وجود

... loading ...

وجود

چین کا میٹھے پانی پر کنٹرول

هفته 08 فروری 2025 چین کا میٹھے پانی پر کنٹرول

ریاض احمدچودھری

چین میں 1990 سے صنعتی ترقی عروج پر ہے اور اس کے شمالی علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کرنے کی غرض سے اس 2002 میں قریباً 630 بلین ڈالر کی لاگت سے سالانہ 38 سے 48 ارب کیوبک میٹر پانی کے بہاؤ کو جنوب سے شمالی علاقوں کی طرف موڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں پہلے ہی ساٹھ فیصد کام مکمل کر چکا ہے۔بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت اپنے تحفظات اور خیالات کو مسلسل چین کی حکومت تک پہنچاتا رہا ہے اور چین سے مسلسل کہہ رہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے کسی منصوبے سے پڑوسی ممالک کے مفادات متاثر نہ ہوں۔البتہ چین کی جانب سے ڈیم کی تعمیر کے اعلان کے چند دن بعد بھارت کی وزارت پانی نے بتایا کہ بھارت بھی براہما پترا پر ایک بڑا ڈیم تعمیر کرنے کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا ہے تاکہ چین کے ڈیم کی تعمیر سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے مابین پانی کی جنگ اگر چھڑ گئی تو یہ قابو سے باہر ہو سکتی ہے اور بنگلہ دیش کو اس سے بھی بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ ابھی تک اس ڈیم کے مقام کی تصدیق نہیں کی گئی ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہماچل پردیش کے اوپر اس موڑ پر تعمیر کیا جائے گا جسے گریٹ بینڈ کے طور جانا جاتا ہے۔ اس مقام سے دریائے یرلانگ ڑانگبو ایک تیز چکر کاٹ کر ہماچل پردیش میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کا نام براہماپترا میں بدل جاتا ہے۔
براہما پترا دریا بھارت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت کے دریاؤں میں بہنے والے مجموعی پانی میں براہماپترا کا حصہ 29 فیصد ہے اور جبکہ بھارت میں پن بجلی کا چالیس فیصد براہماپترا کے دریا پر منحصر ہے۔بھارت میں ماہرین ایسے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ چین کی طرف سے ایک ایسے مقام پر ‘سپر ڈیم’ کی تعمیر ایسی جگہ پر ہو رہی ہے جو اگر کسی قدرتی آفت کی وجہ سے ٹوٹ گیا تو چین کو تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہو گا لیکن بھارت کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔بھارت کو ہمالیہ میں چین سے زمینی خطرہ ہے، سمندر میں اس کی حدود پر تجاوز ہو رہا ہے اور تازہ خبر پانی کی جنگ کی یاد دہانی ہے۔
بھارت اور چین کے مابین پانی کی تقسیم کے حوالے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ چین اور بھارت نے 2002 میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئر کرنے کا ایک معاہدہ کر رکھا ہے لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ 2017 میں ڈوکلام کے علاقے بھارت اور چین کے فوجوں کے مابین کشیدگی کے بعد سے چین نے وہ تعاون بھی ختم کر دیا ہے۔ دوسری طرف تبت دنیا بھر میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور یہاں سے دس بڑے دریا بہتے ہیں جس پر افغانستان سے لے کر ویتنام تک دو ارب سے زیادہ لوگوں کا انحصار ہے۔دنیا میں موجود پانی میں سے صرف اڑھائی فیصد میٹھا پانی ہے اور اس کا آدھے سے زیادہ حصہ قطبی شمالی کی برف میں پھنسا ہوا ہے۔ دنیا میں صنعتی ترقی کی وجہ سے میٹھے پانی کی دستیابی میں دن بدن کمی ہو رہی ہے۔تبت سے نکلنے والے دس بڑی دریاؤں میں ییلو، یانگزی، میکانگ (چین) دریائے سندھ (پاکستان)، ستلج، براہماپترا (یرلانگ زنگبو) (بھارت) سلوین (میانمار)، اراوادی (میانمار) اور دریائے بھوتی (نیپال) شامل ہیں۔چین کو اپنی بالائی پوزیشن کی وجہ سے میٹھے پانی پر اجارہ داری حاصل ہے۔
چینی حکومت نے پچھلے ماہ تبت کے دریائے یارلنگ زنگبو پر ”میدوگ ہائیڈروپاور اسٹیشن ”نامی ڈیم بنانے کی منظوری دی یہ تکمیل کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہو گا جس پہ 137ارب ڈالرلاگت آئیگی اور یہ ”60 ہزار میگاواٹ” بجلی پیدا کرے گا۔یعنی پاکستان میں بجلی کی ضرورت سے بھی دوگنا زیادہ تاہم ڈیم بنانے کی خبر نے بھارتی حکومت کے ایوانوں میں ہلچل پیدا کر دی، وجہ یہ ہے کہ تبتی دریا بھارت میں داخل ہو کر ارونا چل پردیش میں ”سیانگ” اور آسام میں ”برہم پترا ”کہلاتا ہے۔یہ دونوں ریاستوں میں لاکھوں ایکڑ کھیت اور چائے کے باغات سیراب کرتا ہے، نیز بھارت دریا پر دو ڈیم بنا رہا ہے، چینی ڈیم بنا تو بھارت کو خدشہ ہے نہ صرف بھارتی کھیتوں کا وسیع رقبہ پانی سے محروم ہو گا بلکہ بھارتی ڈیم بھی بجلی پیدا نہیں کر سکیں۔ چینی ڈیم کو سخت خطرہ سمجھتے ہوئے بھارت نے چینی منصوبے کے قریب ہی دریائے سیانگ پر اپنا ڈیم”اپر سیانگ ہایڈروالیکٹرک پروجیکٹ”بنانے کا اعلان کر دیا، یہ ڈیم تکمیل پر 10 سے 12 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا یوں وہ پاک وہند کا سب سے بڑا ڈیم بن جائے گا۔
بھارت نے چین کیساتھ پانی کی جنگ بھی چھیڑ دی ہے۔ چین نے دریائے یار لونگ زونگ بو پر سْپر ڈیم بنانے کا جو اعلان کیا ہے،اسے متنازعہ بنانے کیلئے بھارتی میڈیا نے مہم شروع کر دی ہے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ سپر ڈیم کے ذریعے چین تبت کے پانی کو بھارت کیخلاف استعمال کرے گا۔ مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین کا سپر ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ در اصل چین بھارت سرحدی تنازعہ کا شاخسانہ ہے۔
ہندوستان ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ چین تبت میں نوے ہزار مربع کلو میٹر علاقے کے بارے میں دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ چین کا علاقہ ہے۔ چین جو ڈیم تعمیر کر رہا ہے وہ ہندوستان کی سرحد سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ ڈیم بنا کر چین دریائے برہم پترا کے پانی کو کم کر دے گا اور یہ ڈیم چین کے سب سے بڑے ڈیم تھری گارجز ڈیم سے بھی تین گنا زیادہ بجلی پیدا کرے گا۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائینہ کے چیئرمین یان زیانگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ دنیا میں اس جیسے منصوبے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔اس منصوبے کے بارے میں کافی عرصے سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں لیکن اب کمیونسٹ پارٹی کے حالیہ اجلاس میں جن منصوبوں کو اگلے پانچ برسوں میں مکمل کرنے کی منظوری دی گئی ہے ان میں یرلانگ ڑانگبو ڈیم بھی شامل ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر