... loading ...
جاوید محمود
برطانوی اسپیشل فورسز کے سابق ارکان نے برسوں کی خاموشی توڑتے ہوئے پہلی بار عوامی سطح پر بیانات دیتے ہوئے ا اعتراف کیا کہ کیسے انہوں نے ایس اے ایس کے ارکان کو نیند کی حالت میں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے زیر حراست افراد کو قتل کرتے دیکھا جن میں بچے بھی شامل تھے۔ افغانستان میں ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک نوجوان لڑکے کو ہتھکڑیاں لگائیں اور اسے گولی مار دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی تلاشی لیتے انہیں ہتھکڑیاں لگاتے اور پھر انہیں گولی مار دیتے اور اس کے بعد پلاسٹک کی ہتھکڑیاں کاٹ دیتے تھے اوران کی لاش کے پاس پستول رکھ دیتے۔ رائل نیوی کی ایلیٹ اسپیشل فورس رجمنٹ ایس بی ایس کو بھی پہلی بار انتہائی سنگین الزامات میں ملوث کیا گیا ہے جس میں نہتے اور زخمی افراد کو پھانسی دینا شامل ہے ۔ایس اے ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی کے مطابق کچھ فوجیوں میں موب مینٹلٹی تھی اور انہوں نے ان کے رویے کو وحشیانہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے سب سے پرسکون لوگوں کو تبدیل ہوتے دیکھا ۔ان میں نفسیاتی امراض کی سنگین خصوصیات ظاہر ہوئیں،وہ لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہے تھے ، انہیں لگ رہا تھا کہ انہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا ۔
برطانوی فوجیوں کو طالبان جنگجوؤں اوربم منانے والوں سے بچانے کے لیے افغانستان میں خصوصی فورسز تعینات کی گئی تھیں۔ یہ جنگ برطانیہ کی مسلح افواج کے ارکان کے لیے ایک مہلک جنگ تھی جس میں 457افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو ان کے دور میں بار بار متنبہ کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی اسپیشل فورسز افغانستان میں عام شہریوں کو ہلاک کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ کچھ کاروائیوں میں فوج گیسٹ ہاؤس جیسی عمارتوں میں جاتی تھی اور وہاں موجود تمام لوگوں کو ہلاک کر دیتی تھی وہ اندر جاتے اور وہاں سوتے ہوئے سبھی لوگوں کو گولی مار دیتے لوگوں کو نیند میں مارنا جائز نہیں ہے کسی علاقے کو کنٹرول میں لانے کے بعد حملہ اور ٹیمیں علاقے میں گھس کر وہاں موجود کسی بھی شخص کو گولی مار دیتی۔ لاشوں کی جانچ پڑتال کرتی اور زندہ بن جانے والے شخص کو بھی ہلاک کر دیتی۔ عینی شاہدین نے انکشاف کیا کہ عراق اور افغانستان میں کاروائیوں کے دوران ملک کی ایلیٹ رجیمنٹوں کی جانب سے جنگی قوانین کو باقاعدگی سے اور جان بوجھ کر توڑا جا رہا تھا۔ برطانوی اور بین الاقوامی قوانین فوجیوں کو جان بوجھ کرنہتے شہریوں کو یا جنگی قیدیوں کو قتل کرنے سے روکتے ہیں۔ ایس اے ایس کے ایک سابق آپریٹر نے عراق میں ایک آپریشن کے بارے میں بھی بتایا جس کے دوران کسی کو قتل کیا گیا انہوں نے کہا کہ میں دیکھ سکتا تھا کہ بالکل واضح تھا کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا ۔وہ مسلح نہیں تھا یہ شرم ناک ہے اس میں کوئی پیشہ ورانہ مہارت نہیں ہے ۔برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے کمانڈ ڈھانچے کے اندر ہر کوئی جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ میں ذاتی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو رہا لیکن ہر کوئی جانتا ہے جو کچھ ہو رہا تھا اس کے لیے واضح منظوری تھیں۔ ہلاکتوں کی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے ایس اے ایس اور ایس بی ایس کے ارکان مرنے والوں کی لاشوں پر نام نہاد ڈراپ ہتھیار نصب کرتے تھے ۔تاکہ موقع پر اسپیشل فورسز کی ٹیموں کی جانب سے باقاعدگی سے لی جانے والی تصاویر میں ایسا لگ سکے کہ وہ مسلح ہیں۔ ایس اے ایس کے ہلکار اپنے ساتھ ایک جعلی دستی بم لے کر جاتے تھے جو پھٹ نہیں سکتا تھا اس کے علاوہ 47 رائفلیں لے کر جاتے جن میں فولڈنگ سٹاک ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے بیگز میں بآسانی ا جاتی اور اسے کسی لاش کے ساتھ رکھنا آسان ہوتا ہے۔ گواہوں کے مطابق اس کے بعد افسران پوسٹ آپریشنل رپورٹس کو غلط ثابت کرتے ہیں ۔تاکہ حملہ کرنے والی ٹیموں کی کارروائیوں کو جانچ پڑتال سے بچا سکے ۔نیٹو میں امریکہ کے سابق سفیر جنرل ڈگلس لوٹ نے کہا کہ افغان صدر رات کے وقت چھاپوں میں شہریوں کی ہلاکتوں اور حراستوں کے بارے میں اپنی شکایت اتنی مستقل کرتے رہے کہ کوئی بھی سینئر مغربی سفارت کار یا فوجی رہنما اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرتا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک بڑی پریشانی تھی۔ جنرل لوٹ نے کہا کہ یہ حد درجہ غیر معمولی ہوتا اگر برطانوی افواج کے خلاف کوئی ایسا دعویٰ کیا جاتا جس کے بارے میں برطانوی چیف اف کمانڈ کو علم نہیں ہوتا۔ لارڈ کیمرون کے ایک ترجمان نے پنورامہ کو بتایا کہ لارڈ کیمرون کی یادداشت کے مطابق صدر کرزئی جانب سے اٹھائے گئے مسائل عمومی طور پر نیٹو افواج کے بارے میں تھے اور برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے حوالے سے مخصوص واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا ۔ترجمان نے یہ بھی کہا کہ یہ درست ہے کہ ہم انکوائری کے سرکاری نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔ امریکہ اور فرانس سمیت بہت سے دوسرے ممالک کے برعکس برطانیہ کے پاس اپنی ایلیٹ ا سپیشل فورس رجمنٹوں کی کوئی پارلیمانی نگراں نہیں ہے۔ ان کے اقدامات کی اسٹریٹیجک ذمہ داری بالاخر وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع اور اس اسپیشل فورسز کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے ۔سابق ڈائریکٹر آف سروس پراسیکیوشن بروس ہولڈر کے مطابق انہیں امید ہے کہ عوامی تحقیقات میں اس چیز کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ لارڈ کیمرون کو برطانوی اسپیشل فورسز کی کارروائیوں میں شہری ہلاکتوں کے بارے میں کتنا علم تھا۔ بروس ہولڈر کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ بیماری کس حد تک بڑھ چکی ہے ۔
تصور کریں عراق اور افغانستان میں جس بیدردی سے انسانیت کا قتل عام کیا گیا اگر اس طرح کے اقدامات کسی مسلمان سربراہ کی نگرانی میں کیا جاتا تو یقینا اس کا انجام بھی عراق کی طرح ہوتا۔ مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر کیوں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔