... loading ...
ب نقاب /ایم آرملک
قارئین کی عدالت میں
قابل احترام دوست محمد طاہر کا شکوہ بھی یہی تھاکہ صفحہ قرطاس سے تم کٹ گئے ہو، ان کا شکوہ بھی بجا تھا ،یقینا تسلسل میں الجھائو نہیں ہوتا لیکن ایک ربط اور یکسوئی سے پڑھنے والے کو کوفت کا سامنا ضرور ہوتا ہے ،طاہر بھائی کی عظمت ہے کہ پہلی ملاقات ہی نہیں بھول پا رہی ،صدیوں کی مسافت پر کھڑے میرے جیسے لکھاری ان کی عظمت تک پہنچنے سے ہمیشہ قاصر رہتے ہیں ۔اس دوران مجھے شدت سے محسوس کیاگیا۔سراپااحتجاج دوست ملے ،لفظ اورباتیں سننے کوملیں !
ایسے دوست بھی تھے جوشناسا تھے ،اجنبی تھے جب اُنہوں نے صفحہ قرطاس پرمجھے تلاش کیاتوغصے بھرے جملوں کی بوچھاڑ تھی ، ہدف میری ذات تھی !یہی سچی محبت تھی تسلسل ٹوٹنے کامجھے بھی احساس ہوا۔لکھنے والے کی طاقت توپڑھنے والے ہوتے ہیں ناں !
مجھے آپ پرفخر ہے کہ مجھے پڑھ کرآپ کی کیفیت اس پانی کی طرح ہوتی ہے جوپرسکون ہوتاہے جس میں کوئی کنکر نہیں گرتا!
تسلسل ٹوٹنے کی ایک وجہ وطن عزیز میں زندگی کا وہ چلن ہے جو آج کل بہت بگڑا ہوا ہے ،جس ذہن کو دیکھیے اُلجھا ہوا ہے ،جس دھڑکن کو سنئے بے ترتیب سی دکھائی دیتی ہے ،سکون ہر محب ِ وطن سے بچھڑ گیا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ہم نے زندگی کی اس نعمت کے بدلے جنجال خرید لیا ہے ،گو زندگی اب پہلے سے زیادہ حرکت میں رہتی ہے لیکن اس حرکت میں اب برکت باقی نہیں رہی۔ اِس لشتم پشتم زندگی کے باعث انسان ہی اب انسان کا پرسان ِ حال نہیں رہا ،دلوں کے فاصلے ہیں کہ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں اور یوں ہر انسان اندر سے سہما دکھائی دے رہا ہے ،آج سے مطمئن نہیں اور کل سے خوفزدہ ہے ۔زندہ قوموں کا چلن یہ تو نہیں ہوتا ،اُن کی تو ہر ادا سے زندگی جھلکتی ہے۔ زندگی سے پیار کا اظہا رہوتا ہے ۔دعا کریں کہ جبار اور قہار ہمیں اس عذاب سے نجات دلائے۔ ہم ایک دوسرے کے چہرے کو آنکھ بھر کر دیکھ سکیں ،دل میں اُتار سکیں ۔محبت کی فراوانی تب ہی ممکن ہے جب دل سمندر ہوجائیں۔ قلم ماں کی طرح ،باپ کی طرح ہوتاہے۔ اس کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا۔لکھنے والادوسروں کابرانہیں سوچتا،ہرلکھنے والے کااپناایک انداز ہوتاہے ۔اُستادِمحترم جناب حافظ شفیق الرحمن کی صحبت نے بھی درس دیاکہ قلم کی حرمت کوبیچانہیں جاسکتا۔
بچپن میں سناکرتاتھاکہ ”بڑے لوگ”بھی ہوتے ہیں توذہن میں اُنہیں دیکھنے کاتصور اُبھرتا ،شعور کی آنکھ کھلی توپتہ چلاکہ ملک ، سردار،چوہدری ،خان ،۔۔۔یہ بڑے لوگ ہیں ۔
قلم ہاتھ میں آیا توپتہ چلاکہ ان بڑوں کے جسموں پرصرف کپڑوں کی حیاہے ۔مگربظاہریہ ننگے ہیں ۔
ان کی حویلیوں کی اوٹ سے انسانیت کی چیخیں اُبھرتی ہیں ،دم توڑ دیتی ہیں ۔
یہی لوگ میرے قلم کاہدف بنے ۔
آپ کاکارواں مجھے حوصلوں کی آکسیجن فراہم کرتارہا اورمیراقلم شعلے اُگلتارہا۔ہرلکھنے والے کے سامنے ایک واضح مقصد ہواکرتاہے کوئی بھی تحریر بے مقصد نہیں ہوتی ۔اب اس مقصد کو سمجھناقاری کاکام ہے ۔لکھاری کاکام صرف اُتناہوتاہے کہ وہ قاری کی عدالت میں حقائق کومن وعن پیش کرے ۔سلگتے مسائل سے اُلجھنا میرامشغلہ ہے جب کسی پرظلم ہوتے دیکھتاہوں یاکسی مظلوم کی کہانی سنتاہوں توہرحساس ذہن کی طرح میں بھی کڑھتاہوں۔
پھریہی گھٹن الفاظ کی شکل میں صفحہ قرطاس پربکھرتی ہے ،کچھ ستم گر جن سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں، آئینوں پر الزام رکھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ،اِن کا عکس سچا نہیں اُن سے کہنا ہے کہ آپ یہ ستم روا رکھیئے میرے لئے یہی کرم بہت ہے کہ لفظ کم از کم اثر تو رکھتے ہیں لفظ کبھی بھی مستعار نہیں لیے جاسکتے ،یہی تو لکھاری سے وابستہ سچائیاں ہیں۔ اِنہی کی آنچ سے وجود بنتے بگڑتے ہیں ۔ کیاہوا شورش سے ،صلاح الدین شہید ،تک کاسفرآبلہ پاہے ۔
خون آلودراہ گزر ہے ۔۔۔
یہ کالم لکھے جاتے رہیں گے ۔۔۔
جب تک ظالم ظلم سے بازنہیں آجاتا۔۔۔
جب تک مظلوم کی آہیں فضامیں گونجتی رہیں گی ۔۔۔
جب تک میرے طبقے کے حقوق غصب کرنے والے حقوق نہیں لوٹاتے ۔۔۔
جب تک انسانیت اپنی بربادی کاماتم کرتی رہے گی میرانحیف ونزار قلم ظالموں کوبے نقاب کرتارہے گا۔
میرایہ مشن ہے ،یہ روشنیوں کے شہر کے باسی محمد طاہر کا مشن ہے ،یہ ہرلکھنے والے کامشن ہے ،یہ مشن جاری رہے گا۔آخرمیں یہی کہ زندگی پوری جگمگاہٹوں اوراندھیروں میں گزررہی ہے ۔
ہاتھ اُٹھائیے گا کہ یہ اندھیرے چھٹ جائیں ۔
سچ اورقلم کی آبروباقی رہے ،لاج باقی رہے ۔
٭٭٭