... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں نریندرمودی کی زیر قیادت ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکومت اور گودی میڈیا مذہب کو استعمال کرکے بنگلا دیشی معاشرے میں انتشار پھیلانے کی سازش میں مصروف ہیں۔بنگلا دیش میں ہندو مظلومیت کی آڑ میں مسلم مخالف بیانیہ بنانے کی مودی کے گودی میڈیا کی کوشش بے نقاب ہو گئی ہے۔ گودی میڈیا نے اس واقعے کو مذہبی رنگ دینے کے لیے سوہگ کو دانستہ طور پر ہندو ظاہر کیا تاکہ ہندو مظلومیت کا سہارا لیکر بنگلہ دیش میں انتشار پھیلایا جائے حالانکہ سوہگ ایک مسلمان تھا۔مودی کا گودی میڈیا بنگلا دیش میں مذہبی بنیادوں پر دراڑیں ڈال کر مداخلت کا جواز پیدا کرنے کی سازش کررہاہے۔
پاکستان میں فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندستان کے ذریعے دہشتگردی پھیلانے کے بعد اب بنگلہ دیش مودی سرکار کے نشانے پر ہے۔بھارتی ریاست اب بنگلہ دیش میں بھی دہشتگردی اور انتہاپسندی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔بھارتی میڈیا کا جھوٹا پروپیگنڈا بنگلہ دیش میں فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پھیلانے کی سازش ہے۔بنگلہ دیشی نجی تنظیم ریومر سکینر نے گودی میڈیا کا راز فاش کر دیا بھارتی میڈیا نے مٹفورڈ قتل کے مقتول سوہگ کو دانستہ طور پر ہندو ظاہر کیا، ریومر سکینرلعل چند میاں عرف سوہگ، ایوب علی کا بیٹا اور ایک سکریپ ٹریڈر تھا۔بھارتی میڈیا نے اسے ہندو ظاہر کرنے کی کوشش کی جبکہ سوہگ دراصل مسلمان تھا۔عوام کو گمراہ کرنے کی غرض سے بھارتی میڈیا نے جان بوجھ کر سوہگ کا مکمل نام یا اس کے والد کا نام ظاہر نہیں کیا، ریومر سکینرسوہگ کو 9 جولائی کو ڈھاکہ میں بہیمانہ طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔بنگلہ دیش کی فوج نے انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی اْن خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج میں بغاوت کے آثار پائے جا رہے ہیں اورفوجی افسر جنرل فیض الرحمان کو مبینہ بغاوت کے الزام کے تحت زیر نگرانی رکھا گیا ہے۔بنگلہ دیشی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آرکی جانب سے جاری بیان کے مطابق بھارتی میڈیا پر آنے والی فوج میں بغاوت کی خبریں سراسر غلط ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بنگلا دیش اوراس کی مسلح افواج کے استحکام اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کی گئی منظم سازش کا حصہ ہیں۔
ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی فوج مضبوط، متحد اور چیف آف آرمی اسٹاف کی قیادت میں اپنے آئینی فرائض سرانجام دینے کی مکمل پابند ہے۔ چین آف کمانڈ مستحکم ہے اور بنگلا دیشی فوج بشمول سینیئر جنرل، آئین، چین آف کمانڈ اور بنگلا دیش کے عوام کے ساتھ وفاداری میں غیر متزلزل ہیں۔ فوج کے اندر کسی بھی قسم کی ٹوٹ پھوٹ یا غداری سے متعلق تمام تر الزامات سراسر من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔بھارتی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلا دیش کی فوج میں بغاوت کے آثار پائے جا رہے ہیں اور پاکستان کے حامی فوجی افسر جنرل فیض الرحمان کو مبینہ بغاوت کے الزام کے تحت زیر نگرانی رکھا گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض الرحمان بنگلہ دیش کی فوج میں بطور ‘کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات ہیں۔
بنگلہ دیش میں ہندوئوں کے خلاف مظالم کی غلط بیانی کی جا رہی ہے ، جس کا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا اور بنگلہ دیش کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا ہے کیونکہ وہ اپنی آزادی پر زور دے رہا ہے۔بھارت، بنگلہ دیش پر دوبارہ اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے مظاہروں اور میڈیا مہمات کا سہارا لے رہا ہے لیکن بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی آزادی ان ہتھکنڈوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔مظاہروں کے ساتھ ساتھ بھارت کے سیکریٹری خارجہ کا بے ادبی اور ناپسندیدہ دورہ بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت کی واضح علامات ہیں، جو بنگلہ دیش کی خودمختاری کے دفاع پر بھارت کی مایوسی کو ظاہر کرتی ہیں۔بھارت ہندو قوم پرستی اور گمراہ کن معلومات کو استعمال کر کے بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ، لیکن بنگلہ دیش اب بھارتی کنٹرول کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور اپنی آزاد اور خود مختار شناخت پر فخر کرتا ہے۔عالمی برادری کو بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت، بشمول بھارتی سیکریٹری خارجہ کے بے ادبانہ رویے کی مذمت کرنی چاہیے ، کیونکہ بنگلہ دیش اپنی آزادی کا دفاع کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا کی غلط بیانی اور آر ایس ایس کے مظاہرے بنگلہ دیش کی خودمختاری پر خفیہ حملے ہیں جو بھارت کے کمزور ہوتے اثر و رسوخ اور بنگلہ دیش کی آزاد شناخت کے خلاف اس کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت کے لیے بنگلہ دیش صرف ایک ہمسایہ ملک نہیں ہے بلکہ اسٹریٹیجک اتحادی اور سرحدی سکیورٹی کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے، خصوصی طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں۔بنگلہ دیش کی آبادی میں 10 فیصد سے کم ہندو ہیں۔ تاہم اس کمیونٹی کے سربراہان امتیازی سلوک اور انتہا پسندوں سمیت چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے نفرت انگیز حملوں کی شکایت کرتے رہے ہیں۔شیخ حیسنہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کے کافی حامیوں نے نشانہ بنائے جانے کی شکایت کی جن میں اقلیتی کمیونٹی کے افراد بھی شامل تھے۔شیخ حسینہ واجد کی بھارت میں موجودگی پہلے ہی دوطرفہ تعلقات میں کھٹائی کی وجہ ہے اور حالیہ مظاہروں نے پہلے سے ہی کشیدہ صورت حال میں اور بگاڑ پیدا کیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور انھیں بیان بازی میں کمی لانا ہو گی۔ایسے میں بنگلہ دیش سے کاروبار، سیاحت یا علاج کے لیے بھارت جانے والے عام شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔