... loading ...
حمیداللہ بھٹی
22 اپریل سے جنم لینے والی پاک بھارت کشیدگی ہنوز برقرارہے جو اِس بناپر تشویشناک ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نہ صرف جوہری طاقتیں ہیں بلکہ حکومتیں اور عوام بھی جذباتی ہیںمگر طیش کے باوجود بھارت ابھی تک حملہ نہیں کر سکا جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ تو پاکستان کا ذمہ دارانہ موقف ہے۔ آزاد اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے نے عالمی سطح پر بھارت کو مظلوم اور معصوم نہیں بننے دیا ۔شاید اُسے کامل یقین تھا کہ جس طرح بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقے جموں و کشمیر کو ضم کر نے کے باوجوداقوامِ عالم نے کسی تشویش یااضطراب کا اظہار نہیں کیاتھا اب پہلگام واقعہ کو جواز بنا کر جب سندھ طاس معاہدے یکطرفہ طور پر ختم اورپاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرے گا توباآسانی حمایت حاصل ہوجائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ عالمی میڈیا نے اِس واقعہ کو محض ایک خبر کے طورپر لیا ہے۔ دراصل بھارت ایک جھوٹا اور مکار ملک ہے جس کے ماضی میں کئی فالس فلیگ آپریشن بے نقاب ہو چکے۔ اسی لیے 22اپریل کو جب بھارت کی مذہبی جنونی قیادت نے دہشت گردی کی آہ وبقا شروع کی تو کسی نے سنجیدہ نہ لیا ۔بھارت کو ٹرمپ انتظامیہ سے توقع تھی کہ چین کا مدِ مقابل ہونے کی بنا پر ساتھ دے گی لیکن یہ توقع بھی اُس وقت نقشِ برآب ثابت ہوئی جب پاکستان کی موثر سفارتکاری کی بدولت بھارت سلامتی کونسل کی قرارداد میں اپنی پسندکے الفاظ شامل کرانے میں ناکام ہو گیا لیکن کیا مکار،جھوٹا اورسازشی بھارت خاموشی اختیار کرلے گا؟ کے جواب میں ہاں کہنا مشکل ہے البتہ کسی بڑے ٹکرائو کے امکانات نہیں لیکن پنجاب اور کشمیر کی حدتک سرحدی جھڑپیں ہوسکتی ہیں تاکہ متوقع ریاستی انتخابات میں بی جے پی سیاسی فوائد حاصل کر سکے۔
غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں جارح قوتوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔وہ جس طرح اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کوپائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے وحشیانہ اورسفاکانہ کاروائیاں کررہا ہے وہ طاقتورممالک کے لیے آئیڈیل ہیں لیکن بھارت یہ بھول گیا کہ نہ تو وہ اسرائیل ہے اور نہ ہی پاکستان فلسطین،شام یا لبنان ہے۔ مزید یہ کہ جنوبی ایشیا مڈل ایسٹ کی طرح تیل کی دولت سے بھی مالا مال نہیں۔ اسی بناپر یہاں عالمی طاقتوں کی دلچسپی ویسی نہیں ۔مزیدیہ کہ امریکی انتظامیہ میں پاکستان کی خیر خواہ لابی موجودہے جوتبدیل شدہ عالمی منظر نامے کے باوجود آج بھی پاکستانی مفادات کی نگہبان ہے۔ دوسرا مضبوط اور دوٹوک چینی حمایت ہے جس کی طرف سے حملے کی بروقت تحقیقات کے مطالبے اور اسلام آباد کی سلامتی وخودمختاری کی حمایت نے پاکستان مخالف فضانہ بننے دی۔ آجکل ٹرمپ ٹیرف میں کمی کے لیے چین سے مفاہمت کے آرزومند ہیں۔ وہ بھارت کی بے جاحمایت سے چین کو مزید ناراض نہیں کر سکتے۔ تیسرا روس بھی اب ماضی کی طرح پاکستان کو دشمن تصور نہیں کرتا۔ بلکہ ماضی کی تلخیاں بُھلا کر اشتراک و تعاون کی روش پر گامزن ہے۔ اگر بھارت نے پابندیوں کے باوجودروس سے تیل و دیگر سامان درآمد کیا تو پاکستان نے بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی پرواہ کیے بغیر درآمدات کیں ۔اِس لیے روس نے ایک پلڑے میں وزن ڈالنے کے بجائے حقیقت پر مبنی غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا اِس میں کچھ چینی خوشنودی حاصل کرنے کا بھی عمل دخل ہے ۔
پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کے متفقہ موقف نے بھارت کی مذہبی جنونی قیادت کو پریشان کر دیا ہے ۔شاید اُس کا خیال تھا کہ معاشی طورپر کمزوراور سیاسی حوالے سے غیر مستحکم پاکستان مقابلہ سے اجتناب کرے گامگر خلافِ توقع ایسا کچھ نہ ہوابلکہ ہرقسم کی تجارت بند کرنے کے ساتھ پاکستان نے اپنی فضائی حدودتک بھارت کے لیے بند کردیں۔ یہ جواب توقعات سے بڑھ کر تھا۔ آبی جارحیت کو جنگی اقدام تصور کرنے کے اعلان سے واضح ہو گیا کہ پاکستان دفاعی حکمت ِعملی تک محدود رہنے کی بجائے حملہ بھی کر سکتا ہے ۔قلیل مدت میں بری ، فضائی اور بحری قوت کو فعال کر نا اسی طرف اِشارہ تھا میزائل نظام کی تنصیب میں کمال سُرعت کا مظاہرہ بے خوفی کی دلیل ہے۔ یہ اقدامات فروری 2019کی طرح ایک اور حیران کُن جواب کے آثار کوقوی تربنانے کے لیے کافی تھے جس سے مودی ،راج ناتھ ،امیت شاہ اور اجیت ڈوول جیسے منہ سے جھاگ اُڑاتے لوگ بے بس و لاچار ہوئے۔ یہ بے بسی اور لاچاری ہی تھی کہ بہار جلسے میں تقریرکرتے ہوئے مودی نے پاکستان کا نام لینے سے اجتناب کیا۔
بھارت اپنے حجم اور عسکری نفری کے زعم میں یہ بھول جاتا ہے کہ ایسے ناز و زعم نے امریکہ کو ویت نام میں ذلیل و رسوا کیا ۔روس کو افغانستان میں ایسی پسپائی سے دوچارکیا کہ بکھرتا چلا گیا۔ افغانستان سے امریکی قیادت میں برسرِ پیکار نیٹو افواج دن رات سرپٹخنے کے باوجودآخرکارانخلا پر مجبور ہوئیں ۔پاکستان تو ایک ایسی جوہری طاقت ہے جس نے بے سروسامانی کی حالت میں بھی قیام کے صرف ایک برس بعدہی1948کی جنگ بہادری سے لڑی۔ 1965میں بھی بھارت کو ایسی دھول چٹائی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ بھارتی میڈیا 1971کے واقعات کی بات کرتا ہے حالانکہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ مغربی پاکستان سے سولہ سو کلومیٹر دور مشرقی علاقے کی ایسی بغاوت تھی جو بھارتی سرپرستی میں بنائی گئی۔ مُکتی باہنی نے برپا کی سیاچین اور کارگل کی محدودلڑائیوں میں پاک فوج نے آٹھ گُنا بڑے دشمن کو دندان شکن جواب دیا اورپھر 20219کی فضائی جھڑپ تو ایساجواب ہے جس نے پاک فوج کی حربی صلاحیت کی دھاک بٹھا دی پاکستان کا جوہری اور میزائل پروگرام جدیدترین ہے ۔اُس کی طاقتورفضائی،بری اور بحری فوج کسی بھی وقت اور کہیں بھی حیران کُن نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ بھارتی لڑاکا طیارے جنگ سے قبل ہی گر تے یا اپنے شہروں پر بمباری کرتے نظرآتے ہیں۔ بری فوج کے پاس ازکاررفتہ ہتھیارہیں۔ مشرقی پنجاب کے سکھ لڑائی کی صورت میں پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اسی بناپر ماہرین کاکہناہے کہ بھارت کسی بڑی جنگ لڑنے کے قابل ہی نہیں اور فالس فلیگ آپریشن سے مودی نے اپنی زوال پذیر سیاسی ساکھ کو سہارہ دینے کی حماقت کی ہے مگرحقائق سے لا علم جنونی بھارتی میڈیا جنگ کاماحول بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ بھارت تو علیحدگی کی تحریکوں پر قابو پانے میں ناکام ہے لیکن مشرقی سرحد پر سخت کشیدگی کے باوجود بھارتی ایما پر افغان سرحد سے ہونے والی دراندازی کو پاکستان نے کچھ اِس طرح ناکام بنایا ہے کہ جدید ترین اسلحہ سے لیس تمام تر 54دہشت گردوں کو بھون کررکھ دیا ۔لڑائی کے ایسے تجربے ،مہارت اور صلاحیت کا بھارتی فوج میںعشرعشیربھی نہیں ۔لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اول تو جنگ ہو گی نہیں البتہ محدود نوعیت کی جھڑپوں کاامکان ہے۔ اِس وقت کچھ دوست ممالک کشیدگی ختم کرانے میں مصروف ہیں ۔اگربڑی جنگ ہوتی ہے تو پاک فوج ایسے حیران کُن نتائج دے سکتی ہے کہ بھارت کو لینے کے دینے پڑ جائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔