگیریں اورعہدے کسی بہادری پرنہیں، بلکہ بہترین دلالی پر دیے تھے ،جیسے یہ ایوارڈ ملے ہیں۔۔۔۔یہ تمغے نہیں،طوق ہوتے ہیں جو مُردہ ضمیر لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔ طوق کے ڈکشنری پر معنی دیکھے ،کیا لکھا تھا ”لوہے کا بھاری حلقہ جو مجرموں یا دیوانوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے تاکہ گردن نہ اٹھا سکیں”۔۔۔