... loading ...
حمیداللہ بھٹی
طاقت کااظہار ہمیشہ انسان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے کیونکہ یہ انسانی جبلت میں شامل ہے جونہ صرف دنیامیں سیاسی وجغرافیائی تبدیلیوں کا ایک اہم محرک ہے بلکہ بدامنی کی ایک اہم وجہ بھی، بدقسمتی سے فتوحات کے بعد عالمی طاقتوں نے انخلا کے دوران اقوام کو آزادیاں دیتے وقت کچھ ایسی مکاری سے کام لیا کہ دنیا بدامنی کا مرکز بنتی جارہی ہے اور طاقت کے اظہارکی انسانی جبلت تمام ترحشرسامانیوں کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ تمام تر ترقی اور امن کے دعوئوں کے باوجود آج بھی طاقت کے اظہار پر کوئی قدغن نہیںاسی لیے دفاعی حوالے سے کمزور ممالک کو آزادی وخوومختاری برقرار رکھنے میں مشکلات درپیش ہیں ۔اپنے مفادات کے لیے عالمی طاقتیں ٹکرائواور کشیدگی بڑھانے میں دلچسپی لیتی ہیں ۔اِس کا مقصد اسلحہ فروخت کرنا ہوتا ہے ویسے توجنوب مشرقی ایشیاکے ممالک تھائی لینڈ اور کمبوڈیا سیاسی ،معاشی اوردفاعی حوالے سے دنیا کی کوئی بڑی طاقتیں نہیں اِس کے باوجود چین اور امریکی رقابت میں جنگ کا میدان بننے کے دہانے پرہیں ۔بظاہر تھائی لینڈرقبے اور آبادی کے لحاظ سے کمبوڈیا سے چار گُنا بڑا ملک ہے جس کی فضائیہ امریکی ساختہ ایف سولہ سے لیس ہے جواُس کی برتری ثابت کرتی ہے جبکہ کمبوڈیا کی فضائیہ جدیدلڑاکا طیاروں سے محروم ہے۔ مندروں پر ملکیت کے حوالے سے رواں ہفتے دونوں ممالک میںجھڑپیں ہوئی ہیں۔ تھائی لینڈ نے فضائیہ کوتحرک میں لاکر کمبوڈیا کے اہم دفاعی اہداف کو نشانہ بنایاہے ۔ وہ مندوروں کے حوالے سے کسی قسم کی لچک پر آمادہ نہیں اور مذاکرات کی بجائے طاقت کااظہار کررہاہے جس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ 2008میں بھی دونوں ممالک میں جھڑپیں ہوئیں جو تین برس سے زائد عرصہ تک جاری رہ کربے نتیجہ ختم ہوئیں۔اب بھی جنگ اور امن کے امکانات برابر ہیں مگر مندروں کا مسئلہ حل نہ ہونے تک حقیقی امن خواب ہی رہے گا۔اِس حوالے سے چینی ثالثی ہی اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
تھائی لینڈ گو امریکہ کے زیادہ قریب ہے مگر چین ،جاپان اور عرب امارات کابھی اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ ایک چین پالیسی کا حامی ہونے کے باوجود کئی حوالوں سے تائیوان پر بھی انحصار کرتا ہے۔ نیز امریکی ہتھیاروں نے اُسے نیا اعتماد بخشا ہے۔ امریکہ جسے ہتھیاروں کے خریدار ممالک سے استعمال کے حوالے سے ہمیشہ شکایات رہتی ہیں حیران کُن طور پر اُسے کمبوڈیا کے خلاف ایف سولہ استعمال کرنے پر تھائی لینڈ سے تعرض نہیں ۔اسی بناپر قیاس ہے کہ امریکہ تصادم روکنے میں سنجیدہ نہیں۔ اِس کی وجہ ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر فروخت کی اُمیدہوسکتی ہے۔ بظاہر کمبوڈیا کو چین کے قریب اور ہم خیال تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تصادم اور امن کا دارومدار چینی رویے پر ہوگا۔ یہاں اگر امریکہ کشیدگی اور تصادم کوہوادیکر ہتھیاروں کی فروخت کاہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے تونہ صرف خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑنمو پائے گی بلکہ چین بھی کمبوڈیاکی پشت پناہی کے لیے آگے آسکتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف معاشی ناہمواری کے ساتھ خطے میں غرب و افلاس بڑھے گی بلکہ بے روزگاری میں اضافہ اور ہجرت کی نئی راہداری وجود میں آسکتی ہے۔
کمبوڈیااپنی ناہموار معیشت کی وجہ سے بڑی اور طویل لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بڑھتا تجارتی خسارہ اُسے جنگ سے روکتا ہے۔ 2023 میں اُس کی کُل برآمدات 21.68ارب ڈالرجبکہ درآمدات 24.41ارب ڈالررہیں 2.73ارب ڈالر کے تجارتی خسارے پر کیسے قابو پانا ہے؟یہ حکومت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے ایسے حالات میں تھائی لینڈ سے بڑھتی کشیدگی اور تصادم ترقی کا عمل سبوتاژ کر سکتا ہے۔ لہٰذا خراب معاشی ،تجارتی دفاعی حالات کی وجہ سے اُسے مزید ایک اور طویل تصادم سے بچناچاہیے مگر حکومتی ترجیحات سے ایسا اِشارہ نہیں ہوتا کہ وہ مندروں کی ملکیت کے حوالے سے کسی قسم کی لچک دکھاپائے گی بلکہ ہر اچھے و بُرے اقدام کے لیے تیاری سے کسی بڑے تصادم کے امکانات کی طرف اِشارہ ہوتاہے ۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا دونوں مذہبی حوالے سے بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ مزیدقدرمشترک یہ کہ دونوں پر ہی فرانس کا قبضہ رہا ہے۔ مندر تنازع کی جڑیں عشروں پُرانی ہیں۔ انخلا کے وقت فرانس مزید ایسے حالات بنا کرگیا جس سے یہ تنازع گرزتے وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کرے۔ رواں ہفتے 24 جولائی کوہونے والے تازہ تصادم میں دس سے زائد افرادکی ہلاکتیں ہوئیں جن میں فوجیوں کے ساتھ عام شہری شامل ہیں ۔اِس بارے تھائی حکومت کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا کی فوج نے اُس کی عملداری کے چارعلاقوں پرمیزائل و راکٹ برسائے جو ہلاکتوں کاباعث بنے جبکہ کمبوڈیا تھائی لینڈ پر فضائی حملوں کا الزام عائد کرتا ہے۔ البتہ نقصانات کی تفصیلات دنیا کو دینے کی بجائے کیوں محض حملوں کی تصدیق پر اکتفاکررہاہے؟ سمجھ سے بالاترہے دونوں ہی حملے میں پہل کرنے اور ایک دوسرے پر کشیدگی بڑھانے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے میں کسی غیرجانبداراور دونوں کے لیے قابلِ قبول ملک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی تنازعات کو مزید گھمبیر بنا تی ہے ۔امریکہ کوتو ویسے بھی ہتھیار فروخت کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے مگر امریکی رقابت میں چین یہاں تھائی لینڈکے خلاف اگر کمبوڈیاکی پشت پناہی کرتاہے تو ایک طویل اور تباہ کُن تصادم کے امکانات بڑھیںگے۔ چینی ثالثی خطے میں امن کے قیام میں مددگارہو سکتی ہے ۔وجہ دونوں متحارب فریقین کا اُس پر اعتماد ہوناہے۔ اسی لیے امریکہ کی بجائے چین کی طرف اُمیدبھری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔
تھائی لینڈاور کمبوڈیا میں رواں برس مئی میں ہی کشیدگی نقطۂ عروج کو چھونے لگی تھی جو اب سفارتی تعلقات تک وسیع ہوچکی ہے ۔کمبوڈیا سے تھائی لینڈ کا اپنے سفیر کو واپس بلا لینا بات چیت کے عمل میں عدم دلچسپی کوظاہرکرتاہے جواب میں کمبوڈیا نے تھائی لینڈ سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کے ساتھ تھائی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیدیا ہے۔ ایسے اقدامات لڑائی بڑھاتے ہیں کیونکہ سفارتی روابط محدود ہونے سے بات چیت کاامکان کم ہوتاہے ،حالانکہ دونوں بات چیت سے مسائل حل کرنے کا عندیہ دیتے ہیں مگر عملی طور پر پہل کرنے سے گریزاں ہیںاور طاقت کے اظہار پرتکیہ کرتے ہیں ۔چین نے حالیہ جھڑپوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک میں بات چیت پر زور دیاہے مگر سوال یہ ہے کہ جب متحارب فریق سفارتی ذرائع تک محدود کرچکے تو بات چیت کا عمل کیسے شروع ہو گا؟اِس صورت میں چین کا تعمیری کردارنہایت اہمیت کاحامل ہوگاکیونکہ اگر چین نے امریکی مداخلت کوروکنا ہے تو منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کردارادا کرنا ہوگا تاکہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں کشیدگی کم ہواگر چین دلچسپی نہیں لیتا اور اقوامِ متحدہ بھی خاموش رہتی ہے تو بدامنی کی شکارغیرمحفوظ دنیا کی بدقسمتی ہوگی ۔تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے ایسے علاقے میں لڑائی ہورہی ہے جسے دنیا ٹرائی اینگل کالقب دیتی ہے۔ یہاں لائوس ،تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی سرحدیں ملتی ہیں۔یہ علاقہ عالمی سطح پر منشیات کی پیداوار کے حوالے سے خاصابدنام ہے ،یہاں بدامنی ہوتی ہے تو منشیات فروشی کوفروغ ملے گاجس کی گونا گوں مسائل کی شکاردنیا متحمل نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔