... loading ...
۔
زریں اختر
پاکستان ٹیلی وژن کی پروردہ نسل ، موجودہ دور کے شوبز سے وابستہ فن کاروں کو ایسے واقعات کے بعد جانتی ہے۔ثناء یوسف کو بھی بعد میں سرچ کیاتھا اور حمیرا کو بھی ۔
تضادات پہچان کاسبب بنے ہیں ، فطری تضادات ، فکری تضادات اور سماجی تضادات۔۔۔تضادات کایہ کردار تاریخی اور مثبت بھی ہے اور تاریک و منفی بھی۔باہم متضاد ہر عمل اپنامنفرد و جداگانہ بیانیہ رکھتاہے اورہر بیانیے پر بجائے حکم لگانے کے اس کے اپنے میدان میں اتر کر سمجھنا ہوتا ہے ، کوئی گرہ کھلے گی تو کسی رستے پر قدم آگے بڑھیں گے ، یہ کام ایک فرد کا نہیں ،فرد کو آگے بڑھنا چاہتاہے اور وہ عاجل بھی ہے، وہ گرہوں کو سلجھانے میں وقت نہیں لگاسکتا ،ورنہ وقت نکل جاتاہے ، زندگی میں وقت اور مواقع بہت اہم ہیںاور اس سے اہم فیصلے ۔جب اجتماعی آوازیں ابھرتی ہیں،تو یہ بھی باہم متضاد ہوتی ہیں لیکن ان ہی میں سے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے ، کوئی راہ دکھتی ہے ، کوئی رستہ نکلتاہے ، شاید کسی منزل کا پتا بھی ملتا ہو۔
حمیرا کی موت قندیل بلوچ کی موت سے مختلف تھی ، قندیل کے زندہ رہنے کو غیرت کا مسئلہ بنایاگیا اور وہ غیرت بھی قندیل کے بھائی کا مسئلہ ؛مفتی عبدالقوی کی قندیل کی زندگی میں انٹری یا قندیل کی ان کی زندگی میں انٹری نیز شوبز شخصیت اور مذہبی شخصیت کے ایک صفحے پر ہونے کی قندیل کی طرف سے سچائی سامنے لانے کے بعد بنا۔ ایک تضادکا پردہ چاک کرنے کی پاداش میں قندیل کی جان گئی ،عبد القوی بقیدِ حیات ہیںاور ان کی غیرت بھی غالباًسلامت ہے۔
معاشرتی تضادکا اہم باب جو حمیرا کی موت نے دہروایا۔یہ تضاد نہ حمیرا کی انفرادی زندگی میں ہے نہ اس کے والد صاحب کی انفرادی زندگی میں ، یہ ان کا باہمی تضاد ہے، مختلف نظریات ِ زندگی کا ۔ حمیرا نے خود کو سمجھتے ہوئے جس شعبے کا انتخاب کیا ،اس نے سب کی مخالفت مول لے کر تن تنہا اس کو چن لیا۔ والد صاحب سے رابطہ منقطع، مائیوں کو شوہر کا ساتھ دینا ہوتا ہے یا پڑتا ہے یا انہیں لگا ہو کہ وہ ہی صحیح ہیں لیکن حمیرا غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوئی،حمیراکے والد صاحب کو اس کا کریڈٹ اس سماج میں ملنا تو بنتا ہی ہے۔خبروں کے مطابق حمیرا نے نیشنل اکیڈیمی آف آرٹ لاہور سے فائن آرٹ میں گریجویٹ کیا ، وہ رفیع پیر تھیٹر سے وابستہ ہوئی ، اسے شوبز میں آناتھا ، اسے ایسی ہی زندگی چاہیے تھی ۔ نوجوان ، خوب صورت ، پڑھی لکھی ، انگریزی میں بھی رواں (شاید شوبز میں مزید آگے بڑھنے میں اس کی بھاری آواز رکاوٹ بنی ہو ، اس نے اس پہ کام شاید کیا ہو، پتا نہیں) ۔۔۔ترکی جاکے گہرے پانی میں اس نے جو شوٹنگ کرائی وہ اس کی فن کارانہ صلاحیت کا ثبوت ہے ۔
خبروں کے ذریعے جو حقائق حمیرا کی موت کے بارے میں سامنے آئے :
١۔ آخری رابطہ اکتوبر ٢٠٢٤ئ
٢۔ موت کو کم و بیش اتنا ہی عرصہ گزر گیا۔
٣۔ کسی سے اتنا متواتر رابطہ نہیں تھا کہ اتنا عرصہ منظر میں موجود نہ ہونے پر کسی کو ، کسی ایک کو بھی کوئی تشویش ہوتی۔
٤۔ کام نہیںتھا، معاملات چلانا مشکل ہی نہیں بلکہ کٹھن ہوگیا(اس تحریر کو لکھنے کے بعد حمیرا کے والدین کا انٹرویو سنا اور بینک کے ایک کھاتے سے معلوم ہوا کہ تقریباََ چار لاکھ اس میں موجود تھے،شوبز کی دنیا سے وابستہ لوگوں کو اگر کام نہ مل رہا ہو تو یہ رقم ان کے معیار ِ زندگی کو سنبھالنے چلانے کے لیے کچھ نہیں)۔
٤۔ آٹھ ماہ سے کرایہ نہیں دیا تھا ، چار ماہ سے بجلی کٹی ہوئی تھی ، جو رقم پیشگی دی اس کو شامل کرلیں تو تین چارہ ماہ کا کرایہ چڑھ گیا تھا اور بجلی بھی اتنے ہی عرصے سے بند تھی۔
٥۔ جس رستے کو چنااس میں ایسے ساتھی نہیں بنے جو برے بھلے وقت میں کام آئیں، جو رستے بند کیے ان سے مدد نہیں مانگی۔
٦۔ گھروالوں نے اس کو اس کے حال پر چھوڑ ہی نہیں دیاتھابلکہ قطعی لاتعلق ہوگئے ۔
٧۔ فوری ردّ ِ عمل ان کے اس اٹل رویے کا غماز تھا کہ جیے مرے ہماری بلا سے۔
٨۔ بعد میں میت کی وصولی ۔۔۔
٩۔ حمیر ا نے اپنی زندگی میں گھر والوں سے رابطے کاجھوٹ خاصی ڈھٹائی سے گھڑا ، انٹرویو میں لمحے بھر بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ جو کہہ رہی ہے ایسا نہیں ہے اوریہ کبھی پتا بھی نہ چلنا تھالیکن ۔۔۔ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
١٠۔ وہ کہتی ہے کہ’ اسے ہلا گلا پسند تھا’،شوبز کی زندگی سے جو کچھ بھی وابستہ ہے ،لباس ، میک اپ ، پیسہ ،شہرت،گھومنا پھرنا، روشنیاں ، چکاچوند ۔۔۔اسے یہی کچھ بھاتاتھا، وہ آگے نہیں بڑھ سکی اور کشتیاں جلا کے آئی تھی ، جو ڈائری ملی ہے اس میں دل سے بیان کیے گئے کسی دکھ کا اظہار لیپ ٹاپ اور موبائل کے پاس ورڈ محفوظ کرنے کے ساتھ ہے یا نہیں ؟ پتانہیں۔
١١۔ فلیٹ کے جس چھوٹے کمرے میں نعش موجود تھی ،اس کو حمیرا نے اپنا اسٹوڈیو بنایا ہوا تھاکیوں کہ دیکھا جاسکتاہے کہ جہاں زندگی کے آخری لمحے وہ پائی گئی وہیں اس کے سرہانے ایک تجریدی آرٹ کی پینٹنگ رکھی ہے ۔
میرے نزدیک حمیرا کے والد صاحب کی حمیرا سے لاتعلقی بھی لوگوں کی وجہ سے تھی اور میت کی وصولی بھی دنیا داری تھی، یہ دونوں اعمال مذہبی لگائو کی کارستانی نہیں۔مذہبی نظریے کا کردار اول تا آخر دعائے خیر کے ماسوا کچھ نہیں۔
جب انسان اپنے کسی نظریے کو ازلی ابدی اورآفاقی سچائی کے طور پر دیکھتا ہے تو وہ خود کو اس نظریے کے سپرد کردیتا ہے ،لیکن خدا جانے یہ سپردگی اپنے ساتھ بجائے نرمی و لچک کے سختی کیوں لے آتی ہے؟ ان کی مذہبی وابستگی ان کے بہ حیثیت باپ کے جذبے پر غالب کیوں آگئی ؟ اتنی غالب اور وہ اس کے ہاتھوں اتنے ملغوب کہ پولیس کی طرف سے بیٹی کی موت کا فون جائے تو بھائی یہ کہے کہ والد صاحب سے پوچھتا ہوں اور پہلا جواب لاتعلقی کاآئے ، یہ تو وہ پولیس والا ہی بتا سکتا ہے کہ بھائی کے اس جواب کے ساتھ کیا مزید تاثرات تھے جو فون پر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ حمیرا کی اتنی اچانک موت نے تو شوبز میں بھی کھلبلی مچادی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر والوں پہ اس اطلاع سے کوئی بھونچال نہ آیا ہو، یا یوں لگا کہ ۔۔۔چلو اچھا ہوا ، عمر بھر کی ذلت سے جان چھوٹی ۔۔۔یہ قطعی ممکن ہے کہ دل میں کہا ہو یا زبان سے بھی ادا کیا ہو کہ’ خس کم جہاں پاک’ بے شک کہاوتیں ہزاروں سال کے انسانی مشاہدات کا نچوڑ پیش کرتی ہیں۔
بجائے مذہبی نظریے کو دل کی سختی کے ساتھ جوڑنے یا نرمی پیدا کرنے میں اس کے جامد کردار کے ۔۔۔اصل میں تو یہ دنیا اور لوگوں کی باتیں ہی کمزور انسانوں پر بھاری پڑتی ہیںوگرنہ باپ بیٹی سے راضی ہو یا ناراض ،لوگوں سے تو کہہ سکتا ہے کہ میں اس کا باپ ہوں اس کی فکر کرنے کے لیے موجود ، آپ اپنے حصے کی فکریںدیکھیں ۔
حمیرا نے اپنے باپ کی طرح اٹل مزاج کے ہونے کا ثبوت دیا، اسے اپنے شوق کی یہ قیمت چکانی پڑے گی اس کی خبر تو اس کے فرشتوں کو بھی نہیں ہوگی اور شاید اس کے والد کے فرشتوں کو بھی ۔
تضاد کی صورت میں کرنا کیا ہے ؟ یہاںفیصلہ کرنے میں غلطی کی گنجائش نہیں۔