... loading ...
حمیداللہ بھٹی
برکس کو عام طوپر نیٹو اور یورپی یونین جیسی طاقتور تنظیموں کامتبادل تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تاثرشایداب زیادہ دیر برقرارنہ رہے۔ ایساتاثر محض جزوی طورپر ہی درست کہا جا سکتا ہے کیونکہ رُکن ممالک میں تجارتی اور معاشی تعاون بڑھانے کے باوجود ابھی تک دفاعی تعاون میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ اِس لیے اِسے کیونکر نیٹو کا متبادل قراردیا جاتا ہے؟ مگر جیسے جیسے رُکن ممالک میں تجارتی و معاشی روابط فروغ پذیر ہیں اِس تنظیم کی افادیت و اہمیت تسلیم اور اِس کے فیصلوں کو بھی سنجیدہ لیا جانے لگا ہے لیکن اگراپنا وقارو نکتہ نظر منوانا اور دنیاکو ہم خیال بنانا ہے تواِس تنظیم کو برملا اور دوٹوک رویہ اختیارکرناہوگا۔ ابہام پر مبنی پالیسی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
برازیل کے شہرریوڈی جنیرومیں برکس کے حالیہ دوروزہ 17 ویںسربراہی اجلاس سے دنیا کو اچھا پیغام نہیں گیابلکہ کئی کمزوریوں کو واضح کیاہے یہ درست ہے کہ اجلاس کے دوران رُکن ممالک نے امریکی تجارتی پالیسیوں کو بے ترتیب ،نقصان دہ اور غیر قانونی قرار دیا ہے جس پر صدر ٹرمپ نے سخت ردِعمل دیتے ہوئے واضح کیاہے کہ جوبھی ملک امریکہ مخالف پالیسیوں کا ساتھ دے گا اُس پر دس فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا اور اِس حوالے سے کسی کواستثنیٰ نہیں ہو گا۔مسئلہ تو یہ ہے کہ تنظیم نے خیالات کااظہار تو کیالیکن کوئی طریقہ کاریا لائحہ عمل نہیں بنایاحالانکہ برکس ممالک کی جانب سے تجارتی پالیسیوں پر تنقید کے جواب میں ٹرمپ کے خیالات غیر متوقع نہیں کیونکہ آجکل وہ جس قسم کی جارحانہ تجارتی حکمتِ عملی پر کاربندہیں وہ بھارت کے لیے بھی خطرے کے الارم سے کم نہیں مگر جواب میں اُس کی طرف سے معنی خیزخاموشی ہے اور ظاہری ودرپردہ امریکہ سے گرمجوشی پر مبنی شراکت داری بحال رکھنے کے لیے سفارتی حوالے سے سرگرم ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے حوالے سے بھارت کا زیادہ دیر مُبہم رویہ تب تک فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا جب تک دونوں ممالک کواپنی حالیہ پالیسیوں پرجلد نظرثانی نہ کریں ۔بظاہر امریکہ سے ایسی کسی سرگرمی کی توقع کم ہے۔ لہٰذا باہمی تعلقات غیر متوازن ہو نے کے امکانات حقیقت کا روپ دھار سکتے ہیں۔
برکس کوئی معمولی تنظیم نہیں کیونکہ یہ دنیا کی کُل آبادی کے نصف اور عالمی معیشت کے چالیس فیصد کی نمائندہ ہے مگر اب بھی یہ تنظیم دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کر سکی جووسائل ،آبادی ،معیشت اور دفاعی حوالے سے اِس کا حق ہے۔ برازیل میں انعقاد پذیر اجلاس سے دنیا کو بڑی حد تک نااتفاقی کا پیغام گیا ہے۔ سعودی عرب ،انڈونیشیااور برازیل جیسے اہم ممالک جن کاشمار امریکی اتحادیوں میں ہوتا ہے نے اجلاس میں صدرٹرمپ کا نام لینے سے دانستہ طورپر گریز کیا۔ یہ خوف ہے یاتجارتی مفادات بچانے کی ایک اور کوشش ،وجوہات کے حوالے سے ماہرین کی رائے متضادہے۔ البتہ اِس پرسب متفق ہیں کہ اندرونی عدمِ اتفاق تنظیم کے لیے نیک شگون نہیں ،اِس لیے جلد بدیر رُکن ممالک کواپنی پالیسیوں کے ابہام وتضادات دورکرنا ہوں گے۔
برازیلی صدر لوئس ایناسیو لولاداسلوا نے کہا ہے کہ اُبھرتے ہوئے برکس ممالک کسی بادشاہ کے تحت زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔ اتحاد میں شامل گیارہ ممالک کے دوروزہ اجلاس کے اختتام پر کسی کانام لیے بغیر انھوں نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم خود مختار قومیں ہیں لہٰذا کسی شہنشاہ کو نہیں مانتے ۔چین جسے آجکل امریکہ مخالف سرگرمیوں کا محور خیا ل کیا جاتا ہے نے بھی حالیہ اجلاس میں کہہ دیا ہے کہ برکس کسی ملک کے خلاف بلاک نہیں بلکہ تعاون کا ایک پلیٹ فارم ہے نیز تجارتی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان مائونِنگ نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے کہہ دیاکہ تجارتی اور محصولات جنگوں کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ روسی ترجمان دمتری پسکوف نے بھی اِس بار خاصا نرم رویہ اپناتے ہوئے باورکرانے کی کوشش کی کہ برکس تنظیم کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔اب سوال یہ ہے کہ تنظیم میں شامل تمام گیارہ ممالک کا تو آپس میں بھی اتفاق نہیں توتنظیم بنانے کامقصدکیاہے؟کیاحالیہ اجلاس صرف کھانے کی تقریب تھی یا تصاویر بنوانے کی محفل ؟ اگر ایسا نہیں تو رُکن ممالک اپنے مفادات کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرنے میں کیوں مخمصے کا شکار ہیں ؟ اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ تنظیم کے حالیہ اجلاس نے نہ صرف خومختاری کا تاثر زائل کیا ہے بلکہ کسی نادیدہ خوف کاشکار رُکن ممالک ایسی اَن دیکھی جکڑبندیوں کاشکار نظر آئے جن کے تناظر میں آزادانہ فیصلے کی توقع عبث ہے۔
دنیا کو درپیش حالات کے تناظر میں برکس کا رویہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی طرح کچھ زیادہ ہی نرمی پر مبنی ہے۔ ایسے رویے سے مطالبات منوائے نہیں جا سکتے۔ برکس نے رواں ماہ کے اپنے سربراہی اجلاس میں واضح کیا ہے کہ غزہ کی پٹی مقبوضہ فلسطینی علاقے کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔ لہٰذامغربی کنارے کے ساتھ اُسے فلسطینی اتھارٹی کے تحت یکجا کیا جائے۔ اعلامیے میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری ،مستقل،اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے نیک نیتی سے مذاکرات کیے جائیں۔ اسرائیلی افواج کو غزہ اور دیگر تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے واپس بلایا جائے۔ برکس نے اسرائیل اور امریکہ کا نام لیے بغیرایران حملوں کی مذمت کی اور انھیں عالمی قوانین کے منافی قرار دیا۔ ایسے نرم اور ڈھیلے ڈھالے اعلامیے سے خیال کرلینا کہ طاقتورممالک جارحیت کرنے سے بازآجائیں گے محض ایک خام خیالی ہی کہی جا سکتی ہے۔ کیونکہ بات کرتے ہوئے یہ احتیاط کرنا کہ کسی کی جبیں شکن آلود نہ ہوکمزور ہونے کابین ثبوت ہے۔
برکس اجلاس سے بھارت بہترسفارتکاری سے اِتنا فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا کہ تنظیم نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کردی ۔بھارت کی تویہ بھی خواہش تھی کہ پاکستان کا نام شامل کرتے ہوئے مذمت واضح اور واشگاف ہو لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکامگرپھر بھی یہ کیا کم ہے کہ مذمت کرنے کی بھارتی خواہش تو پوری ہوگئی لیکن اِس تنظیم کے بہی خواہوں میں ایسا رویہ تشویش کا باعث ہے۔ اِس سے رُکن ممالک میں عدم اتفاقی کاتاثرگہراہورہا ہے جس کے نتیجے میں تعاون بڑھانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں ہونے والی سفارتی سُبکی کا بھارت نے برکس اجلاس سے ازالہ تو کرا لیا لیکن ایسی کھینچاتانی تنظیمی کمزوریوں کاتو باعث بن سکتی ہے مگروقاربڑھانے میں فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ اگر دنیا سے موقف منوانا ہے تو نہ صرف تنظیم کے اندرافہام و تفہیم کی فضا کو بہتر بنانا ہوگا بلکہ رُکن ممالک میں مشترکہ تعمیر اور اشتراک پر مبنی تصورکی عملی اہمیت بھی واضح کرنا ہوگی۔ اِس حوالے سے صنعت اور ٹیلی مواصلات سمیت دیگر شعبوں میں رُکن ممالک کے باصلاحیت افراد کی تربیت قائم کرنے کی چینی پیشکش بروقت اور سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر عالمی حکمرانی کو منصفانہ،معقول اورمنظم سمت میں فروغ دینا ہے تو تنظیم کو نادیدہ بیرونی خوف سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے اندرونی کشمکش پربھی جلد قابوپانا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔