... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
بیس سال کی ایک خوبصورت، ذہین اور شرمیلی سی لڑکی کسی گاؤں میں رہتی تھی۔ اس کاباپ کھیتوں میں مزدوری کرتا اور ماں لوگوں کے گھروں میں برتن دھوتی تھی۔ بی اے میں فرسٹ ڈویژن لائی تو خواب دیکھنے لگی کہ استاد بن کر ماں باپ اور چھوٹے بھائیوں کا سہارابنے گی۔ وہ لڑکی جس نے غربت کو شکست دینے کا ارادہ کیا تھا ایک دن بخار کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ ہلکی زردی چہرے پر آئی، ماں نے سوچا شاید موسم بدلا ہے، باپ اُسے گاؤں کے عطائی کے پاس لے گیا۔ دو دن کی دوائی کے بعد جب اس کی حالت مزید بگڑ گئی تو شہر کے اسپتال لے جایا گیا وہاں رپورٹ آئی ہیپاٹائٹس سی کی وجہ سے جگر مکمل تباہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر نے افسردگی سے کہا”اب کچھ نہیں ہو سکتا” اور اُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ صرف ماں کی چیخیں اور باپ کی خاموشی میں دفن ہو گیا۔
یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ ہر اُس انسان کی کہانی ہے جو لاعلمی، لاپرواہی اور نظامِ صحت کی کوتاہی کا شکار ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2022 میں دنیا بھر میں 304 ملین لوگ ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا تھے اور انہی میں سے 1.3 ملین لوگ یعنی تیرہ لاکھ افرادصرف ایک سال میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ کوئی ہنگامی وبا نہیں تھی اور نہ ہی کوئی نیا وائرس،یہ وہ مرض ہے جس سے بچاؤ ممکن ہے، بروقت تشخیص کے بعدعلاج دستیاب ہے اور جس کی ویکسین مفت لگائی جا سکتی ہے مگر پھر بھی لوگ مر رہے ہیں،ہر تیس سیکنڈ کے بعد ایک انسان صرف ہیپاٹائٹس کی وجہ سے خاموشی سے دنیا چھوڑ رہا ہے۔المیہ یہ نہیں کہ یہ مرض لاعلاج ہے، المیہ یہ ہے کہ یہ مرض نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق صرف 45 فیصد بچوں کو پیدائش کے 24 گھنٹوں میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کی ویکسین دی جاتی ہے۔ باقی 55 فیصد قسمت پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ایسے ممالک جہاں عطائی ڈاکٹر ،دم درود اوردیسی ٹوٹکوں کے نام پرعلاج بانٹے جاتے ہیں، جہاں استعمال شدہ سرنج، آلودہ آلات اور غیر محفوظ انتقالِ خون عام ہو، وہاں ہیپاٹائٹس کا پھیلاؤ ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک تسلسل ہے۔
ہیپاٹائٹس کی پانچ اقسام ہیں: A, B, C, D, E۔ ان میں B اور C سب سے خطرناک ہیں جنہیں کالا یرقان کہا جاتا ہے۔ یہ جگر کے خلیوں کو اندر ہی اندر کھا جاتا ہے۔ مریض کو کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، کبھی بخار، کبھی زردی اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ کئی لوگ تو بغیر کسی علامت کے چل بستے ہیں۔ یہ خاموش قاتل ہے جگر کا سست زہر ہے جو وقت کے ساتھ انسان کو نگل لیتا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں فیصلہ زندگی اور موت کے بیچ ہوتا ہے۔ اگر مریض بروقت LFT، CBC یا الٹراساؤنڈ جیسے ابتدائی ٹیسٹ کروا لے تو جان بچ سکتی ہے اگر وہ عطائیوں کے چکر میں نہ پڑے تو صحت لوٹ سکتی ہے۔ اگر پیدائش کے وقت حفاظتی ٹیکہ لگ جائے تو ہزاروں جانیں اس مہلک مرض سے بچائی جاسکتی ہیں مگر افسوس لوگ اکثر وہ قدم اٹھانے سے پہلے مر جاتے ہیںجو ان کی جان بچا سکتا تھا۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) ہر سال 28 جولائی کو ”عالمی یومِ ہیپاٹائٹس” مناتا ہے تاکہ دنیا کو اس خاموش قاتل کے خلاف بیدار کیا جا سکے۔ یہ دن صرف اعداد و شمار دہرانے کے لیے نہیں ہوتابلکہ انسانیت کو جھنجھوڑنے، سسٹم کو بدلنے اور عام انسان کو بااختیار بنانے کے لیے منایا جاتا ہے۔ اس سال کا تھیم ہے”ہیپاٹائٹس: آئیں اسے ختم کریں” (Hepatitis-Lets Break It Down) ۔WHO نے 2030 تک دنیا سے ہیپاٹائٹس کے خاتمے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔اگرچہ پاکستان میںہیلتھ کیئر کمیشن جیسے ادارے عطائیوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں مگر یہ کافی نہیںجب تک ہر مریض خود یہ نہ جان لے کہ وہ جس کے پاس علاج کے لیے جا رہا ہے وہ واقعی ڈاکٹر ہے یا محض لبادہ اوڑھے موت کا سوداگر ہے اس لئے اپنی زندگی کو کسی عطائی کے ہاتھ گروی نہ رکھیں اورہیپاٹائٹس کے علاج اور ویکسین لگوانے میںمیںغفلت نہ کریں۔