وجود

... loading ...

وجود

طے شدہ معاملات تبدیل کیے تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا،مولانا فضل الرحمن

منگل 17 دسمبر 2024 طے شدہ معاملات تبدیل کیے تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا،مولانا فضل الرحمن

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود ہے ، مدارس بل کے طے شدہ معاملات میں تبدیلی ہوئی تو پھر فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں، لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمے داریاں بھی یہ ایوان نبھار ہا ہے ۔ ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے 26ویں آئینی ترمیم پاس کی اور یوں سمجھیں کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ تھا۔ اس میں تمام پارٹیاں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر آن بورڈ تھیں ، اگرچہ بڑی اپوزیشن پارٹی نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی اور اس حوالے سے مذاکرات کا عمل بھی ایک عرصے سے زائد رہا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس میں تمام پارٹیاں اپوزیشن اور حکومتی بینچز آن بورڈ تھیں۔ سیاست میں یہی ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوتے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں،دلائل سے سمجھاتے ہیں اور پھر مسئلہ ایک حل کی طرف پہنچ جاتا ہے ۔سربراہ جے یو آئی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے ، ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد قانون سازی ہوئی ۔ کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے ۔ خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔ وہاں ڈرانے دھمکانے اور پریشان کرنے کا سلسلہ چل رہا تھا، جس پر سنجیدہ شکایت اٹھی۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2010 میں دوبارہ معاہدہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کے حوالے سے کوئی شکایت براہ راست مدرسے میں جاکر نہیں کی جائے گی بلکہ اس تنظیم سے کی جائے گی جس کے ساتھ اس مدرسے کا الحاق ہے ۔ ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی ۔فضل الرحمن نے کہا کہ پھر حکومت نے کہا مدارس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں ۔ پھر وزرات تعلیم کی بات آئی اور بات چیت ہوتی رہی۔ وہ ایکٹ نہیں بنا لیکن محض معاہدہ تھا ، جو 3 باتوں پر مشتمل تھا۔ ایک یہ کہ دینی مدارس جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی۔ نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی۔ دوسری بات یہ کہ دینی مدارس مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے اور تیسری بات یہ کہ غیر ملکی طلبہ جن پر پابندی ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم حاصل کریں، انہیں اجازت دے کر 9سال کا ویزا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعدایجوکیشن بورڈ بنا، پھر 12 مراکز بنائے گئے ، یہ سب بعد کے ایگزیکٹو آرڈرز ہیں، ان کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آج اگر کوئی اس کی بات کرتا ہے تو یہ پس از مرگ واویلا کی بات ہے ۔ وہ معاہدہ حکومت کی طرف سے ٹوٹ چکا تھا۔ آج تک تنظیمات مدارس دینیہ سے وابستہ نہ کسی مدرسے کی رجسٹریشن ہو چکی ہے نہ ہی کس مدرسے کا اکاؤنٹ کھل سکا ہے نہ ہی کسی مدرسے کے ایک بھی طالب علم کو ویزا دیا گیا ہے ۔جے یو آئی کے سربراہ نے مزید کہا کہ بعد میں کسی کے فیض سے مدارس توڑ دیے گئے ۔ اب تک یہی 5 بورڈز تھے ، اس کے بعد 20، 25 بنا دیے گئے ۔ جس کا نہ 2004 کے حوالے سے کوئی کردار ہے نہ 2010ء کے معاہدے سے کوئی کردار ہے ۔ اور نہ ہی اس کا کوئی جو ہماری حالیہ قانون سازی ہو رہی تھی اس سے کوئی تعلق ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے جو پی ڈی ایم کی حکومت تھی، میں نے وزیراعظم شہباز شریف سے عرض کیا کہ ایک مسئلہ الجھا ہوا ہے اسے پورا کریں جس پر انہوں نے ہامی بھری اور بات چیت ہوئی۔ تنظیمات مدارس کے تمام قائدین کو بلایا اور ان کی مشاورت و مشارکت کے ساتھ اصول طے کیے گئے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کیا کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہم سے اجازت لیے بغیر آپ نے ہماری تنظیموں کو توڑا اور وہ تنظیمیں جن کو ہم نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس آزاد ہوں گے خواہ وہ وہاں رجسٹریشن کرائیں یا سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرائیں، اس پر وزیر قانون کی طرف سے ڈرافٹ بنا اور جس طرح معاہدہ ہوا تھا، اسی کے مطابق ڈارفٹ آیا اور یہاں ایوان میں پیش ہوا۔ یہاں ایوان میں اس کی پہلی خواندگی ہوئی اور جب دوسری خواندگی شق وار ہو رہی تھی تو نہ جانے کہاں سے کیا ہدایات آتی رہیں کہ دوران قانون سازی اس میں تبدیلیاں لائی گئیں اور پھر ہم نے کہا کہ ہم اس قانون سازی کا حصہ نہیں بنتے ۔ کیوں کہ یہ اس معاہدے جو ہمارے باہمی اتفاق رائے سے ہوا تھا، اس میں تبدیلی تھی۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ایوان کے اندر جب 26 ویں ترمیم پر بات ہو رہی تھی تو ہم نے اس میں کہا کہ ایک مرحوم بل، ایک معصوم بل سے پہلے جس پر اتفاق ہوا، جس کا یہاں قتل کیا گیا آئیے ، اسے بھی لے آئیں۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ آپ ان مدارس کو اس میں سے نکال دیں لیکن ڈرافٹ جو پاس ہوا ہے ، اس میں وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ان مدارس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں بنایا یہ حکومت کی طرف سے آیا۔ ہم نے اسے بھی قبول کیا تھا کیوں کہ ہمارا کوئی اعتراض نہیں تھا اور بل پاس ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ اگر یہاں ایاز صادق موجود ہوتے تو میں ان کے روبرو عرض کرتا۔ یہاں 20 اکتوبر اور 21 اکتوبر رات 12 بجے کے بعد صبح تک یہ قانون قومی اسمبلی سے بھی پاس ہوگیا، سینیٹ سے پہلے پاس ہو چکا تھا۔اب سوال یہ ہے کہ 28 اکتوبر کو صدر مملکت اس بل پر ایک اعتراض بھیجتے ہیں ، ظاہر ہے دونوں ایوانوں میں جو بل آتا ہے ، تو جس ایوان میں
آخر میں پاس ہوتا ہے ، وہیں سے صدر کے پاس جاتا ہے اور وہاں سے کوئی اعتراض ہوا تو پھر اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس آیا، جس پر اسپیکر نے اسے ایک قلمی غلطی قرار دے کر اس کی تصحیح کردی۔اسپیکر صاحب نے آئین کے آرٹیکل 75 کا حوالہ دے کر صدر کے پاس جواب بھیجا۔ تاریخ 28 اکتوبر تھی تو اس کا مطلب ہے کہ صدر صاحب کو یہ بل موصول ہو چکا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہماری قطعی رائے ہے اور تمام تنظیمات مدارس نے متفقہ طور پر طے کیا کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے اور جناب اسپیکر سردار ایاز صادق صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ الفاظ استعمال کیے کہ ہماری کتابوں کے مطابق تو یہ ایکٹ بن چکا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ باتیں کرنا کہ وہ بھی تو مدارس ہیں تو تھوڑی سی تبدیلی اگر کردی جائے تو گنجائش جو پہلے نکالی گئی تھی اب بھی نکال دی جائے ، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ بحث اس بات پر ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ کیسی نظیر قائم کی جا رہی ہے ۔ اگر آج ہم نے اس میں ترمیم پر گفتگو کی، اسے ایکٹ تسلیم نہ کرتے ہوئے ، اس میں ترمیم شامل کرکے دوبارہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی یا مشترکہ اجلاس بلایا تو یہ آئین کی بھی خلاف ورزی تو یہ ایک غلط نظیر قائم ہوگی اور آئین کی بھی خلاف ورزی ہوگی، جس سے آنے والے وقتوں میں ہر پاکستانی کے لیے ، ہر پارلیمنٹ اور حکومت کے لیے مشکل پیش آتی رہے گی اور اس دستخط کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔فضل الرحمن نے کہا کہ ہم ایوان کا استحقاق، آئین کے استحقاق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایوان صدر سے ہماری شکایت ہے کہ آپ کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے ۔ اس پر اب کوئی تاویل نہیں چلے گی۔ میں نے بھی اسی مدرسے ، ہاؤس میں 40 سال گزارے ہیں۔ ہم آئین کو کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے ۔ ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم پر ایک ماہ سے زیادہ بحث ہوتی رہی اور بالآخر ہم ایک اتفاق رائے پر پہنچے ۔ 56 شقوں پر مشتمل پہلا ابتدائی ڈرافٹ جس پر مذاکرات کے نتیجے میں حکومت 34 شقوں سے دستبردار ہوئی اور 22 پر وہ آیا اور ہم نے اس میں 5 ترامیم پیش کی جو 27 شقوں کی شکل اختیار کرگیا۔ اس کے لیے میں کراچی گیا، بلاول ہاؤس گیا، گھنٹوں مذاکرات کیے ، دینی مدارس کا بل وہاں ڈسکس ہوا، اگلے روز ہم لاہور آئے اور نواز شریف کے گھر پر 5 گھنٹے ہم نے اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور ایک اتفاق رائے پایا گیا اور پھر میں نے پی ٹی آئی کے دوستوں کو اعتماد میں لیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کے ایک رکن کو بھی اس تمام پیش رفت سے غافل نہیں رکھا۔ اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے ۔ ایک اتفاق رائے پارلیمنٹ کا ہوا ہے تو صاحب کہتے ہیں کہ آئیے کہ وہ فلاں فلاں پاکستان کے ساتھ تعاون چھوڑ دیں گے ، مدد نہیں کریں گے ، ناراض ہو جائیں گے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ راز تو آج ہم پر کھلا ہے کہ کیا ہماری قانون سازی ان کی ہدایت کے مطابق اور ان کی رضامندی کے ساتھ ہوگی۔ کیا ہم آزادملک نہیں ہیں؟ اگر ہم آزاد نہیں تو کہہ دیا جائے کہ ہم واقعتاً غلام ہیں پھر ہم جانیں اور غلامی جانے ، کس طرح کوئی پاکستان پر غلامی مسلط کرتا ہے ۔ مگر یہ افسوس ناک باتیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکا کے کانگریس میں یا وہاں کے کسی ایوان میں ایک رکن قرارداد پیش کرتا ہے اور وہ قرارداد عمران خان کی رہائی کے لیے ہے یا پی ٹی آئی کے حق میں جاتا ہے تو آپ یہاں قرارداد پاس کرتے ہیں کہ امریکا کو پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔ یہ پاکستان کے معاملات میں دخل دینا اس کا تعلق صرف عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ؟ کیا ہمارے آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں ہے ، کیا ہماری قانون سازی کے
ساتھ نہیں ہے ؟ایوان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کیا یہ حوالہ دیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف ناراض ہو جائے گایہ سب تاویلات ہم کیسے قبول کریں گے ؟ اور یہ کیسے ہمارے لیے دلیل بنیں گی۔ اس حوالے سے ملک بھر میں ایک شدید قسم کی ناراضی پائی جا رہی ہے اور ہم رفتہ رفتہ اس کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم کسی تلخی کی طرف نہ جائیں کیوں پاکستان کے حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ دینی جماعتیں آپ سے تعاون کررہی ہیں۔ یہ 2001 نہیں ہے ۔ یہ نائن الیون کا سال نہیں ہے ۔ دینی مدارس نے 23، 24 سال ثابت کر دکھایا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم جمہوریت اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، پھر ان کا امتحان کس لیے لیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ تکلیف اس بات کی ہے کہ اس ملک میں مذہبی تعلیم کیوں ہے ؟ اس کے لیے مختلف ادارے کیوں ہیں؟ قرآن و حدیث اور فقہ پڑھانے کے لیے مدارس قائم کیوں کیے گئے ہیں؟ یہ بات تو پھر آج کی نہیں ہے ۔ جب علی گڑھ مدرسہ قائم ہوا اور اس کے نصاب کے لارڈ میکالے نے قرآن و حدیث، فقہ، عربی، فارسی نکال دی تو سب نکالنے کے بعد اس کے مقابلے میں مدرسہ بنا جس نے ان ہی علوم کو تحفظ دیا جس کو انگریز اپنے ساتھ لے گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں جدید علوم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی جو قائداعظم کے رفیق تھے جنہوں نے پاکستان کا پہلا جھنڈا لہرایا۔ اسی طرح مفتی محمد شفیع عثمانی 1951 تک اس حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے ، اب تو نہ ہندو ہے نہ انگریز ہے ، آئیے نئے ملک میں نیا نصاب تجویز کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچے تقسیم نہ ہوں لیکن یہاں پر بھی انہیں پذیرائی نہیں ملی۔انہوں نے کہا کہ اب دینی مدرسے کے نصاب کو قبول نہ کرنا یہ پاکستان کی ابتدا سے آج تک ہماری بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت ہے ، وہی کارفرما ہے جسے آج نائن الیون کے بعد نئی سپورٹ عالمی سطح پر مل رہی ہے جو کسی بھی طریقے سے مدارس کے نظام کو تہس نہس کرنا چاہتی ہے ، جب کہ ہم نے تو جدید علوم سے انکار نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے ساتھ ایسا رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم مدارس کی حریت و آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن ملک میں قانون سے ماورا زندگی نہیں گزارنا چاہتے ۔ ہم قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوکر رہنا چاہتے ہیں۔آخر میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ دینی مدارس کے مسلمہ بورڈز کے نظام کو خراب کررہے ہیں، انہیں رجسٹرڈ نہیں ہونے دے رہے ، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ رجسٹریشن نہیں کریں گے تو مدرسہ ختم ہو جائے گا۔ آپ آج نہیں، 100 سال تک بھی رجسٹریشن نہ کریں، خداکی قسم دینی مدرسہ زندہ رہے گا، برقرار رہے گا۔ آپ بینک اکاؤنٹ نہ کھولیں، پیسے پھر بھی آئیں گے ، لیکن خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کو برباد نہ کیجیے ۔ ہم ایوان اور پارلیمنٹ سے اجازت لے چکے ہیں، ایکٹ بن چکا ہے ، اس پر نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا۔ حالات بگاڑ کی طرف نہ لے کے جایا جائے ۔ اگر طے شدہ بات میں کچھ تبدیلی ہوئی تو پھر ایوان نہیں میدان میں فیصلہ ہوگا۔


متعلقہ خبریں


حکومت کا مینڈیٹ جعلی،عمران خان گرفتار کیوں ہیں،مولانا فضل الرحمان وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...

حکومت کا مینڈیٹ جعلی،عمران خان گرفتار کیوں ہیں،مولانا فضل الرحمان

سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...

سہیل آفریدی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری

آسٹریلیا کا نفرت پھیلانیوالوں کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 19 دسمبر 2025

حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...

آسٹریلیا کا نفرت پھیلانیوالوں کے ویزے منسوخ کرنے کا فیصلہ

سڈنی حملہ،بھارت دہشت گردی کا مرکز قرار،عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی بے نقاب وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...

سڈنی حملہ،بھارت دہشت گردی کا مرکز قرار،عالمی سطح پر ریاستی سرپرستی بے نقاب

سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...

سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع

سڈنی حملہ،آسٹریلیا میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی وجود - بدھ 17 دسمبر 2025

سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...

سڈنی حملہ،آسٹریلیا میں مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی

بھارت، اسرائیل کی پاکستان کیخلاف سازشیں ناکام، سڈنی حملے میں بھارت خود ملوث نکلا وجود - منگل 16 دسمبر 2025

سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...

بھارت، اسرائیل کی پاکستان کیخلاف سازشیں ناکام، سڈنی حملے میں بھارت خود ملوث نکلا

آئی ایم ایف نے تجارتی پالیسیوں اور کسٹمزاسٹرکچر پر سوالات اٹھا دیے وجود - منگل 16 دسمبر 2025

پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...

آئی ایم ایف نے تجارتی پالیسیوں اور کسٹمزاسٹرکچر پر سوالات اٹھا دیے

پنڈورا باکس نہ کھولیں، سب کی پگڑیاں اچھلیں گی( جسٹس طارق محمود جہانگیری) وجود - منگل 16 دسمبر 2025

میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...

پنڈورا باکس نہ کھولیں، سب کی پگڑیاں اچھلیں گی( جسٹس طارق محمود جہانگیری)

ڈیرہ اسماعیل خان میں آپریشن، 7دہشگرد ہلاک( سپاہی شہید) وجود - منگل 16 دسمبر 2025

سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...

ڈیرہ اسماعیل خان میں آپریشن، 7دہشگرد ہلاک( سپاہی شہید)

معاشی مشکلات سے آئی ایم ایف نہیں کراچی نکال سکتاہے،مصطفی کمال وجود - منگل 16 دسمبر 2025

کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...

معاشی مشکلات سے آئی ایم ایف نہیں کراچی نکال سکتاہے،مصطفی کمال

بجلی کی ترسیل کارکمپنیوں کی نجکاری کاعمل تیز کیا جائے ،وزیراعظم وجود - منگل 16 دسمبر 2025

ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...

بجلی کی ترسیل کارکمپنیوں کی نجکاری کاعمل تیز کیا جائے ،وزیراعظم

مضامین
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ وجود پیر 22 دسمبر 2025
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ

مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل وجود پیر 22 دسمبر 2025
مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل

بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق وجود پیر 22 دسمبر 2025
بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق

پٹنہ واقعہ حجاب پر ہاتھ، وقار پر وار وجود اتوار 21 دسمبر 2025
پٹنہ واقعہ حجاب پر ہاتھ، وقار پر وار

مودی کے دور میں کالا دھن وجود اتوار 21 دسمبر 2025
مودی کے دور میں کالا دھن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر