... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
اپنے مسئلے کو ہمیشہ سمجھنے کی کوشش کرو اسے و ہ حیثیت دو جوکسی عزیز دوست کو دی جاتی ہے ۔ عزت ، محبت ، احترام اس کا حق ہے اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یا وہ تمہارا دشمن ہوجائیگا یا تم اس کے دشمن ہوجائو گے چھر ی خر بوزے پر گرے یا خر بوزہ چھر ی پر دونوں حالتوں میں نقصان خربوزے کا ہی ہوتاہے لہٰذا کبھی بھی چھر ی کو اپنا دشمن نہ بنائو ۔
مشہور وکیل جان ڈبلیو ڈیوس جو امریکہ میں 1924 میں صدارتی امیدوار بھی تھا کہتا تھا ” صحیح ،ہم کو ئی پل نہیں بناتے ۔ ہم کوئی مینار تعمیر نہیں کرتے۔ ہم کوئی انجن تیار نہیں کرتے۔ ہم کوئی تصویرمیں رنگ نہیں بھرتے لیکن ہم مشکلات کو دور کرتے ، ہم دبائو سے چھٹکارا دلاتے ، ہم اغلاظ کو درست کرتے ۔ ہم دوسرے آدمی کابوجھ اٹھاتے اور اپنی کوششوں کے ذریعے ہم آدمی کی پرامن ریاست میں پرامن زندگی کو ممکن بناتے ہیں ” جبکہ گاندھی نے کہاتھا ” انسان کی حیثیت سے ہماری عظمت اس دنیا کو از سر نو بنانے میں نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو دوبارہ بنانے میں ہے ”۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم سب غلط بن گئے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیںاس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم غلطی سے غلط بن گئے ہیں ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہم سے اکثر غلطی نہیں ہواکرتی بلکہ ہم سے غلطی ہمیشہ حالات و واقعات کر واتے ہیں۔ واقعات حالات سے جنم لیتے ہیں اور حالات ہمیشہ حکمران بناتے ہیں، جیسا کہ جان ڈبلیو ڈیوس نے کہاتھا یعنی اگر ہمارے ملکی حالات و واقعات مختلف ہوتے تو ہم سب مختلف ہوتے اور ہمیں اپنے آپ کو دوبارہ نہیں بنانا پڑتا۔ اگر ہمارا ملک خو شحال ، ترقی یافتہ، مستحکم ہوتا اور ملک میں تمام ادارے مضبوط ہوتے عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا قانون کی مکمل حکمرانی ہوتی، ملک میں ہر معاملے میں شفا فیت ہوتی کر پشن ، لوٹ مار، غبن کرناناممکن ہوتا تو پھر ظاہر ہے ہمارے موجودہ حکمران بھی مختلف ہوتے، ان کی سو چیں بھی مختلف ہوتیں ،ان کے اعمال بھی یکسر بدلے ہوئے ہوتے ،انکے ذہنی روئیے تبدیل ہوتے اور وہ ” میں ” کی بیماری میں مبتلا نہ ہوئے ہوتے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے حکمرانوں کو دوبارہ بنانے کی کوششیں اور جدوجہد کرنا پڑیں گی کیونکہ اس کے بغیر ملک میں کچھ بھی تبدیل یا بدلنے والا نہیں ہے۔ اگر وہ خود کو دوبارہ نہیں بناتے ہیںتو پھر اسی طرح سے ملک میں خاک اڑتی پھرے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ عمل کب شروع ہونا چاہیے؟ جان ایف کینڈی کے الفاظ میں ” اس کو ابھی ہونا چاہیے” عظیم فرانسیسی مارشل لیاوتے جس نے ایک مرتبہ اپنے مالی سے ایک درخت لگانے کے لیے کہا مالی نے اعتراض کیا کہ درخت بہت آہستہ پروان چڑھتا ہے اور بلوغت تک سو سالوں میں بھی نہیں پہنچے گا ۔مارشل نے جواب دیا ” اس معاملے میںہمارے پاس برباد کرنے کے لیے وقت نہیںہے اس لیے اسے آج دوپہر کو ہی لگا دو ” ۔ ہمارے حکمرانوں کو کچھ ایسا زیادہ نہیں کرناہے جو وہ نہ کرسکیں جب وہ اپنے بارے میںسو چیں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ ان کے اعمال اخلاقیا ت اور انسانیت سے کتنے دور ہیں ،گو کہ وہ اس کی گہرائی سے بے خبر ہیں۔ سائنس اب یقین رکھتی ہے کہ دوسروں کا درد بھلے وہ ہم سے کتنی ہی دور کیوںنہ ہوں مجازی طور ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے سماجی درداسی درد کو دماغ کے حلقوں میں جسمانی درد کی حیثیت سے سر گرم کرتا ہے، دماغ نہایت سماجی ہوتا ہے ہماری اپنی فلاح کے لیے ہم اپنے سروں کو نیچے کرنا اور ارد گرد کی دنیا کی تکالیف سے صرف نظر کرنا برداشت نہیں کرسکتے۔ چارلس ڈکنس کے الفاظ میں ” انسانیت میراکاروبار ہے مشترکہ فلاح و بہبود میرا کاروبار ہے خیرات ، رحم، صبراور فیض رسانی سب میرے کاروبار ہیں ”۔ بس انہیںاور کچھ نہیں کرنا اپنا کاروبار تبدیل کرنا ہے۔ بس انہیں چارلس ڈکنس جیسا کاروبار شروع کرناہے۔ جیسے ہی وہ کاروبار تبدیل کریں گے، اسی وقت وہ تبدیل ہوجائیں گے ۔یاد رکھیں آپ کے موجودہ کاروبار کی وجہ سے بیس کروڑ انسان سخت تکلیفوں اور اذیتوں میںمبتلا ہیں۔ کروڑوں انسان دن رات تمہیں تبدیل ہونے کی دعائیں کررہے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تمہاری عمر لگ بھگ ستر سال کے قریب ہوگئی ہے۔ وقت تیزی کے ساتھ نکلا جارہاہے۔ آج تمہاری پاس وقت ہے، ہوسکتا ہے کل نہ ہو ۔
جو زف ایڈیسن نے کہا تھا ” میںجب عظیم لوگوں کے مزاروں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر حسد کے تمام جذبات مرجاتے ہیں جب میں حسین لوگوں کے کتبے پڑھتا ہوں تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں۔ جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتاہے اور جب میں والدین کی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور انا کے بارے میں سو چتاہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جاناہے، جب میں بادشاہوں کو ان کی سازشیو ں کے ساتھ قبروں میںلیٹے دیکھتا ہوں۔ فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں اور یا پھر ان مذہبی جنونیو ں کی قبریں ملاحظہ کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دنیاکو کارزار بنادیاتھا تو میںحیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں ، مقابلوں ، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں بحثوں کے بارے میں سو چتاہوں جب میںکتبوں پر لکھی تاریخیں پڑھتا ہوں جن میں سے کچھ کل فوت ہوئے تھے اور کچھ چھ سو سال پہلے ، تو میںاس عظیم دن کے بارے میںسوچتاہوں کہ جب ہم سب ہمعصر بن کر اکٹھے زندہ کیے جائیں گے ” ۔ آج ہم سب کے پاس وقت ہے ، اس لیے ہم آج ہی سے اپنے بارے میںتحقیقات شروع کردیں اور جہاں جہاں ہمیںاپنے اندر خرابیوں اور برائیوں کا سراغ ملتا رہے اس کو صحیح کرنے کاآغاز کردیں، ورنہ کل کوئی اور جوزف ایڈیسن ہماری قبروں پر کوئی اور اقتباس لکھ رہا ہوگا کیونکہ ہم سب نے ایک روز چلے ہی جاناہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔