وجود

... loading ...

وجود

سیاستدانوں کے نام پر ادارے

جمعه 04 جولائی 2025 سیاستدانوں کے نام پر ادارے

میری بات/روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناح ہسپتال جو لاہور نہیں بلکہ پنجاب کا ایک بڑا ہسپتال ہے اور یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب ہے۔ گزشتہ روز اس کے ایک شعبے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کرکے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کے نام پر رکھ دیا گیا۔ خیر یہ تو کوئی بحث نہیں کیونکہ ہمیں اداروں کا علم ہے اور نہ ہی اپنے محسنوں کا احساس ہے۔ اصل بحث تو یہ ہے کہ آئے روز پیٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، غریب انسان بجلی کا بل ادا نہیں کرپا رہا اور نہ ہی وہ زندگی کی کسی سہولت سے مزہ لے رہا ہے، گدھے کی طرح کام کرنے والا ایک عام پاکستانی اپنے بچوں کو اچھی تعلیم ،اچھی صحت اور اچھا کھانا کھلانے سے قاصر ہے جسکی وجہ سے بچوں میں احساس محرومی بڑھتا جارہا ہے اور دوسری طرف عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والوں کے دفتروں ،گھروں اور گاڑیوں میں ہر وقت ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں۔ الیکشن سے پہلے بلاول بھٹو زرداری ،محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ، حمزہ شہباز شریف اور علیم خان کی طرف جو 2سو اور3سو یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کے وعدے اور دعوے بھی ختم ہو گئے اور لوگ بھی بھول گئے ۔شائد اگلے الیکشن میں یہی تقریریں پھر ہونگیں تب تک عوام کا کیا حشر ہوتا ہے اس بارے میں کسی کو کئی فکر نہیں۔ اگر فکر ہے تو حکمرانوں کو اپنے نام کی فکر ہے کہ ان کا نام ہر طرف نمایاں ہونا چاہیے۔ یہ کام صرف محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کے حصہ میں ہی نہیں آیا بلکہ ان سے پہلے بھی کئی حکمران ہو گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ناموں کی تختیاں لگوائیں۔ یہ رجحان خاص طور پر انفراسٹرکچر کے منصوبوں، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور چوک چوراہوں پر دیکھا جاتا ہے۔
سب سے پہلے یہ کام ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹونے شروع کیے تھے ۔ان کے نام پر کئی منصوبے اور ادارے ہیں ۔بے نظیر بھٹو کے نام پر راولپنڈی کا جنرل ہسپتال، اسلام آباد ایئرپورٹ اور نواب شاہ ضلع کے نام رکھے گئے ہیں جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی ایک بڑا فلاحی منصوبہ ہے جو انہی کے نام سے منسوب ہے۔ نواز شریف کے نام پر بھی کئی عوامی مقامات، ہسپتال اور اسکول منسوب کیے گئے ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کے رہنما خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے نام پر بھی کئی منصوبے اور مقامات ہیں جیسے باچا خان چوک اور پشاور ایئرپورٹ کو بھی ان کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مردان میں ایک مجوزہ یونیورسٹی کا نام بھی عبدالولی خان کے نام پر رکھنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس پر سیاسی بحث بھی ہوئی تھی۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال (KTH) جو کہ کئی بار اپنا نام تبدیل کر چکا ہے۔ اسے ایک وقت میں حیات شہید ٹیچنگ ہسپتال کے نام سے جانا جاتا تھا جو کہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق گورنر حیات محمد خان شیرپاؤ کے نام پر تھاماضی کی متحدہ مجلس عمل (MMA) کی صوبائی حکومت کے دوران خلیفہ گل نواز ہسپتال بنوں (جو کہ سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی کے دادا تھے) اور مولانا مفتی محمود ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان (جو کہ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے والد تھے) جیسے ادارے بھی سیاسی شخصیات کے ناموں پر رکھے گئے۔ یہ رجحان پاکستان میں عام ہے کہ جو بھی اقتدار میں آیا یا لایا گیا اس نے اپنے ناموں کے ساتھ اداروں کو منسوب ضرور کیا۔ اب محترمہ مریم نواز نے اپنے نام کے ساتھ اداروں کو جوڑنا شروع کیا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ پاکستان میں اداروں، شہروں اور شاہراہوں کے نام تبدیل کرنا کوئی ہماری پرانی عادت ہے مگر جب یہ تبدیلی کسی بانیِ پاکستان یا قومی علامت کے نام کو ہٹا کر کسی ایسی شخصیت سے کی جائے جس کی خدمات نہ تو عوامی سطح پر ثابت ہیں نہ قومی تاریخ میں تسلیم شدہ ہو توپھر یہ عمل محض مذاق بن جاتا ہے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جو اپنے نام میں بانیِ پاکستان کی جدوجہد، قربانی اور قومی وحدت کی علامت رکھتا ہے، اس کا نام ایک سیاسی شخصیت سے منسوب کر دینا کسی طور قابلِ فخر اقدام نہیں۔ ایسا شخص جس کا نہ طب سے کوئی تعلق ہے نہ تحقیق نہ تدریس اور نہ ہی کوئی قومی سطح پر کوئی قابلِ قدر کارنامہ ہو اس کے نام سے ایک بین الاقوامی معیار کے طبی ادارے کو منسوب کر دینا دراصل اداروں کو شخصی نمود و نمائش کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہے۔ یہ فیصلہ اُس صوبائی حکومت کی جانب سے آیا جو 2024ء کے متنازع اور مشکوک مینڈیٹ کے ذریعے قائم ہوئی جس پر دھاندلی کے سنگین الزامات ہیں، ایسے میں اگر وہ خود کو بانی پاکستان کے متبادل کے طور پر پیش کریں تو یہ نہ صرف سیاسی غرور بلکہ قومی بے حسی کی انتہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب جب حکمران طبقہ اپنی خود ستائشی میں حد سے بڑھا، عوامی شعور نے ان کی ان نشانیوں کو نفرت کا استعارہ بنا کر مٹا ڈالا ۔عراق کے صدام حسین کی مثال آج بھی ہمارے سامنے ہے جس نے ہر دیوار، ہر ادارہ اور ہر نوٹ پر اپنی تصویر اور نام چسپاں کر دیا تھا لیکن جب زوال آیا تو وہی دیواریں عوامی غصے کا ہدف بن گئیں۔ بالکل ایسی ہی صورتِ حال بنگلہ دیش میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں شیخ حسینہ واجد ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد حکومت میں آئیں مگر عوامی احتجاجی طوفان کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکیں۔آخر کار چند منٹوں میں انہیں فوجی تحفظ میں ملک سے نکلنا پڑا اور بھارت میں پناہ لینا پڑی، ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے عوام نے سڑکوں پر گرا کر مسمار کیے۔ کرنسی نوٹوں سے تصاویر ہٹا دی گئیں اور ریاستی بیانیے میں ان کی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب شخصیات ریاستی اداروں اور قومی تاریخ پر مسلط کی جائیں تو عوام دیر سے سہی مگر اپنا فیصلہ ضرور سناتے ہیں۔ پنجاب میں بیوروکریسی جان چکی ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اپنا نام، تصویر اور علامتی موجودگی ہر منصوبے ،ہر دیوار اور ہر کاغذ پر درکار ہے۔ اس لیے چاپلوسی اور خوشامد کا ایسا کلچر پنپ رہا ہے جہاں ہر ترقیاتی منصوبے کو “مریم نواز برانڈ” میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ سڑک ہو یاہسپتال، فلائی اوور ہو یا سستے آٹے کی تھیلی ہر چیز پرمحترمہ مریم نوازصاحبہ کی تصویر و نام نمایاں ہوتا ہے ،کیا یہی جمہوریت ہے ؟نام تو ان ہستیوں کے ہونے چاہئیں جن کی خدمات سے قوم نے فیض پایا ہو، پاکستان میں بے شمار مثالیں موجود ہیں، جہاں ادارے اور سڑکیں مستند خدمات انجام دینے والے مشاہیر سے منسوب کی گئی ہیں، جن میںمجید نظامی روڈ (سابقہ لارنس روڈ)جو آزاد صحافت، قومی بیانیے اور اصولی موقف کی پہچان تھے،علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ جوشاعرِ مشرق مفکرپاکستان کے نا پر ہے، جن کے تصور نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ قائداعظم جناح ٹرمینل بانیِ پاکستان کے نام سے منسوب بین الاقوامی ہوائی اڈہ،طفیل شہید روڈ نشانِ حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے بہادر سپاہی کی یادگار ہے۔ شیخ زید ہسپتال متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید بن سلطان النہیان کی مالی و طبی امداد کی بنیاد پران کے نام سے منسوب ہے ،سر گنگا رام اسپتال لاہور کے عظیم معمار و سماجی کارکن کے نام پر قائم ہے ،فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی مادرِ ملت کے نام سے منسوب خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا مرکزہے ۔
ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی شخصیت کے نام کو کسی ادارے سے جوڑنے کے لیے صرف سیاست دان ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس شخصیت کا عوامی خدمت، علمی، اخلاقی یا انسانی ترقی کے کسی شعبے میں نمایاں کردار ہونا ضروری ہے محض ایک انتخابی عمل سے اقتدار میں آنا کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ قائداعظم کے نام کی جگہ اپنا نام لکھ دے۔ یہ محض ایک نام کی تبدیلی نہیں بلکہ قومی تاریخ کی تبدیلی ہے۔ اگر یہ روش جاری رہی تو آنے والی نسلیں قائداعظم کے نام سے واقف نہیں ہونگیں، بلکہ اُنہیں ایک ایسی تاریخ ملے گی جسے سیاسی مفادات اور ذاتی تشہیر کے رنگ سے دوبارہ لکھا گیا ہو گا ۔ادارے، نشانیاں، ورثہ اور نام محض تختیوں پر کندہ الفاظ نہیں بلکہ وہ قوموں کی شناخت ہوتے ہیں اور ان کی بے حرمتی دراصل قومی شعور کی توہین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار وجود جمعه 04 جولائی 2025
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

سیاستدانوں کے نام پر ادارے وجود جمعه 04 جولائی 2025
سیاستدانوں کے نام پر ادارے

افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد! وجود جمعه 04 جولائی 2025
افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!

بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش وجود جمعرات 03 جولائی 2025
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت وجود جمعرات 03 جولائی 2025
ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر