... loading ...
حمیداللہ بھٹی
اشتعال انگیزیوں کے جواب میں غیرمتوقع پاکستانی دندان شکن ردِعمل پر بھارت ابھی تک صدمے میں ہے لیکن کیا اُسے اپنی حماقتوں اور خامیوں کا کچھ ادراک ہو گیا ہے؟ اِس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا اِس بنا پر مشکل ہے کہ وہ تو لگنے والے زخموں کو تسلیم کرنے سے انکار ی ہے اور دنیا کو باور کرانے کی تگ ودو میں ہے کہ پاکستان پر کاری وارتوہم نے کیا ،حالانکہ دنیا بھارتی معاشرے کی طرح احمق نہیں جوہر جھوٹ پر یقین کرلے۔ یہ سچ توسب پر آشکار ہے کہ بھارت نے رات کی تاریکی میں مذہبی مقامات اور شہری آبادی کونشانہ بنایا جبکہ پاکستان نے دن کے اُجالے میں چھبیس کے قریب دفاعی مقامات کو تباہ کردیا۔ یہ ایک جچا تلا دلیرانہ جواب تھا جوکسی سے پوشیدہ نہیں ۔اسی بناپر حکومتی ہدایات کے مطابق بھارتی میڈیا باوجود کوشش سچ کوجھٹلانے سے قاصر ہے، بلکہ بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں سنانے سے بھارتی میڈیا خود اپنی ساکھ سے محروم ہورہا ہے جو ایسا تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ فضائی جھڑپوں میں بھارت نے پاکستان کوسخت نقصان پہنچایا ہے۔ دراصل گودی میڈیا سُبکی چھپانے کے لیے کامیابی کے افسانے تراش رہا ہے۔ ایسے جھوٹ بولنے کی ہرگز ضرورت پیش نہ آئے اگر مودی حکومت نفرت،تعصب اور جلائو گھیرائو کی سیاست ترک کردے اورخطے میں امن کے فروغ میں حصہ دار بنے ۔
جنگ بندی کے لیے بھارت نے امریکہ سے رابطہ کیااور پاکستان پر دبائو ڈالنے اور جنگ بندی پر آمادہ کرنے کا مطالبہ کیانہ صرف امریکی وزیرِ خارجہ بلکہ نائب صدر بھی دونوں ممالک سے رابطے میں رہے ۔اِس دوران سعودی عرب اور ترکیہ نے بھرپور معاونت کی اور پاکستان کوجوابی ردِ عمل محدودرکھنے پر آمادہ کیا۔ پاکستان نے ماضی میں بھی کبھی کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اختیار نہیں کی بلکہ ہمیشہ کشیدگی بڑھانے سے حتی الامکان گریز کیا۔ اب بھی دوست ممالک کی فرمائش پر واضح فتح کے باوجودجنگ بندی پر آمادہ ہوا مگر بھارت نے خطے کا امن دائو پر لگانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اب بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ جنگ بندی کامطالبہ پاکستان نے کیا ،وہ تو یہ تسلیم کرنے سے بھی گریز اں ہے کہ پاکستان کوسخت ردِ عمل دینے پر اُس نے خود مجبور کیا۔ نریندرامودی جسے سیاست چمکانے کے لیے ہمیشہ بہانوں کی تلاش رہتی ہے۔ وہ پاکستان سے مقابلے میں ایسا کچھ حاصل نہیں کرسکا ۔اِس کے باجود کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ملک میں کبھی فتح کی ریلیاں نکلوائی جاتی ہیں اور کبھی دفاعی نظام ایس 400کی تباہی کی خبروں کو غلط ثابت کرنے کے لیے جعلی تصویروں کا سہارا لیا جانے لگا ہے ۔مگر عالمی ذرائع ابلاغ بھارت کی کسی جھوٹی کہانی کو اہمیت نہیں دے رہے۔ اب بھی بھارت سے کسی بھی غیرذمہ دارانہ کارروائی کا اندیشہ موجود ہے۔ لہٰذا دانشمندی کاتقاضا ہے کہ پاکستان ہر قسم کے حالات کی تیاری رکھے کیونکہ اسلحہ خریدنے میں اچانک تیزی بھارتی نیت کے کھوٹ کو ظاہرکرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب جنگ بندی ہوچکی تو دھڑا دھڑ اسلحہ کے انبار جمع کرنے کا کیا جواز ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاک بھارت جنگ بندی کاکریڈٹ لیتے ہیں ،ریاض دورے کے دوران انھوں نے خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے خودکو امن کے داعی کے طورپر نمایاں کیاہے ۔بلاشبہ پاک بھارت کشیدگی کا خاتمہ ایک ایسی تاریخی کامیابی ہے جس میں امریکہ کا کلیدی کردار ہے، مگر امریکی اسلحہ کی بھارت کوفراہمی میں غیرضروری تیزی ناقابلِ فہم ہے ۔یہ تو صاف الفاظ میں بھارت جیسے منتقم مزاج ملک کو اُکسانے والی بات ہے۔ جب صدر ٹرمپ پاک بھارت قیادت کوکہتے ہیں کہ ایٹمی میزائلوں کی تجارت نہ کریں بلکہ اِن چیزوں کی تجارت کریں جو آپ خوبصورتی سے بناتے ہیں تو اُنھیں خود بھی جنوبی ایشیا کو بارودکے ڈھیر لگانے میں حصہ دارلینے سے گریزکرنا چاہیے ۔اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ چانکیائی سیاست کے علمبردار بھارت سے توقع رکھنا کہ جارحانہ عزائم چھوڑ کر امن پسند ہوجائے گا۔ درست نہیں بلکہ جارحانہ عزائم رکھنے والے ملک سے محتاط رہناہی دانشمندی ہے ۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جو صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ یہ موقع کی تاک میں رہتا ہے اور سازگار حالات دیکھ کر وارکرگزرتا ہے۔ نئے ہتھیاروں کی فراہمی سے کسی وقت بھی اُس کا دماغ خراب ہو سکتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ خطے کا امن برقرار رکھنے کے لیے بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی پرامریکہ نظر ثانی کرے۔
رواں ہفتے 13مئی کوسعودی عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر نے پاکستان اور بھارت کے لیے مصالحتی کردار کا اعادہ کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ شایدوہ پاک بھارت قیادت کو ایک خوشگوار عشایئے پر اکٹھا کر لیں اگر ایسا ہوتا ہے تو جنوبی ایشیا کے دونوں جوہری ممالک میں مستقل طورپر تصادم کا امکان ختم ہوسکتا ہے مگر ایسے حالات میں جب دونوں طرف لفظی جنگ جاری ہے ۔نیز دونوں ہی ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر نکل جانے کا حکم دے رہے ہیں۔ اِس تناظر میں دومتحارب ممالک کی قیادت کو عشایئے پر اکٹھا کرنے کی خواہش یا تجویز بظاہر بعید ازامکان لگتی ہے کیونکہ ایسا تبھی ممکن ہے جب دونوں طرف امن کی ایسی خواہش موجود ہو جبکہ حالات یہ ہیں کہ بھارت پر بالادستی کا بھوت سوار ہے اور دس مئی کے واقعات کے بعد نریندرمودی جنھیں میڈیا کاایک حصہ سرنڈرمودی کالقب دینے لگا ہے ۔وہ سبق حاصل کرنے کی بجائے دوملکی اختلافات کو مذہبی آویزش بنانے کے چکر میں ہیں ۔ایسی خواہش یا تجویز خطے کے امن کے لیے تباہ کُن ہو سکتی ہے۔ اگر امریکی صدر اپنی خواہش یا تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں سنجیدہ ہیں تو اُنھیں بھارتی قیادت کو جارحانہ عزائم ترک اورپُرامن ہمسائیگی پر آمادہ کرنا ہوگا ۔
پاک بھارت دوستی مشکل ضرورہے ناممکن نہیں دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صدیوں کے دشمن ایک دوسرے کے بااعتماد دوست بن گئے اِس کی وجہ یہ تھی کہ اپنے تنازعات کو مزاکرات سے حل کیا اور آنے والی نسلوں کو امن و خوشحالی دینے کے لیے اعتمادو تعاون کی کیفیت لانے پر سنجیدگی سے کام کیا ۔نفاق کا شکار یورپ آج جس طرح یکجا اور ایک ہے، یہ دوستی قیادت کی فہم و فراست کا ہی نتیجہ ہے۔ اگر قیادت حقائق کا ادراک نہ کرتی اور تنازعات حل کرنے کی بجائے برقرار رکھتے ہوئے جنگ وجدل میں الجھی رہتی تو آج جس طرح یورپ جنگوں سے پاک اور ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن ہے، یہ منزل ہر گز حاصل نہ ہوتی ۔جنوبی ایشیا میں بھی ایسا ماحول چنداں مشکل نہیں اگر بھارت آبی جارحیت سے تنائو نہ بڑھائے۔ ہمسایہ ممالک میں دہشت گردوں کی سرپرستی چھوڑ دے۔ تقسیم ہند کے اصول کے مطابق مسلہ کشمیر حل کرنے میں نیک نیتی کامظاہرہ کرے۔ خطے میں امن تبھی ممکن ہے ،جب امریکہ بھی باتوں تک محدودنہ رہے اور بھارت کو اسلحہ فراہمی جیسی بے جاعنایات سے دستکش ہوجائے ۔