... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے
جب تک سعودی عرب میں سر قلم کرنے کی سزا پر عمل جاری رہا، اس وقت تک سعودی عرب میں جرائم کا ریٹ دنیا میں سب سے کم تھا اور سعودی عرب کو محفوظ ترین ملک قرار دیا گیا تھا ۔بڑی طاقتور عالمی حقوق کی تنظیموں نے سر قلم کرنے کے عمل کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے سعودی عرب پہ دباؤ ڈالا کہ اس کا خاتمہ کیا جائے۔ اب سعودی عرب میں سر قلم کرنے کی شرح انتہائی کم ہو چکی ہے جبکہ اس کے نتیجے میں جرائم اور کرائم کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں ہر ملک جرائم کرائم کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنے قانون کی مطابق سزائے موت دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پسماندہ ممالک تک سزائے موت دی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 2024 میں دنیا بھر میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایمنسٹی کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال ریکارڈ کی جانے والی پھانسیوں کی تعداد 2015کے بعد سب سے زیادہ تھی جبکہ اس میں ملوث ممالک کی تعداد 16سے کم ہو کر 15رہ گئی ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کو پھانسی دینے والا ملک چین ہے لیکن وہاں ریکارڈ شدہ پھانسیوں کی کوئی حتمی تعداد دستیاب نہیں ہے کیونکہ چین ان اعداد و شمار کو ریاستی راز کے طور پر دیکھتا ہے ۔ویتنام اور شمالی کوریا دو اور ممالک ہیں جن کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر سزائے موت کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ سزا پانے والوں کی تعداد کو ظاہر نہیں کرتے۔ ایمنسٹی کے مطابق ایران ،عراق اور سعودی عرب گزشتہ برس ہلاکتوں میں تیزی سے اضافے کی ذمہ دار تھے اور 91فیصد سزائے موت انہی ممالک میں دی گئیں جن میں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا اور منشیات سے متعلق اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت لوگوں کی جان لی گئی۔
2024 میں ایران میں کم از کم 972افراد کو جن میں 30خواتین بھی شامل تھیں،سزائے موت دی گئی۔ جبکہ 2023میں یہ تعداد 853 تھی۔ ایران اورصومالیہ میں 18سال سے کم عمر کی چار افراد کو بھی موت کی سزا دی گئی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2024 کے لیے عالمی اعداد و شمار میں وہ ہزاروں پھانسیاں اور سزائے موت شامل نہیں ہیں جو چین میں دی گئی ہیں ۔ایمنسٹی کہنا ہے کہ چین اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدعنوانی اور منشیات کی نقل وحمل کے لیے سزائے موت کا اطلاق کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت کا نفاذ انتہائی سنگین جرائم تک محدود ہونا چاہیے جسے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی قتل عمد کے طور پر بیان کرتی ہے۔ ایسے جرائم جن کے نتیجے میں براہ راست اور جان بوجھ کر موت نہ ہو جیسے کہ منشیات اور جنسی جرائم معیار پر پورا نہیں اترتے ۔
چین میں سزائے موت کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1983میں اس نے سخت رد عمل کی پالیسی نافذ کی جس کا ہدف جرائم پیشہ گروہ تھے۔ اس دوران منشیات فروشوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ۔ایمنسٹی نے 1996میں رپورٹ کیا کہ 26جون کوانسدادِ منشیات کا عالمی دن کئی شہروں میں ایک دن میں 230سے زیادہ لوگوں کو پھانسی دے کر منایا گیا۔ تاہم میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ کچھ پھانسیاں غیر سنگین جرائم جیسا کہ مویشی یا گاڑیاں چوری کرنے پر بھی دی گئیں۔ امریکہ میں قائم حقوق کے گروپ ڈونی ہوا کا کہنا ہے کہ چین میں پھانسیوں کی کل تعداد جو 2002 میں 12ہزار تھی کم ہو کر 2018میں تقریبا 20رہ گئی۔ گروہ نے اس کے بعد کے برسوں کی کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے ۔ڈونی ہوا نے چین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں مزید تبصرہ کرنے کو رد کر دیا۔ پروفیسر میاؤ تخمینہ شدہ پھانسیوں میں اس کمی کی وجہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران متعارف کرائے گئے فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کی ایک سیریز کو قرار دیتے ہیں جس کے تحت ایک مجرم ایک کے بجائے دو اپیلیں کر سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ 1979کے چینی تعزیرات کورٹ میں سزائے موت کے قابل 74 جرائم کی فہرست دی گئی تھی۔ اس میں 2011اور 2015میں نظر ثانی کی گئی ۔پروفیسر میاؤ کے مطابق قتل اور منشیات سے متعلق جرم دو بڑے جرائم ہیں جن کی وجہ سے سزائے موت دی جاتی ہے۔ وہ آنے والے وقت کے بارے میں پرامید ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ٹیکنالوجی میں تیزی سے آئی تبدیلیاں حقیقی قانون کے نفاذ اور چین میں معیار زندگی کو بہتر بنانے سے جرائم میں کمی آئے گی۔ ان کے مطابق منشیات سے متعلق جرائم جیسے کہ ا سمگلنگ مینوفیکچرنگ اور نقل حمل کے ساتھ ساتھ قتل اور اس کمی کے رجحان کے جاری رہنے کے امکانات کے پیش نظر ہم آنے والے برسوں میں مجموعی طور پر سزائے موت میں کمی کی توقع کر سکتے ہیں۔
چینی عدالتیں بڑی تعداد میں مقدمات سنتی ہیں اور وہاں سزا سنانے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ ڈونی ہوا کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2022میں فوجداری عدالتوں کے ذریعے 1,431,585 مدعا علیہان میں سے صرف 631 افراد کو مجرم نہیں پایا گیا۔ تنظیم کی جانب سے ایک مضمون میں کہا گیا کہ 2022میں سزا دینے کی شرح 99.95فیصد تھی جو کہ چین کے قانون کی سالانہ کتاب کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔ بین الاقوامی جنرل آف لا کرائم اینڈ جسٹس کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اور تعلیمی مکالمے میں بتایا گیا ہے کہ 1995سے 1999کے درمیان صوبہ زی جیا ینگ کے شہروینزوکی کی ایک عدالت نے ہر ملزم کو سزا سنائی۔ پروفیسر میاؤ کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے عمل کی وجہ سے بھی سزا کی شرح زیادہ ہے۔ ان کے مطابق چینی فوجداری انصاف کے پورے عمل کے دوران مقدمات کی سماعت سے پہلے بھی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور کارگردی کا جائزہ لینے کے نظام کی وجہ سے استغاثہ کمزور مقدمات کے برعکس صرف ان ملزمان کے مقدمے عدالت تک لاتا ہے جن میں سزا ملنے کا امکان زیادہ ہو۔ اس پالیسی کا اطلاق نہ صرف سزائے موت کے مقدمات بلکہ عام طور پر فوجداری مقدمات پر بھی ہوتا ہے۔ سزا کی اتنی زیادہ شرح کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ 2016میں ریپ اور قتل کے الزام میں ایک نوجوان کو غلط طریقے سے سزا دینے پر 27اہلکاروں کو سزا دی گئی اور 18سالہ نوجوان کے والدین کو بعد میں معاوضہ بھی ادا کیا گیا۔ چین سزا سنائے جانے کی اتنی بلند شرح کے معاملے میں منفرد نہیں ہے۔ جاپان جو ایک جمہوری ملک ہے ،میں بھی فرد جرم کے بعد 99فیصد سے زیادہ مقدمات میں سزا ہوئی ہے۔ تاہم جاپان نے جولائی 2022سے کسی کو پھانسی نہیں دی ہے۔ چین میں سزائے موت کی تعداد کے بارے میں بین الاقوامی خدشات کے باوجود پروفیسر میاؤ کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر رائے عامہ بڑی حد تک سزائے موت کی حمایت کرتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جن ممالک میں سزائے موت دینی کی شرح زیادہ ہے، کیا ان پہ بھی سعودی عرب کی طرح دباؤ ڈالا جائے گا۔ بالخصوص چین پر جوسزائے موت کے اعداد و شمار کو راز میں رکھتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ میں
آ کر سعودی عرب میں سزائے موت کی شرح میں کمی آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔