... loading ...
ریاض احمدچودھری
دریاؤں کو ہتھیار بنا کر پانی کی فراہمی کو روکنے کی دھمکی دراصل ایک نئی قسم کی جنگ ہے۔ وہ جنگ ہے جس میں بندوقیں نہیں بلکہ پانی روکنے کی صورت میں زندگی چھینی جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں پانی پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا بین الاقوامی برادری اس خاموش قتل پر خاموش ہی رہے گی؟ آج بھارت کی زبان وہ نہیں رہی جو نہرو یا ٹیگور بولا کرتے تھے۔
ہندوستان نے پہلگام فالز فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کردیا تھا۔ یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر12 (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب کہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔ سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian،Lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمے دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھارت کی جانب سے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) سے یکطرفہ دستبرداری کو ”سراسر خلافِ قانون اقدام اور آبی جارحیت” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستان قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے 24 اپریل کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں بھارت کو بھرپور جواب دے گا۔بھارت کی جانب سے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں بڑھتی جا رہی ہیں، اور انڈس واٹر ٹریٹی جیسے بین الاقوامی معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنا نہ قانونی حیثیت رکھتا ہے اور نہ ہی اخلاقی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ معاہدہ ایک عالمی قانونی دستاویز ہے، جس سے کسی ایک فریق کو از خود دستبردار ہونے کا اختیار نہیں۔ بھارت کی یہ کوشش محض سیاسی چال اور قانونی لحاظ سے کھوکھلی ہے۔”
وزیرِاعظم نے پانی کی ذخیرہ استعداد میں اضافے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے ڈپٹی وزیرِاعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا، جو نئے ڈیم منصوبوں کی مالی حکمت عملی مرتب کرے گی۔ کمیٹی میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے وزیرِاعظم، اور متعلقہ وفاقی وزرا شامل ہوں گے اور بہت جلد اپنی سفارشات پیش کرے گی۔جنگی محاذ پر بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے باوجود آبی محاذ پر خطرات بدستور منڈلا رہے ہیں۔ آبی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ پانی کے تحفظ کے لیے فوری، سنجیدہ اور عملی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی صرف قدرتی نعمت نہیں بلکہ قوم کی لائف لائن ہے اور اب اسے بچانے کا وقت ہے۔آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت کا خطرہ ختم نہیں ہوا، اور اگر اندرونی طور پر مؤثر حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو یہ بحران فوڈ سیکیورٹی سمیت قومی سلامتی کے لیے بھی سنگین چیلنج بن سکتا ہے۔ملک میں ڈیمز کی کمی، حکومتی عدم توجہی، اور پانی کے ضیاع نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ زرعی، صنعتی اور گھریلو سطح پر پانی کے بے جا استعمال پر قابو پانا ضروری ہے۔ ماہرین نے برسات کے پانی کو ذخیرہ کرنے، جدید واٹر مینجمنٹ سسٹمز اپنانے اور قومی سطح پر بیداری مہم چلانے کا مطالبہ کیا۔ ڈیمز کی تعمیر، مؤثر واٹر پالیسی اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہی اس لائف لائن کو بچا سکتا ہے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ” آبی جارحیت” ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار ہو بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔ کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی سماعت کرنے والی ثالثی عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس کی اہلیت برقرار ہے اور یہ کہ ان کارروائیوں کو بروقت، موثر اور منصفانہ انداز میں آگے بڑھانا اس کی ذمے داری ہے۔حکومت پاکستان نے ثالثی عدالت کی جانب سے اعلان کردہ ضمنی ایوارڈ کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارت فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کے تحت معمول کے مطابق تعاون بحال کرے اور اپنے معاہداتی فرائض مکمل دیانت دار کے ساتھ ادا کرے۔
بھارت کی پیاس بجھانے کے لیے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور خود انسانیت کے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا، جو بات اکثر فراموش کردی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے دوہزار تیرہ میں کشن گنگا ثالثی ایوارڈ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مقدمہ لڑنے کے پاکستان کے قانونی حق کو تسلیم کیا گیا۔ دریائے نیلم کے قدرتی بہاؤ کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور اس حوالے سے چند تکنیکی نکات کو بھی واضح کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔