... loading ...
‘
ریاض احمدچودھری
امریکہ میں سینکڑوں بھارتی طلبا کو ایف ون ویزا کی منسوخی کی وجہ سے اپنے اعلیٰ تعلیم کے خواب کو خیرباد کہنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اب کچھ اسٹوڈنٹس نے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔امریکہ میں تین بھارتی طلباء نے ملک کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ اور امیگریشن کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ان طلباء نے امریکہ کی جانب سے کئی غیر ملکی اسٹوڈنٹس کے ایف ون ویزا منسوخ کیے جانے کے بعد یہ قدم اٹھایا۔نیو ہمسفائیر کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں ٹرمپ انتظامیہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ “یکطرفہ طور پر سینکڑوں بین الاقوامی طلباء کے ایف ون ویزا اسٹیٹس کو منسوخ کر رہے ہیں”۔
ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف طلباء کی اس قانونی جنگ میں ان کا موقف ہے کہ انہیں نا صرف ملک بدری یا ویزا کی منسوخی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں “شدید مالی اور تعلیم کے حرج” کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اس مقدمے میں کہا گیا کہ حکومت نے غیر ملکی طالب علموں کے ویزا کی قانونی حیثیت ختم کرنے سے پہلے مطلوبہ نوٹس جاری نہیں کیا۔
امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں طلبا موجود ہیں۔ان طلباء کو ویزا کی منسوخی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان طلباء کی ریسرچ اسسٹنٹشپ منسوخ ہوئی ہے۔ ایک طالب علم کو تقریباساڑھے تین لاکھ ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی شاید اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑے۔ گوریلا 20 مئی کو اپنی ڈگری مکمل کرنے والا ہے، لیکن ایف ون ویزا کے بغیر وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔بھارت میں مودی حکومت کے دوران ملک کو ایک اور عالمی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، پاک بھارت جنگ میں شکست کے بعد امریکا نے بھارتی طلبا کے اجتماعی ویزے مسترد کردیئے۔امریکا میں بھارتی طلبہ کی تعداد میں 70 تا 80 فیصد تک نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ امریکا کی جانب سے بھارتی طلبہ کے ویزا کیسز کے اجتماعی طور پر مسترد ہونے سے مودی سرکار کی “وسودھیو کٹمبکم” اور اسٹریٹجک تعلقات کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں امریکی ویزا سلاٹس کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے، جبکہ وعدوں کے باوجود امریکی سفارتخانوں نے اپوائنٹمنٹ سلاٹس بند کر دیے ہیں۔ ویزوں کے مسترد کئے جانے کی شرح میں بے پناہ اضافے کے بعد، ہزاروں بھارتی طلبہ شدید ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر کیس میں امریکا کی جانب سے دفعہ 214(b) کے تحت ویزا مسترد کئے جانے پر وطن واپسی کے امکانات پر شکوک و شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اگر آئندہ چند ہفتوں میں ویزا سلاٹس بحال نہ ہوئے تو ہزاروں بھارتی طلبہ کے خواب چکنا چور ہو جائیں گے، جس پر مودی حکومت کو اندرون ملک شدید سیاسی دباؤکا سامنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بھارتی طلبہ پر عدم اعتماد نہ صرف مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کا وشو گرو بننے کا خواب، عالمی اعتماد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدامات، داخلی انتہا پسندی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو متاثر کر رہی ہیں اور یہی مودی کی نام نہاد سافٹ پاور کو زوال کی طرف لے جا رہی ہے۔ امریکہ کی اس سرد مہری کو عالمی سفارتی حلقے بھارت کے لیے ایک ‘خاموش مگر فیصلہ کن پیغام’ قرار دے رہے ہیں کہ اقوام عالم اب مودی سرکار کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں سے فاصلہ اختیار کرنے لگی ہیں۔ امریکا کی پاکستان سے بڑھتی اسٹریٹجک ہم آہنگی، اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے لیے نرم رویے نے بھارتی سیاسی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن اب جنوبی ایشیا میں نئی ترجیحات طے کر رہا ہے، جن میں بھارت کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔ادھر، ٹرمپ انتظامیہ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت اپنی سخت گیر پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتا تو امریکہ باہمی معاہدوں کی شرائط یکطرفہ طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر یہی روش برقرار رہی تو بھارت امریکی منڈیوں سے محروم ہو جائے گا، جس سے اس کی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔بین الاقوامی دباؤ اور داخلی بیچینی کے درمیان مودی حکومت کے لیے اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
مودی سرکار کا ”وشو گرو”بیانیہ معاشی میدان میں ناکام ہوچکا ہے جب کہ ٹیرف سے خوفزدہ مودی اپنی پالیسیوں میں پالیسی یوٹرن لے رہے ہیں۔ آٹو، اسٹیل اور زرعی اشیا پر محصولات کا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔امریکا کے ساتھ تعلقات میں بھارت کا دہرا معیار بھی عیاں ہو چکا ہے، جو خود 68فیصد درآمدی ٹیرف لگا رہا ہے لیکن امریکا سے رعایت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔بھارتی وزیرا عظم نریندر مودی کی حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی آگئی۔رپورٹ کے مطابق جنتا دل (سیکولر) کے رکن ممبر گوڑا کمارا سوامی نے مودی کی انتہا پسند پالیسیز کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ‘ٹیسلا بھارت میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور یہ منصوبہ ترک کر دیا۔ ٹیسلا کا بھارت میں مودی سرکار کی معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔