... loading ...
حمیداللہ بھٹی
چینی راہدری منصوبے اور برکس فیصلوں نے امریکی پالیسی سازوں کو پریشان کررکھا ہے کیونکہ یہ منصوبے ایسے کثیرقطبی منظرنامے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے امریکی اہمیت کمی ہونا یقینی ہے۔ اگر امریکی دفاعی،تجارتی اور معاشی غلبہ ختم ہوتا ہے تواُسے مختلف ممالک کا
محتاج ہوناپڑے گاجو اُسے ناپسندہے۔ مستقبل کے منظرنامے میں نئی جگہ بنانے سے زیادہ وہ اپنی حالیہ حیثیت بحال رکھنا چاہتاہے مگر قرائن سے ظاہر ہے کہ عالمی منظرنامے پر جنم لیتی تبدیلیاں بہت کچھ بدلنے والی ہیں جن سے عالمی تقسیم کا عمل تیز ہوگا جس کے نتیجے میں طاقت کے نئے مراکز وجودمیں آسکتے ہیں جنھیں محصولات بڑھانے اور دبائوسے روکنا اب ممکن نہیں رہا ۔
موجودہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت تاجرانہ ہے۔ وہ دھونس و دبائو سے امریکی منافع بڑھانا چاہتے ہیں ۔اُن کے پاس دفاعی طاقت کابھی ہتھیار ہے ۔وہ امریکی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کررہے ہیں۔ روس اور مشرقِ وسطیٰ کی تیل پر اجارہ داری محصولات بڑھانے کی ایک وجہ ہے۔ رواں ماہ اگست کے دوران ٹرمپ نے کئی اہم فیصلے کیے اوردنیا کے 69 ممالک کی طرف سے امریکہ بھیجا جانے والے سامان پر دس سے پچاس فیصد نیا ٹیرف لگایااور عالمی تجارت کا رُخ تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر ایسی کوششوں کی کامیابی کے حوالے سے ابھی یقینی طورپر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
چینی راہداری منصوبوں کے کلیدی کردارپاکستان اور برکس میں شامل ایک اہم ملک بھارت پر ٹرمپ کی خاص توجہ ہے پاکستان پر عائد محصول 29سے 19کرتے ہوئے بھارت پر پچاس فیصد نئے محصولات عائد کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکسٹائل کے دیگر بڑے برآمد کنندگان بنگلہ دیش اور ویت نام پر محصول کی شرح بیس فیصد کردی گئی ہے ۔محصول کی شرح 19فیصدہونے پر پاکستان خوش ہے حالانکہ اِس سے ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے میں زیادہ بہتری نہیں آسکتی ۔بنگلہ دیش اور ویت نام میں صنعتوں کے لیے توانائی سستی ہے جبکہ پاکستان میں پیداواری لاگت دس فیصدزیادہ ہے۔ اِن حالات میں بھارتی برآمدات اگر کچھ متاثر ہوں گی بھی توبھی بنگلہ دیش اور ویت نام کی طرف سے پاکستانی برآمدات کے لیے چیلنج کم نہیں ہو گا ۔علاوہ ازیں امریکی تیل جو روس اور مشرقِ وسطیٰ سے مہنگا ہے۔ خریدنے سے برآمدی منافع زائل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ پاکستان فیصلوں میں توازن رکھے اور چین اور امریکہ کے لیے تجربہ گا ہ بننے کی بجائے ریاستی مفاد کو ترجیح دے۔
ٹرمپ ایک خود پسند شخص ہیں جنھیں اپنی منوانے کا جنون ہے وہ ہر جگہ بالاتر اور نمایاں رہنے کے متمنی ہیں مگر اُن کی طبعیت میں تضادبھی ہے ایک طرف خودکو دنیا کے ایسے ا من پسند اور صُلح جو کے طورپر پیش کرتے ہیں جس کا بھارت وپاکستان کی جنگ بندی ،ایران پر اسرائیلی حملے بند کرانے اور آذربائیجان و آرمینیامیں امن معاہدہ کرانا کارنامہ ہے ،دوسری طرف جب غزہ کے مظلومین کی نسل کشی کی بات ہو توبے نیازی ،بے زاری اور لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے فیصلوں کااختیار اسرائیل کو دے دیتے ہیں۔ یہ ناانصافی اُن کے امن پسند کردار کو دھندلاتی ہے ۔امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے چکر میں وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا اُن سے اتفاق کرے لیکن دُہرے کردارسے امن کا نوبل انعام کا حصول شاید ممکن ہوجائے لیکن دنیا غیر جانبدار اور امن پسندکے طورپر شاید ہی تسلیم کرے ۔
برکس میں شامل بھارت اور برازیل جیسے اہم ممالک امریکہ کا بطورخاص نشانہ ہیں ٹرمپ نے اُن پر محصولات کی شرح سب سے زیادہ پچاس فیصد کردی ہے جو اِس اُبھرتے معاشی،تجارتی اور سفارتی بلاک سے ناپسندیدگی کا اِشارہ ہے۔ بظاہرامریکہ نہیں چاہتا کہ بھارت تیل کی درآمدات کے لیے روس پر انحصار بڑھائے مگر اِس کی وجہ وہ نہیں جو بتائی جارہی ہے کہ اِس طرح یوکرین پر حملے کرنے میں روس کی مالی مدد ہورہی ہے۔ دراصل چین سے بھارت کو دور رکھنا اور بھارت کا چین سے جلدتصادم کرانا ہے مگر رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے بھارتی دفاعی طاقت کا پول کھول دیا ہے، جب چند گھنٹوں میں پاکستان نے فضائی اور زمینی برتری کابھارتی غرور خاک میں ملادیا۔اِس تناظرمیں چین سے موازنہ بنتا ہی نہیں لیکن چینی راہدری منصوبوں اور برکس فیصلوں سے خوفزدہ امریکہ کچھ دیکھنے اور سمجھنے پر تیار ہی نہیں۔ وہ بھارت کو برکس سے الگ کرانے اور چینی منصوبوں کوبھارتی طاقت سے ختم کرانے کاآرزومندہے ۔ایساہونے کا بظاہر کوئی امکان نہیں اور اگر بھارت ایسی کسی سازش میں آلہ کار بنتا ہے تواِس کے نتیجے میں اُس کا سفارتی اور دفاعی کردار ہمیشہ کے لیے محدود ہونایقینی ہے ۔رواں ماہ چین میں منعقد ہونے والے برکس سرابرہی اجلاس میں سات برس کے طویل وقفے کے بعدمودی کی شرکت پر رضامندی اسی طرف اِشارہ ہے کہ چین سے ٹکرائو کی ہمت نہیں رکھتا بلکہ چینی ٹیکنالوجی سے مرعوب ہے۔
برکس روس،بھارت ،چین،برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے پانچ ممالک پر مشتمل ایسااتحاد ہے جو دنیا کی آبادی کا 47فیصد کا مسکن ہیں جس کا گلوبل جی ڈی پی میں حصہ 36ہے ۔یہ ممالک تیل ،گیس سمیت نہ صرف دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال ہیں بلکہ زرعی پیداوار میں بھی نمایاں ہیں ۔دفاعی حوالے سے بھی طاقتور اور بیرونی جارحیت سے محفوظ ہیں بھارت کا روس اور چین کے اِس منصوبے سے اتفاق ہے کہ امریکہ اور مغرب کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ڈیجیٹل کرنسی،مصنوعی ذہانت فائیوجی اسپیکٹرم اور تیل جیسی مصنوعات میں برکس کا حصہ بڑھایا جائے۔ یہ تنظیم ڈالر پر مبنی معاشی نظام کامتبادل چاہتی ہے۔ اِس میں شامل ممالک چینی کرنسی یوآن،روسی کرنسی روبل اور بھارتی روپے میں تجارت بڑھارہے ہیں ۔تو قع ہے کہ جلد ہی سعودی عرب ،مصر،ایران اور یواے ای بھی اِس کا حصہ بن جائینگے جس سے معاشی ، تجارتی اور سفارتی طاقت میں مزید اضافہ ہوگا ،جسے روکنے کے لیے امریکی قیادت پاکستان سے مددچاہتی ہے۔ اسی لیے تجارتی نوازشات کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھایاجانے لگا ہے ۔
چینی کرنسی میں دائیگیوں کا نظام تیزاور سستا ہے جس سے کئی ممالک متاثرہوکر راغب ہو نے لگے ہیں پہلی بارسعودی عرب نے چینی کرنسی یوآن میں تیل کی ادائیگی کی طرف پیش رفت کی ہے ۔ڈالر میں زرِ مبادلہ کے ذخائر رکھنے کے بجائے دیگر کرنسیوں میں زرِ مبادلہ رکھنے کی حوصلہ افزائی ہونے لگی ہے، جب سے برکس نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اِداروں(جن پر امریکہ کازیادہ اثرورسوخ ہے) کامتبادل سی آراے بینک متعارف کرایاہے جو برکس میں شامل ممالک کو مالی مشکلات کی صورت میں قرض دے گا،اس نے دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے ۔یہ تبدیلی کی جانب ایسا اہم قدم ہے جو عالمی مالیاتی نظام پرڈالر کی صورت میں امریکی اجارہ داری ختم کرنے کی بنیادبن سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے ہی امریکہ عدم تحفظ کا شکار ہے اور چین و روس کی قیادت میں تشکیل پانے والی برکس جیسی تنظیم سے دنیا کو دور رکھنے کے لیے محصولات کاسہارا لینے لگا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔