... loading ...
ایم سرور صدیقی
کچھ ہفتے پیشتر پاکستان شوبز کی سینئر اداکارہ عائشہ خان کی ان کے فلیٹ سے 2 ہفتے پرانی لاش بر آمد ہو نے لوگ حیران اور دکھ میں مبتلا ہوگئے تھے ۔اب کراچی ڈیفنس فیز 6 میں فلیٹ میں ایک مشہور ماڈل و اداکار ہ حمیرا اصغرکی لاش ایک مہینے تک پڑی گلتی سڑتی رہی اور افسوس صد افسوس ایک ماہ تک نہ کسی رشتہ دار، دوست احباب نہ ہمسائے کو خبر ہو یاالہٰی ہم یہ کس معاشرے میں جی رہے ہیں ۔عائشہ خان ہو یا پھر حمیرا اصغر۔۔ جمہوریت کے “ترقی یافتہ” معاشرے میں کرب اور تنہائی کی سڑاند سے اٹھی لاشیں ہیں اگر ذی شعور محسوس کریں تو یہ ہمارا المیہ ہے ۔اسے ایک قومی سانحہ بھی قراردیا جاسکتاہے کہ اس مقام پر آ پہنچے ہیں جہاں کسی کو کسی کی خبرنہیں شوبزکا چوکا چوند ماحول،گلیمرکاحسن اورکمال درجہ خود نمائی سے فلیٹوںمیں پڑے ہفتوں پرانے مردہ اجسام جن سے تعفن آرہاہویہ کس بات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسے معاشرے کی بے حسی،دوستوںکی بے مروتی سے بھی تعبیرکیا جاسکتاہے ۔اب ریاست کو پرواہ، نہ میڈیا کو ہمدردی ہوئی، نہ سول سوسائٹی کو توجہ۔ وہ عورت جو اس “آزاد معاشرے” میں اکیلی رہتی تھی، آزادی کی اس قیمت پر مر گئی کہ مرنے کے بعد بھی تنہا پڑی رہی۔ یہ ہے جمہوری تہذیب کا اصل چہرہ ۔۔جہاں انسانیت رشتوں سے آزاد، فرد “مکمل آزاد” اور خاندان بے معنی قرار پایا ،کیایہی وہ تہذیب ہے جس نے ماں باپ، بہن بھائی، پڑوسی، سب کچھ غیر ضروری بنا دیا ہے۔ جہاں آزادی کا مطلب ہے: اکیلا رہو، اکیلے کماؤ، اکیلے مرو… اور مرنے کے بعد بھی تمہیں تلاش کرنے والا کوئی نہ ہو۔ کیا یہی وہ تہذیب ہے جس پر فخر کیاجاسکتاہے؟ کیا یہی وہ “آزادی” ہے جس کے گن گائے جاتے ہیں؟ کیا ہم نے واقعی اسلام کی پرامن اور مربوط معاشرتی اقدار کو ترک کر کے حسین لوگ یہ بے حسی خریدرہے ہیں؟
تنہائی کے مداوا کے لئے اسلام نے خاندانی نظام کوفروغ دینے کی ہدایت کی ہے ۔ہر فرد کو رشتوں کے اٹوٹ بندھن میں باندھ دیا پھر اسے ذمہ داریوں کااحساس دلایا یہی رشتے، محبتوں کا مظہرہیں لیکن آج مکرو ریا کی نفسا نفسی نے انسان کو تنہا کر کے رکھ دیا پھر جمہوریت نے ہمیں آزادی کے نام پر ٹکڑوں میں لخت لخت کر ڈالا یا اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہیں کہ ہمارے پیاروںلاشیں بھی بے یار و مدد گار بے گورو کفن پڑی پڑی عبرت بن گئی ہیں ۔ایسے واقعات یقینا ایک تنہا عورت کی موت نہیں بلکہ آج کی تہذیب کی روح کی موت ہے جس پر سینکڑوں ہزاروں فخرکرتے ہیں۔ پاکستانی رئیلیٹی شو ‘تماشا گھر’کے پہلے سیزن میں شرکت کرنے والی حمیرا نے اپنی زندگی میں انڈیپینڈنٹ اردو کو دسمبر 2022 میں ایک خصوصی انٹرویو دیا تھا جو اب سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ دوران انٹرویو مرحومہ نے اپنے گھر والوں سے متعلق تفصیلات شیئر کیں اور کہا ‘میں ہمیشہ اپنے بڑوں کو اپنے ساتھ لے کر چلی ہوں، میرا میری امی ابو اور گھر والوں سے بہت اچھا تعلق ہے، اگر میں ان سے ملنے مہینوں گھر نہیں جاتی تو میری امی سے میرا رابطہ رہتا ہے’۔ حمیرا نے بتایا تھا کہ ‘میری امی کو سب پتا ہوتا ہے میں کون سا ڈرامہ کررہی ہوں، کس پروجیکٹ میں مصروف ہوں یا کہاں سفر کررہی ہوں، فیملی کی سپورٹ بہت ضروری ہوتی ہے، کیرئیر کی شروعات میں والدہ نے ٹوکا کہ ابو ناراض ہوں گے کہ گھر میں سب ڈاکٹرز ہیں تو تم کیوں آرٹ کی طرف جارہی ہو لیکن بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ بیٹی میں ٹیلنٹ ہے تو کچھ نہیں کہا’ انہوں نے کہا کہ ‘مجھے آغاز میں مسئلہ ہوا لیکن بعد میں سب چیزیں میری منشا کے مطابق ہی ہوئیں’۔
پولیس نے بتایا کہ خاتون نے 2018 میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا ، 2024 سے کرایہ نہ دینے پر مالک نے کیس کررکھا تھا، پولیس عدالتی حکم پر فلیٹ خالی کرانے پہنچی تو دروازہ لاک تھا، پولیس دروازہ توڑ کر داخل ہوئی تو خاتون کی لاش ملی جواداکارہ حمیرا اصغر کی تھی ۔شوبز سے جڑے افراد کی جانب سے اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی دل دہلا دینے والی موت پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ان کی ساتھی اداکارہ امر خان نے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پیغام جاری کرتے ہوئے حمیرا کی موت پر گہرے صدمے اور دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ واقعہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں موجود دباؤ اور ذہنی صحت کے مسائل کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے۔ امر خان نے فنکاروں پر زور دیا کہ وہ اپنی ذہنی صحت کو اولین ترجیح دیں، خود پر مہربان رہیں اور ضرورت پڑنے پر مدد لینے سے نہ گھبرائیں۔ اداکارہ ماورا حسین نے بھی سوشل میڈیا پر حمیرا کی افسوسناک موت پر دْکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ساتھی فنکار ذہنی دباؤ یا کسی مشکل میں مبتلا ہے تو وہ ضرور بات کریں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ سننے، سمجھنے اور بغیر کسی ججمنٹ کے مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ماورا نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ فنکار ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور ایک مضبوط کمیونٹی کے طور پر اْبھریں۔ شوبز شخصیات کے ان بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انڈسٹری میں ذہنی صحت کے حوالے سے بات چیت کی فوری اور شدید ضرورت ہے ۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے” ماں باپ، گھر بار چھوڑ کر شہرت اور پیسے کے حصول کیلئے دوسروں کی دلچسپی کا سامان بننا بہت آسان ہے لیکن اس کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ دنیا میں شہرت حاصل کرنے والی معروف ماڈل اور ٹک ٹاکر حمیرا اصغر کی کراچی اپنے گھر میں پڑی ایک ماہ پرانی بوسیدہ تعفن زدہ لاش برآمد۔ سناٹے سے گونجتا کمرہ، بند دروازے کے پیچھے مہینوں سے خاموش پڑی لاش، اور آس پاس نہ کوئی آنکھ اشک بار، نہ کوئی ماتم، نہ کوئی دعا۔ بس دیواریں تھیں، جو چیخ چیخ کر اس عورت کی تنہائی کی گواہ تھیں، جو کبھی اپنی خودمختاری پر نازاں تھی، جس نے رشتوں کے ریشمی بندھنوں کو آزادی کی زنجیر سمجھ کر توڑ دیا، جو فیمینزم کے افیون سے مدہوش ہو کر اپنے خاندان، بھائی، باپ، اور سب سے بڑھ کر اپنے رب سے بھی روٹھ گئی تھی۔ “*اداکارہ حمیرا اصغر”* ایک خوبصورت چہرہ، ایک آزاد “*عورت، ایک مشہور نام”* لیکن کیا واقعی وہ کامیاب تھی؟ پولیس اہلکار جب اس کے بھائی کو فون کرتا ہے تو جواب ملتا ہے:”اس کے والد سے بات کریں”اور جب والد کو فون کیا جاتا ہے تو ایک باپ کی زبان سے نکلتا ہے: ”ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، ہم بہت پہلے اس سے ناطہ توڑ چکے، لاش ہے تو جیسے چاہو دفناؤ”فون بند ہو جاتا ہے، مگر سوال کھلا رہ جاتا ہے کہ وہ کون سی زندگی تھی جو باپ کے دل کو اتنا سخت کر گئی؟ وہ کون سا راستہ تھا جو بھائی کی غیرت کو خاموش کرا گیا؟ وہ کون سی سوچ تھی جس نے ایک جیتے جاگتے وجود کو مہینوں لاش بنا کر سڑنے کے لیے چھوڑ دیا؟ یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ فیمینزم کی وہ بھیانک تصویر ہے، جو اشتہارات میں خوشنما، تقاریر میں متاثرکن، اور سوشل میڈیا پر انقلابی لگتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی، تنہا اور اندھیرے سے لبریز ہوتی ہے۔ فیمینزم کا آغاز عورت کے حقوق سے ہوا، مگر انجام اس کی تنہائی پر ہو رہا ہے۔ فیمینزم نے عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کے مقدس رشتوں سے نکال کر صرف ‘خود’ بنا دیا اور یہی ‘خود’ آخرکار اْسے اکیلا کر گیا۔ خاندان کا ادارہ، جسے صدیوں کی تہذیب نے پروان چڑھایا، جس میں قربانیاں، محبتیں، ناراضگیاں، مان، اور رشتہ داریوں کی حرارت موجود تھی، اسے آج کی عورت نے ”زنجیر”سمجھ کر کاٹ دیا۔ اور جب وقت کی تیز دھوپ نے جلایا، تو کوئی سایہ دار درخت ساتھ نہ تھا۔ فیس بک کی دوستیں، انسٹاگرام کے فالورز، ٹوئٹر کی آزادی کے نعرے، سب خاموش تھے۔ باپ کا دروازہ بند تھا، بھائی کا دل پتھر ہو چکا تھا، اور ماں شاید برسوں پہلے رو رو کر مر چکی تھی۔ عجیب معاشرہ ہے یہ بھی، جہاں اگر بیٹی نافرمان ہو تو باپ ظالم کہلاتا ہے، اور اگر باپ لاتعلق ہو جائے تو بیٹی کی خودمختاری کا جشن منایا جاتا ہے۔ عورت جب گھر سے نکلے، تو ”طاقتور”کہلاتی ہے، جب طلاق لے، تو ”باہمت” بن جاتی ہے، جب رشتے توڑے، تو ”بغاوت”نہیں بلکہ ”خود شعوری” قرار پاتی ہے۔ اور جب مر جائے، تنہا، بوسیدہ لاش کی صورت، تو سارا معاشرہ خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔ کاش حمیرا اصغر نے جانا ہوتا کہ فیمینزم، ماں کی گود جیسا تحفظ نہیں دے سکتا۔ کاش وہ سمجھ پاتی کہ باپ کی ڈانٹ، محبت کی ایک گونج ہوتی ہے، اور بھائی کی غیرت، عزت کی چادر ہوتی ہے۔ کاش وہ جان پاتی کہ مرد دشمنی کا نام عورت دوستی نہیں، بلکہ یہ فکری گمراہی ہے جو عورت کو اس کے رب، اس کے دین، اور اس کی فطرت سے کاٹ دیتی ہے۔ عورت مضبوط ضرور ہو، خودمختار بھی ہو، لیکن وہ اپنے اصل سے جْڑی رہے وہ ماں کا پیار، باپ کی شفقت، بھائی کی غیرت، اور شوہر کی رفاقت کو بوجھ نہ سمجھے۔ ورنہ فیمینزم کی راہ میں جو منزل ہے، وہ تنہائی، بے رْخی، اور بے گور و کفن لاش ہے۔ حمیرا اصغر چلی گئی لیکن فیمینزم کی دْھند میں گْم اور کتنی بیٹیاں ایسی ہی گم ہو رہی ہیں, بس ہمیں تب ہوش آتا ہے، جب یہ لاشیں دیواروں سے سوال کرنے لگتی ہے۔
”آزادی چاہیے تھی نا؟ لے لو۔۔مگر اب میرے پاس کوئی نہیں”!لیکن اس کا انجام بڑا بھیانک ہے بے گورو کفن تعفن زدہ لاشیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔